نریندرمودی وزارتِ عظمیٰ کے سنگھاسن
پربراجمان وہ پہلااور منفردبنیاہے جس نے بغل سے چھری نکال کراپنے ماتھے
پرسجا رکھی ہے۔یہ نہ صرف ایک دہشتگردتنظیم کااعلانیہ سرغنہ ہے بلکہ معقول
اورمتوازن سیاسی مبصرین کے مطابق باقاعدہ دہشت گردکے نام سے جاناپہچانا
جاتا ہے ۔جدیدترین ایٹمی ہتھیارجمع کرنے کے خونخوارجنون نے اس کے اصل عزائم
میں کوئی شبہ باقی نہیں رہنے دیامگراس کی دیدہ دلیری کی داددی جانی چاہئے
کہ وہ امن کاراگ بھی الاپے جا رہاہے گویاکہ ساری دنیانے آنکھیں بند کررکھی
ہیں۔مودی کے حالیہ دورۂ روس کے دوران بھی یہ حقیقت کھل کرسامنے آئی کہ
امریکی وروسی استعمارسے ان کے بغل بچے کوصرف ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی
ایسی لالچ ہے کہ وہ اس خطے کاسپرپاوربن کر +اکھنڈبھارت کاخواب پوراکرسکے۔
اپنے اس دورۂ روس میں نریندرمودی نے باہمی اسٹرٹیجک تعلقات کونئی بلندیوں
پرلے جاتے ہوئے چھ ارب ڈالرمالیت کے سولہ نئے معاہدوں پردستخط کیے ہیں جن
میں ایٹمی پلانٹس،میزائلوں اور(ایٹمی)ہیلی کاپٹروں کی تیاری وخریداری کے
معاہدے شامل ہیں۔روس بھارتی کمپنیوں کی معاونت سے بھارت میں چھ ایٹمی
پلانٹس تعمیرکرے گا۔دونوں ممالک کے مابین مالیت کے اعتبار سے سب سے بڑا
دفاعی سمجھوتہ روس کی دفاعی(صحیح ترین الفاظ میں)جنگی صنعت کے اہم ترین
شاہکارایس اے ۴۰۰فضائی دفاعی نظام کی خریداری ہے جس پربھارت ساڑھے چارارب
ڈالرخرچ کرے گا۔ یہ۲۰۰۱ء میں بھارت کی جانب سے۱۴۰/ایس یو۳۰ایم کے
لڑاکاطیاروں کی خریداری کے بعدسب سے بڑاسمجھوتہ ہے ۔نئے سمجھوتوں میں سے
ایک بھارت کی جانب سے روس کی ایک اورایٹمی آبدوز کرائے پرحاصل کرناہے۔اس
قسم کی پہلی آبدوز۲۰۱۲ء میں کرائے پرلی گئی تھی ۔ بھارتی بحریہ کی جانب سے
اوّل درجے کے تین فریگیٹ تیارکئے جانے کاآرڈر دیاجارہاہے جبکہ دس ارب
ڈالرکے پیڑھی نسل کے لڑاکاطیاروں کی مشترکہ تیاری کے معاہدے کوبحال
کیاجارہاہے جو قیمتوں میں اختلاف کی وجہ سے دو سال سے رکاپڑاتھا۔بھارتی
اخبارانڈیا ٹائمز نے نریندرمودی کے حوالے سے دعویٰ کیاہے کہ یہ ایٹمی
پلانٹس کے۱۲یونٹس ہیں جودومقامات(سائٹس)پرلگائےجائیں گے اوراس طرح دونوں
میں سے بھارتی حکمران کچھ عرصے سے ہائیڈروجن بم بنانے کیلئے خفیہ ایٹمی
پروگرام پرعمل کررہے ہیں ۔۲۰۱۲ء کے آغازمیں جب مزدوروں نے انڈیاکی جنوبی
ریاست کرناٹک میں سبزہ زارکی کھدائی کرناشروع کی توایک خانہ بدوش قبیلے
،لمبانی کے کئی افراد چونک گئے ۔صدیوں سے سرخ لبادوں والے حکیم اورچرواہے
ان بل کھاتی اورنشیب وفراز رکھنے والی چراگاہوں میں پھرتے دکھائی دیتے تھے
لیکن اب انہیں بغیرکسی وارننگ یاوضاحت کے ادھرآنے سے منع کردیاگیاتھا۔ موسم
