علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمۃاﷲ علیہ

سر زمین کشمیر جس طرح اپنی مثال آپ ہے، اسی طرح اس سر زمین پر پیدا ہونے والی شخصیات بھی اپنے جمال و کمال میں لاجواب تھیں۔سرسبز پہاڑوں ،بہتی آبشاروں ، اُچھلتے ،دوڑتے دریاؤں کی سر زمین پر ایک ایسی شخصیت نے بھی آنکھ کھولی جن کا علم پہاڑوں کی سی بلندی ،جن کا استدلال آبشاروں جیساحسن،جن کا عمل دریاؤں کی طرح رواں تھا۔

12اکتوبر1875ـٗ؁؁ٌء کے دن وادی’’ لولاب‘‘ کے ایک گاؤں میں حضرت مولانا معظم شاہؒکے ہاں آنکھ کھولنے والے بچے کا نام ’’انور شاہ‘‘ رکھا جاتا ہے۔ابتدائی تعلیم اپنے والد سے ہی حاصل کرنے کے بعد مزید حصول علم کے لئے علوم اسلامیہ کی عظیم دینی درسگاہ ’’ازہرِ ہند‘‘ دیوبند کا سفر کرتے ہیں ۔اور وہاں حضرت الاستاذ،شیخ الہند محمود حسنؒکی خدمت میں پہنچ کر شرفِ تلمذ حاصل کیا۔شیخ الہند ؒ زمانہ طالب علمی میں ہی آپ کی غیر معمولی صلاحیتوں سے واقف ہوچکے تھے۔لہذا فراغت کے بعد دیوبند میں ہی قیام کا حکم دے دیا اورمولانا انور شاہ کشمیری ؒ نے استاد کے حکم کو بخوشی قبول کر تے ہوئے وہیں رہنے کا فیصلہ کیا۔
اگر بخشے زہے قسمت ،نہ بخشے تو شکایت کیا
سرِ تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے

حضرت شیخ الہند ؒ نے مسلم شریف،نسائی اور ابن ماجہ کے اسباق آپ کے سپرد کئے اور کچھ ہی عرصہ آپکو دارالعلوم کا صدر مدرس اور شیخ الحدیث منتخب کر لیا گیا۔آپؒ کے درس حدیث نے بہت جلد خطہء بر صغیر میں نمایاں مقام حاصل کر لیاتھا۔یہ مقام آپؒ کو اپنے اساتذہ خصوصاََ شیخ الہندؒسے والہانہ محبت ، عقیدت و احترام کی بدولت حاصل ہوا تھا۔حضرت مولانا محمد انوریؒ صاحب لائلپوری(فیصل آباد )فرماتے تھے کہ ’’مجھے حضرت انور شاہ کشمیری ؒ کی زیارت کا موقع نہیں مل سکا تھا۔لیکن آپؒکی علمی عظمت کا احساس آپکے سینکڑوں تلامذہ سے سن کر دل و دماغ پر غالب تھا۔میں اپنے والد کے ہمراہ جب داخلہ لینے کی غرض سے دارالعلوم پہنچا ،تو دیوبند پہنچنے کے بعد میرے والد مجھے حضرت شیخ الہند ؒ کی قیام گاہ پر لے گئے۔گرمی کا زمانہ تھا اور ظہر کی نماز ہو چکی تھی۔جہاں حضرت شیخ الہند ؒ تشریف فرماتھے اس جگہ کو ایک ہجوم نے چارطرف سے گھیر رکھا تھا۔چھت پر لگے پنکھے کو ایک صاحب ہاتھ سے کھینچ رہے تھے جن کا پر انوار چہرہ ،اس پر معصومیت ،نورانیت،شکوہ علم اور جلالت علمی کی ملی جلی کیفیات دعوت نظارہ دے رہی تھیں۔یہ صاحب پنکھا کھنچتے ہوئے چپکے چپکے لوگوں سے کہتے ذرا ہٹ کر بیٹھئے کہیں حضرت کو تکلیف نہ ہو۔میرے والد محترم نے میرے کان میں چپکے سے کہا کہ یہ پنکھا کرنے والے صدر مدرس دارالعلوم دیوبند ،شیخ الحدیث مولانا انو ر شاہ کاشمیری ہیں۔یہ سن کر میرے پاؤں تلے زمین نکل گئی کہ جس ذات گرامی کی علمی شہرتوں سے عالم گونج رہا ہے اور جس کے خود اپنے شاگرد اس مجلس میں موجود ہیں وہ کس عقیدت و احترام کے ساتھ اپنے استاد کی خدمت میں مصروف ہیں‘‘۔

