سانحہ12مئی، سپریم کورٹ پر ایک قرض، ایک ادھار

وہ دن پاکستان کی تاریخ کا کتنا سیاہ اور بھیانک دن تھا جب 12 مئی 2007 کو ”منی پاکستان“ کراچی کو خاک اور خون میں نہلا دیا گیا، ایک آمر، بے حمیت کے چیلے چانٹوں نے صرف اپنی سیاسی دھاک بٹھانے کے لئے اور کراچی کے لوگوں کی سوچ کو باقی پاکستان سے علیحدہ ثابت کرنے کے لئے نہ صرف چیف جسٹس افتخار چودھری کی کراچی آمد پر ”پابندی“ لگا دی بلکہ اس شہر کے ایک کروڑ سے زائد لوگوں کے حقوق کو بھی بڑے برے طریقے سے پامال کیا گیا۔ عینی شاہدین اور میڈیا رپورٹس کے مطابق 12 مئی کو صرف وکلاء کو ٹارگٹ نہیں کیا گیا تھا بلکہ تمام سیاسی جماعتوں (محض دو کو چھوڑ کر) کے کارکنوں اور عوام پر بھی سیدھی گولیاں چلائی گئیں اور انہیں ایک آمر کی مخالفت کا مزا چکھا دیا گیا، ایک آمر کو انکار کرنے والے جج کی حمایت کی پاداش میں سزائے موت سنا دی گئی۔ کتنا بڑا المیہ تھا ایک طرف تو کراچی میں پچاس سے زیادہ زندہ انسانوں کو لاشوں میں تبدیل کردیا گیا تو دوسری طرف مشرف اسلام آباد میں مکے لہرا رہا تھا کہ کراچی میں عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا گیا ہے، ساتھ ہی ساتھ آمر کی گود میں پلنے والے سیاسی لٹیرے اس وقت بھی اس کی تعریفوں کے پل باندھ رہے تھے۔12 مئی کو تمامتر دھمکیوں کے باوجود عوام نے سروں پر کفن باندھ کر نکلنا ضروری سمجھا اور یہ ثابت کیا کہ کراچی کے عوام کی سوچ نہ صرف پورے پاکستان کے لوگوں جیسی ہے بلکہ وہ اپنے ملک کے لئے باقی لوگوں سے بڑھ کر قربانی دینے کو تیار ہیں۔ آج بھی پورا ملک کراچی کے وکلاء اور عوام کو سلام پیش کرتا ہے۔

آج اس سانحہ کو گزرے تین برس ہوچکے ہیں، پورا ملک آج بھی سوگ میں ڈوبا ہوا ہے، خصوصاً وہ لوگ تو انتہائی رنجیدہ ہیں جن کے پیارے اس دن اس دھرتی پر اپنے آپ کو قربان کر گئے۔ وکلاء پورے ملک میں ہڑتال پر ہیں اور کراچی میں شہید ہونے والے اپنے ساتھیوں اور عوام کو خراج عقیدت پیش کررہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہڑتال کر کے وکلاء اپنے ساتھیوں، عوام اور سیاسی کارکنوں کی قربانیوں کو بھول سکتے ہیں اور ان پر شہداء کا جو قرض ہے اس سے عہدہ براء ہو سکتے ہیں، کیا وہ عدلیہ جو بلاشبہ پورے ملک کے وکلا، سیاسی کارکنوں اور عوام کی شبانہ روز محنت اور قربانیوں کے نتیجہ میں بحال ہوئی اس پر 12 مئی کے حوالے سے کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی؟ 12 مئی 2007 کے مجرموں کو ابھی تک کیوں نہیں پکڑا گیا، یہ وہ سوال ہے جو آج بالخصوص ہر محب وطن پاکستانی کے لبوں پر مچل رہا ہے۔ 12 مئی کے علاوہ کچھ اور واقعات بھی ہیں جو عدلیہ کی توجہ چاہتے ہیں جن میں ساہیوال میں مشعل بردار جلوس میں شامل وکلاء کو جلایا جانا، کراچی کے طاہر پلازہ میں وکلاء کے دفاتر کو آگ لگانے کا واقعہ، اسلام آباد میں چیف جسٹس کے استقبالی کیمپ میں دھماکہ، لاہور میں ہائی کورٹ پر پولیس کی یلغار اور اس کے نتیجہ میں درجنوں وکلاء پر بہیمانہ پولیس تشدد جیسے واقعات شامل ہیں۔