خزاں تک سخت اور الجھے ہوئے بالوں والی مونگ پھلی کے کاشتکارپٹراسنگاسیٹی
نے جوکیلانی گاؤں میں رہتاتھا،ایک دن اچانک عوامی گزرگاہ کوخاردار تار سے
بندپایا۔اس کے ہمسائے نے جوایک چرواہاہے ،دیکھاکہ اس شہرسے قریبی دیہات تک
جانے والی سڑک کارخ تبدیل کردیا گیاہے،انہوں نے گاؤں کی کونسل کے رکن
کاریانہ سے پوچھاکہ یہ سب کیاہے؟کاریانہ نے بھارتی ریاست کے حکام سے پوچھا
کہ قبائلی دیہات کی زمین کے گرددیوارکیوں تعمیرکی جارہی ہے؟لیکن دوسری جانب
سے کوئی جواب نہیں دیاگیا۔
کاریانہ نے قانون کادروازہ کھٹکھٹانے کافیصلہ کیا،اس مقصدکیلئے اس نے
’’انوائرمینٹل سپورٹ گروپ‘‘کی مددحاصل کی۔یہ گروپ سرسبززمین پرغیر قانونی
تجاوازات ہٹانے کیلئے قانونی جنگ لڑتاہے تاہم اس مرتبہ یہ گروپ کچھ بھی
کرنے میں ناکام رہا۔ افسران نے اس کے وکلاء کوخبردار کیاکہ وزیر اعظم کے
دفترسے اس منصوبے کو کنٹرول کیاجارہا ہے۔ اس گروپ کے ایک بانی رکن نے کہاکہ
ہمیں بتایاگیاکہ اس مسئلے پرعدالت میں جانے کی کوئی ضرورت نہیں،تم نہیں جیت
سکتے۔جب اس سال اس مقام پرتعمیرشروع ہوئی توقبائلی عوام پرواضح ہوگیاکہ اس
منصوبے کے پیچھے دوخفیہ ادارے ہیں۔ ماہرین کے مطابق جب یہ ۲۰۱۷ء میں مکمل
ہوگاتویہ برصغیرکاسب سے بڑا'فوجی منصوبہ'ہوگا جہاں ایٹمی
لیبارٹریاں،ہتھیار، ایٹمی تجربہ گاہ،ہوائی جہازوں سے ہتھیارٹیسٹ کرنے کی
سہولت موجودہوگی۔
اس منصوبے کے مقاصدکے تحت بھارتی حکومت کی جوہری تحقیقات میں اضافہ
اوربھارت کے ری ایکٹرزکیلئے جوہری ایندھن کی سپلائی ہوں گی۔ اس کی مدد سے
بھارت جوہری آبدوزوں کانیابیڑابنائے گاتاہم یہ مقاصدصرف یہیں تک محدود
نہیں،کچھ متنازع امورپربھی بات کی جارہی ہے۔ بھارتی حکومت کے ریٹائرڈ
افسران اورلندن اورواشنگٹن سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے مطابق اس مقام
پربھارت افزودہ یورینیم کانیاذخیرہ جمع کرے گاجسے ہائیڈروجن بم بنانے میں
استعمال کیاجائے گاجواس کے جوہری ہتھیاروں کے موجودہ ذخیرے کوبے پناہ
طاقتوربنادیں گے۔قدرتی طورپر بھارت کے ہمسایے چین اور پاکستان اس پیش رفت
کواشتعال انگیزی سے ہی تعبیرکریں گے۔ واضح رہے کہ نئی دہلی نے کبھی بھی
اپنے ایٹمی اثاثوں کی تفصیل شائع نہیں کی ۔
۱۹۷۴ء سے جاری اس کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں بھارت سے باہرکسی بھی شخص
کوبہت کم معلومات حاصل ہیں چنانچہ یہ حیرت کی بات نہیں کہ ''چلاکرے''میں
ہونے والی تعمیرات اوراس کے خفیہ مقاصد کے بارے میں کسی کوزیادہ علم نہیں۔
اس پرحکومت نے اپنے عوام کو بھی مطلقاً آگاہ نہیں کیاہے کہ افزودہ کی جانے