حضرت شاہ صاحب ؒ کی ذات علم و عرفان کا منبع و محور تھی ، بولنے پر آتے توانتہائی مدلل انداز میں گفتگو فرماتے اور ایک عظیم وضخیم ذخیرہ کھول کر اپنے سامعین پر واضح کر تے چلے جاتے تھے۔ایک مرتبہ علامہ رشید رضا المصری دارالعلوم ندوہ کی دعوت پر لکھنو تشریف لائے تو دارالعلوم دیوبند کی دعوت پر وہاں بھی تشریف لائے ۔ان کے خیر مقدم کے لئے ایک عظیم الشان جلسہ منعقد کیا گیا۔اتفاقاََ علامہ رشید رضا نے جلسہ سے قبل کسی استاذ دارالعلوم سے دریافت کیا کہ یہاں درس حدیث کا کیا طرز ہے۔؟

تو بتایا گیا کہ پہلے قاری حدیث پڑھتاہے اور استاد اس حدیث سے متعلق تمام مباحث علمیہ اور حقائق و نکات بیان کرتا ہے۔پھر اگر حدیث احکام سے متعلق ہے تو استاد آئمہ متبوعین کے مذاہب و دلائل بھی بیان کرتا ہے۔اور اگر امام صاحب کا مذہب بظاہر اس حدیث کے مخالف ہوتا ہے تو استاد توفیق، تطبیق یا ترجیح راجح کے اصول پر تقریر کرتا ہے۔یہ بات علامہ کو بہت عجیب معلوم ہوئی ۔کہنے لگے کیا حدیث میں ایسا بھی ہوتا ہے۔؟
کہا ہاں ۔۔۔!
اس پر علامہ نے کہا ’’ کیا حدیث حنفی ہے؟‘‘

یہ بات تو یہاں ہی ختم ہو گئی اور جلسہ میں شرکت کے لئے حضرت علامہ انور شاہ کشمیری ؒ تشریف لا رہے تھے کہ راستہ میں ہی علامہ رشید رضا کی اس گفتگو کا حال سنا۔حضرت شاہ صاحب کا ارادہ علامہ کی ترحیب اور دارالعلوم کی تاریخ و دیگر امور پر تقریر فرمانے کا تھا مگر اس گفتگو کا حال سن کر ارادہ بدل گیا۔اور اتنے ہی قلیل وقفہ میں جلسہ گاہ پہنچے ، کچھ دیر بیٹھے ، دارالعلوم کے اسی مذکورہ بالا درس حدیث پر مضمو ن ذہن میں مرتب فرما لیا۔اور پھر وہ مشہور و معروف خالص محققانہ ، محدثانہ تقریر نہایت فصیح و بلیغ عربی میں فرمائی کہ اس کو سن کر علامہ رشید رضا اور تمام شرکاء اجلاس، علماء و طلباء حیران رہ گئے۔

اس تقریر میں آپؒ نے فقہاء،محدثین کے اصول ، استنباط، تحقیق مناط ، تنقیح مناط،تخریج مناط کی وضاحت وتشریح احادیث و احکام سے فرماکر حضرت شاہ ولی اﷲ سے لے کر اپنے اساتذہ دارالعلوم مناقب اور طرز طریق ،خدمت علم دین پر روشنی ڈالی۔علامہ آپ کی فصاحت تقریر اور سلاست بیان و قوت دلائل سے نہایت متاثر ہوئے۔حضرت شاہ صاحبؒ کے بعد علامہ موصوف نے تقریر فرمائی۔اور اس میں حضرت شاہ صاحبؒ کے غیر معمولی علم وفضل ، تبحر و وسعتِ مطالعہ اور بے نظیر استحضار و حافظہ کی داد دی اور یہ اعتراف کیا کہ جو طریقہ آپ کے ہاں درس حدیث کا ہے ، یہی سب سے اعلیٰ و افضل و انفع طریقہ ہے، اور فرمایا کہ اگر میں ہندوستان میں آکر اس جامعہ علمیہ کو نہ دیکھتا اور اس کے اساتذہ، علماء سے نہ ملتا تو غمگین واپس جاتا۔پھر مصر جاکر یہ سب حالات اپنے ’’رسالہ المنار‘‘ میں شائع کئے۔

اپنے وقت کے عظیم مفکر ، مدبر ،ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒجیسی انقلابی شخصیت بھی حضرت انور شاہ کشمیریؒ کے فیض مندوں میں شامل تھی۔مسئلہ ختم نبوتﷺ ہو یا قتل مرتداور مسئلہ مکان و زمان، حضرت کشمیری ؒ کی ہی ذات تھی جن سے علامہ اقبالؒ نے استفادہ حاصل کیا۔ڈاکٹرعبداﷲ چغتائی لکھتے ہیں کہ مسئلہ ’’مکان و زمان ‘‘جو علامہ محمد اقبال ؒ کاخاص موضوع ہے۔اسی موضوع پر حضرت شاہ صاحب ؒ نے علامہ اقبالؒ کو بتایا کہ’’ نیوٹن ‘‘نے جو کچھ مکان و زمان پر لکھا ہے وہ علامہ’’ عراقی‘‘ کے معرکۃالآراء رسالہ سے ماخوذ ہے اور وہ رسالہ ڈاکٹر صاحب تک بھی پہنچایا۔