وکلاء تحریک کی بدولت ملک میں واپس آنے والی قیادت اس وقت کسی نہ کسی حکومت میں شامل ہے، کوئی کسی صوبے کا وزیر اعلیٰ ہے تو کوئی انتہائی اعلیٰ صدارتی منصب پر فائز اور ایک شخصیت تو ایسی ہے جو کوئی حکومتی عہدہ نہ ہونے کے باوجود ہر قسم کے پروٹوکول سے لطف اندوز ہورہی ہے لیکن حکومت یا کسی سیاسی شخصیت سے سانحہ 12 مئی کی تحقیقات اور مجرموں کو سزا کے حوالے سے کوئی امید نہیں رکھی جاسکتی کیونکہ کم و بیش تمام سیاسی قیادت کسی نہ کسی کے ہاتھوں یرغمال ہے، یہ سیاسی قیادت تو وہ ہے جس نے نو سال اس ملک اور یہاں کے عوام کو اذیتیں دینے والے، وطن کے بیٹے اور بیٹیوں کا سودا کرنے والے، وردی پوش اور فوج کو بدنام کرنے والے جرنیل کو سزا دینے کی بجائے سلامی دے کر رخصت کیا، ایسے حالات میں وکلاء اور عوام کس طرح سیاستدانوں سے کوئی امید رکھ سکتے ہیں؟ اگر ایسے میں کسی ادارے سے کوئی امید رکھی جاسکتی ہے تو وہ صرف اور صرف عدلیہ ہے۔ آزاد عدلیہ کو بحال ہوئے ایک سال سے زائد عرصہ ہوچکا ہے، اس ایک سال کے دوران اعلیٰ عدلیہ نے بہت سے ایسے فیصلے دئے ہیں جو موجودہ حکومت اور بعض سیاسی جماعتوں کو قطعاً پسند نہیں تھے، بہت سے واقعات ایسے بھی ہیں جن کے اعلیٰ عدلیہ نے از خود نوٹس لئے اور باقاعدہ مقدمات درج کرنے اور دیگر کاروائیاں کرنے کے احکامات صادر کئے۔ اسی لئے ابھی تک عدلیہ سے قوم کی امیدیں وابستہ ہیں لیکن سانحہ 12 مئی اور وکلاء کے خلاف دیگر غیر قانونی اعمال سرانجام دینے اور ان کے احکامات دینے والے لوگ ابھی تک مزے کررہے ہیں۔ بچہ بچہ جانتا ہے کہ 12 مئی کے مجرم کون ہیں لیکن ان مجرموں کے چہرے ابھی تک”نقابوں“ کے اندر چھپے ہوئے ہیں، جناب چیف جسٹس صاحب! وکلاء اور عوام نے ملک کر آپ کے لئے جدوجہد کی، جان و مال کی قربانیاں دیں، اس لئے کہ انہیں آپکی شکل میں ایک مسیحا نظر آیا تھا، انہیں یہ محسوس ہوا تھا کہ ساٹھ سالوں میں ہم نے جو تنزلی کا سفر طے کیا ہے، آپکی وجہ سے اس میں ”بریک“ لگ جائے گی اور ایک امید بندھی تھی کہ شائد ہم ترقی کی طرف گامزن ہوجائیں، جب جب کسی نے قربانی دی تو اس کے دل میں ایک ہی بات تھی کہ اگر عدلیہ بحال ہوگئی، آزاد ہوگئی، تو ہمارا بدلہ بھی لے گی، ہمارے ساتھ زیادتی کرنے والا چاہے کوئی بھی ہو، کسی بھی منصب جلیلہ پر سرفراز ہو، اپنے جرائم کی سزا سے نہیں بچ پائے گا....! جناب افتخار چودھری صاحب! پورے ملک کے وکلاء اور عوام، خاص طور پر 12 مئی کے دن آپ کی طرف نظریں اٹھائے ہوئے ہیں کہ آپ انہیں بھول تو نہیں گئے، وہ ابھی تک انتظار میں ہیں کہ کب ان پچاس سے زائد شہداء کے خون کا بدلہ لیا جائے گا جنہیں آپ سے اور اس وطن سے محبت کی وجہ سے جان سے جانا پڑا، جناب عالی! ان شہداء کی قربانیاں نہ صرف آپ پر بلکہ پوری اعلیٰ عدلیہ پر ایک قرض ہیں، ادھار ہیں.... قرض اور ادھار زیادہ دیر تک نہیں رکھنا چاہئے، اور ادھار کو تو ویسے بھی محبت کی قینچی کہتے ہیں....!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222541 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.