والی یورینیم کوکس مقصدکیلئے استعمال کیاجائے گا۔چونکہ یہ مرکزفوجی تنصیبات
میں شمارکیاجاتاہے اس لئے اس کاانٹرنیشنل معائنہ نہیں کیا جاسکتا۔سی ایف
پی(سنٹرفارپبلک)کی طرف سے کی جانے والی تحقیقات جس میں مقامی افرادکے علاوہ
اس پروگرام سے وابستہ رہنے والے ریٹائرڈ سائنسدانوں اور فوجی
افسران،غیرملکی ماہرین،انٹیلی جنس تجزیہ کاروں کے انٹرویوزبھی شامل ہیں، نے
اس منصوبے جس کے کچھ حصے اگلے سال فعال ہوجائیں گے،پرپڑے ہوئے پراسراریت کے
پردے کوچاک کردیاہے۔زیادہ ترماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ سہولت بھارت
کوجوہری ہتھیاروں کی بھاری پیداواردے گی۔
The Independent Stockhom International Peace Research Institute
کے مطابق انڈیاکے پاس اس وقت ۱۱۰/ایٹمی ہتھیارہیں۔ آسٹریلیاسے تعلق رکھنے
والے ایٹمی عدم پھیلاؤ کے ادارے کے سابق چیف جان کاٹرسن کے مطابق اس وقت
دنیا میں بھارت ان تین ممالک میں شامل ہے جوجوہری ہتھیاروں کیلئے ایندھن
تیارکررہے ہیں۔اگربھارت تھرمونیوکلیرہتھیاربنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے
تووہ امریکا،روس، چین، اسرائیل،فرانس اوربرطانیہ کی صف میں کھڑاہوجائے گا۔
مغربی تجزیہ کاروں میں سے بعض نے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پربتایاہے کہ ان
مقاصدکیلئے یورینیم کی افزودگی کاسلسلہ ایک اورخفیہ مقام رئیر میٹریل پلانٹ
میں جو''چلاکرے'' سے۱۶۰میل جنوب میں میسورشہرکے نزدیک ہے،چار سال سے جاری
ہے ۔مغربی تجزیہ نگاروں کے نزدیک انڈیاکے ہائیڈروجن بم کی تیاری
کاگراؤنڈورک یہی مقام ہے۔ واشنگٹن میں اوباماانتظامیہ کے ایک سنئیرافسر
کاکہناہے کہ ہمارے لئے بھی انڈین ایٹمی پروگرام ہمیشہ سے پراسراررہے ہیں۔
تاہم گرے سیمور(جنہوں نے ۲۰۰۹ء سے لیکر۲۰۱۳ء تک وائٹ ہاؤس آرمز اینڈ
ڈبلیوایم ڈیزکنٹرول کے کوارڈی نیٹرکے طورپرکام کیاتھا)کاکہناہے کہ مجھے
یقین تھاکہ بھارت ہائیڈروجن بم بناناچاہتاہے تاکہ وہ چین ڈیٹرنس کے ہم پلہ
ہوسکے تاہم میں یہ نہیں جانتاتھاکہ وہ ایساکب کرپائے گالیکن وہ اس کی کوشش
ضرورکرے گا۔وائٹ ہاؤس کے ایک افسرکاکہناتھاکہ میسورپرباقاعدہ نظررکھی جارہی
ہے،اب چلاکرے بھی ہماری نظروں میں ہے۔
انسٹیوٹ فارسائنس اینڈانٹرنیشنل سیکورٹی واشنگٹن کے تجزیہ کا’’سیرینا
کیلیہر ورگنٹینی ‘‘نے سیٹلائٹ سے حاصل ہونے والے تمام مواد کا۲۰۱۴ء کے موسم
گرمامیں گہرائی تک جائزہ لیا۔انہوں نے تعمیرکیے جانے والے علاقے پرتوجہ
مرکوزرکھی۔اس دوران میں لندن کے ایک میگزین’’وٹیلی جینس ریویو‘‘نے بھی آئی
اے ای اے سے رابطہ کیااور میسورسے حاصل ہونےوالی تصاویرکاجائزہ لینے
کاکہا۔ان دونوں ماہرین کوجوچیزحیرت انگیزلگی تووہ اس منصوبے کی بے پناہ