خود ڈاکٹر علامہ محمداقبالؒ نے 1928 ؁ء میں اورینٹل کالج کے شعبہ عربی و فارسی کے صدارتی خطبہ میں جو ’’حکماء اسلام کے عمیق تر مطالعہ‘‘کے نام سے دیا گیا تھالکھتے ہیں کہ’’یہ مختصرحوالہ ء بالا میرے ذہن کو ’’عراقی‘‘کی تصنیف ’’غایۃالامکان فے درایۃالمکان ‘‘کی طرف منتقل کر دیتا ہے۔مشہور حدیث ’’لا تسبوالدھرھواﷲ‘‘میں ’’دھر‘‘بمعنی ’’Time ‘‘کا جو لفظ آیا ہے اس کے متعلق مولانا انور شاہ صاحب سے جو دنیائے اسلام کے جید ترین محدثینِ وقت میں سے ہیں میری خط وکتابت ہوئی، اس مراسلت کے دوران مولانا موصوف نے مجھے اس مخطوطہ کی طرف رجوع کیا اور بعد ازاں میری درخواست پر از راہِ عنائت مجھے اسکی ایک نقل ارسال کی ۔‘‘ اور پھرڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ نے حضرت انور شاہ کشمیری ؒ کے اس انکشاف کو یورپ کے اخبارات میں بھی شائع کروایا۔

رئیس المحدثین علامہ انور شاہ کاشمیری ؒ نے جہاں اپنی زبان سے حدیث ِمصطفیﷺ کو لوگوں کے دِلوں میں نقش کیا وہیں اپنے قلم سے بیش بہاعلمی ذخیرہ اُمت کے سپرد کیا۔آپؒ نے بہت سی کتب تحریر فرمائیں جن میں مشکلات القرآن ، فیض الباری، خاتم النبین اور اکفار الملحدین جیسی شہرہ آفاق کتب بھی شامل ہیں جو آج بھی دنیائے اسلام کے تعلیمی اداروں میں پڑھائی جاتی ہیں۔

حضرت کشمیری ؒاپنی عمر کے آخری حصہ میں لاہور اور پنجاب کے جلسوں میں یہ فرما چکے تھے کہ ’’ بھائی ہماری آپ سے آخری ملاقات ہے‘‘ اور بہاولپور کی عدالت میں آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی ختمِ نبوت پر دلائل دینے کے بعد فرمایا کہ’’ فیصلہ میری قبر پر آکر سنا دینا‘‘۔لہذا وہ گھڑی بھی آن پہنچی ، 7 فروری 1943؁ء کی شب اپنے زوال کی طرف اور امیر المومنین فی الحدیث ، امام العصر ، رئیس المحققین علامہ انور شاہ کشمیری کی روح اپنے پروردگار کی طرف چل پڑی۔(انا ﷲ واناالیہ راجعون)

آپ کی وفات کے بعد لاہور میں ایک تعزیتی جلسہ منعقد کیا گیا جس میں جلیل القدر علماء کے ساتھ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒ بھی موجود تھے۔علامہ اقبالؒ نے آپکو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اپنی تقریر کا آغاز اس شعر سے کیا۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

پھر فرمایا :۔ اسلام کی آخری پانچ سو سالہ تاریخ مولانا انور شاہ کشمیریؒکی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے۔ایسا بلند پایہ عالم اور فاضلِ جلیل اب پیدا نہ ہوگاوہ صرف جامع العلوم قسم کی ایک شخصیت ہی کے مالک نہیں تھے بلکہ عصر حاضر کے دینی تقاضوں پر بھی ان کی پوری نظر تھی۔میں نے جدید فقہ کی تدوین کے لئے ان کا انتخاب کیا تھا اور اس موضوع پر ان سے گفتگو بھی رہی، جس طرز پر فقہ کی تدوین میرے پیش نظر تھی اس کے لئے مناسب شخصیت ان کے سوا عالم اسلام میں کوئی نہ تھی۔‘‘پھر فرمایا۔’’ اب میں مایوس ہوں کہ اس عظیم ترین کام کے لئے کوئی شخصیت موزوں نظر نہیں آتی‘‘۔
آئے عشاق گئے وعدۂ فردا لے کر
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر
Umar Qasmi
About the Author: Umar Qasmi Read More Articles by Umar Qasmi: 16 Articles with 19544 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.