وسعت اورپراسراریت تھی۔کیول گاؤں کے نزدیک فوجی مقاصدکیلئے بنائے جانے والے
نیوکلیئرپارک کارقبہ بیس مربع میل ہے جوسائزمیں نیویارک ریاست کے دارلحکومت
البانی جتناہے ۔ ان تصاویرکاجائزہ لینے اوربھارت کے ایٹمی افسران سے
انٹرویوزکرنے کے بعدسیرینا کیلیہر ورگنٹینی نے نتیجہ نکالاکہ یورینیم
افزودہ کرنے والے منصوبوں سے تجارتی بنیادوں پریورینیم حاصل ہوگی تاہم اس
کی بالکل درست مقدارکااندازہ لگانا ممکن نہیں۔اس دوران کیلی کے پاس دوسرے
مقامات کی تصاویرتھیں،وہ حالیہ دنوں میں دو عمارتوں کودی گئی توسیع پرحیران
رہ گئے۔ان عمارتوں کی چھتیں اتنی بلندتھیں جن میں نیوجنریشن کے کاربن فائبر
سنٹری فیوجزکولگایاجاسکتاتھا۔یہ جدیدسنٹری فیوجزمروجہ مشینوں سے زیادہ تیزی
کے ساتھ یورینیم افزودہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
نیوکلیئر ماہرین پیداواری انرچمنٹ مشینوں کی صلاحیت کو''ایس ڈبلیویوایس''
(سیپرٹ ورکس یونٹس) کے نام سے پکارتے ہیں۔کیلی نے نتیجہ نکالا کہ اس نئی
جگہ پر حکومت ایک ہزارپچاس کے قریب انتہائی مشینیں لگاسکتی ہیں۔اس کے علاوہ
۷۰۰پرانی مشینیں بھی موجودہیں۔یہ سب مل کرایک سال میں۴۲ہزار ایس ڈبلیویوایس
مکمل کرنے کے قابل ہوں گی۔اس طرح اس عمل سے حاصل ہونے والی اسلحہ سازی
کیلئے موزوں یورینیم کاحجم۴۰۳پاؤنڈکے قریب ہوگا۔ انٹرنیشنل پینل آن فیشل
میٹریلز کے مطابق ایک لاکھ ٹن ٹی این ٹی کی طاقت کے حامل ہائیڈروجن بم کی
تیاری میں ۹سے۱۵پاؤنڈافزودہ یورینیم درکارہوتی ہے۔بھارت کے ریٹائرڈفوجی
افسروں اورایٹمی سائنس دانوں کاکہناہے کہ ان مقامات پرافزودہ کی جانے والی
یورینیم کوسب سے پہلے بھارت کی آبدوزوں(جن کی تعدادمیں تیزی سے اضافہ ہورہا
ہے)میں استعمال کیاجائے گا۔ایک سنیئرافسرنے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط
پربتایاکہ اس وقت بھارت میں دو آبدوزیں (ایک مکمل اوردوسری زیرتعمیرہے)بارہ
ایٹمی میزائلوں سے لیس کی جائیں گی۔
ٹیکساس کی اے اینڈایم یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر سنیل چرایا کاکہناہے کہ
بھارتی حکومت ایٹمی پروگرام کی بابت کچھ تسلیم کرنے یاوعدے کرنے سے
گریزکرتی ہیں۔ اوباما انتظامیہ کے ایک سنیئر آفیسر نے بھی اپنانام خفیہ
رکھنے کی شرط پر بتایاکہ انہیں حکومت کے سائنسدانوں کے دعوؤں پرشک ہے۔ان
کاکہناتھاکہ ۲۰۰۷ء میں پابندیاں اٹھائے جانے کے بعداب بھارت سویلین ایٹمی
پروگرام اوربجلی پیداکرنے کے جوہری منصوبوں کی آڑ میں وسیع پیمانے پر
ہتھیاروں کی تیاری کررہاہے۔اس افسرکوشک تھا کہ اس مقصدکیلئے بھارت صرف
مقامی طورپرپائی جانی والی یورینیم ہی نہیں بلکہ درآمدکردہ یورینیم بھی
استعمال کرے گا جس کی اسے اجازت مل چکی ہے۔
بھارت اس وقت روس،فرانس اورقازقستان سے۴۹۱۴ٹن یورینیم حاصل کرچکا ہے،اس کے
علاوہ اس کاکینیڈامنگولیا، ارجنٹینا اورنمیباسے بھی معاہدہ ہوچکاہے
۔ستمبر۲۰۱۴ء میں آسٹریلیاکے سابق وزیراعظم ٹونی ایبٹ نے ایک معاہدے پر
دستخط کئے جس کے تحت آسٹریلیا بھارت کو طویل مدت کیلئے یورینیم فراہم کرنے
والاملک بن گیا۔ اس ڈیل سے بہت شوروغوغابھی ہوااورآسٹریلیاکی جانب سے اسے
متنازع قراردیاگیا۔
انٹرنیشنل پینل آن فیشل میٹریل کے اندازے کے مطابق اریہانٹ آبدوز میں
استعمال ہونے والی ایندھن کیلئے صرف۳۰ فیصد تک افزودہ ۱۴۳ پاؤنڈیورینیم
درکار ہوتی ہے،اسے افزودہ کرنے والی فی صد شرح سے ظاہرہوتاہے کہ اس میں
ہتھیارسازی کیلئے کتنے آئی سوٹوپزہیں۔صرف میسورمیں لگائی جانے والی مشینوں
کی صلاحیت کااندازہ لگانے کے بعدکیلی کاکہناہے کہ بھارت ہرسال۳۶۲پاؤنڈویپن
گریڈیورینیم حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہے،اس سے۲۲ہائیڈروجن بم بنائے جا سکتے
ہیں۔یہ عین ممکن ہے کہ چینی ڈیٹرنس کو زائل کرنے کی دھن میں ناممکن کوممکن
کر دکھائے۔ایک ریٹائرڈآفیسر(جس نے وزیراعظم کے دفتر برائے ایٹمی پروگرام
میں کام کیاہواہے)کاکہناہے کہ ایٹمی آبدوزوں میں استعمال ہونے کے بعد
''فالتوذخیرہ''کئی برسوں کیلئے کافی ہوگا۔جب تھرمونیوکلیئربم کے متعلق سوال
کیا گیاتواس ریٹائرڈآفیسر نے نہائت عیارانہ مگرباوثوق و پراعتمادلہجے میں
کہا کہ بھارت کے پاس اورکوئی آپشن موجود ہی نہیں،گویابھارت کیلئے ہائیڈروجن
بم بنانالازم ہوچکاہے کیونکہ اب اس کاکم ازکم ڈیٹرنس ایٹم بم سے دفاع ممکن
نہیں۔ ماضی میں ڈیٹرنس کامطلب بھارت پرہونے والے حملے کاتدارک کرنا تھالیکن
نیابھارت اپنے مذموم عزائم کوآخری حدتک بڑھاوا دے چکاہے،گویااب شمالی
کوریاکی تقلیدمیں بھارت بھی جلدمیدان میں اتررہاہے۔
پاکستان کے بارے میں بھارت کے عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں مگرزیادہ توجہ
طلب یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ امریکا،برطانیہ اور یورپین ممالک بھی بھارت کی
پاکستان کیلئے دشمنی میں بھارت ہی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ایک برطانوی ریٹائرڈ
آفیسر کاکہناتھاکہ (بھارت ہائیڈروجن بم تیارکررہاہے تو کیا)پاکستان نے پہلے
ہی پیش قدمی شروع کردی ہے۔اس کاکہناتھاکہ پاکستان۴ریکٹرزمیں پلوٹونیم
پیداکررہاہے۔ادھرپینٹاگون کے افسران نجی ملاقاتوں میں کہتے سنائی دیتے ہیں
کہ واشنگٹن کابھارت کے ساتھ معاہدے اوراربوں ڈالرکے ہتھیاروں کی فروخت سے
چین کے مقابلے کاایک پارٹنرتیارکرنا مقصود ہے۔ |