ترقی کا کامیاب اصول


نائن الیون سے جہاں امریکی حکومت کو ایک بڑا جھٹکا لگا، وہیں تمام امریکی ائیر لائنز کمپنیوں کو بھی شدید دھچکا لگا۔ لوگ اتنے سہم گئے کہ انتہائی مجبوری کے علاوہ بذریعہ ائیر لائن سفر کرنا چھوڑ دیا۔ ائیرلائنز کی بجائے روڈ ٹرانسپورٹ کو ترجیح دینے لگے۔امریکا کی تمام ائیر لائنز کمپنیاں آہستہ آہستہ دم توڑنے لگیں۔ چند ہی دنوں میں تقریبا دیوالیہ ہوگئیں۔اندریں حالات امریکا کے تھنک ٹینک سر جوڑ کر بیٹھے۔ طے پایا کہ اگر ائیر لائن کمپنیوں کو کریش ہونے سے بچانا ہے تو ان کے اخراجات کم کیے جائیں، 40 فیصد ملازمین کو فوری نکال دیا جائے۔ تمام ملازمین کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنی ڈیوٹی سے بھی زیادہ وقت کمپنی کو دیں۔ ملازمین اس پالیسی سے سخت پریشان ہوگئے۔

ان حالات میں امریکا کی مشہور و معروف ساﺅتھ ویسٹ ائیر لائنز کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ہرب کیلر نے اپنی کمپنی ساﺅتھ ویسٹ کو سنبھالا دینے کے لیے ایک انوکھا طریقہ اختیار کیا۔ کیلر نے فیصلہ کیا کمپنی کو ڈوبنے سے بچانا ہے۔ دوسری کمپنیوں کی طرح ملازمین کو نکالنا ہے نہ ہی ڈیوٹی سے زیادہ وقت لینا ہے۔ یہ کام صرف ملازمین کے تعاون سے ہی پایہ تکمیل تک پہنچ سکتا ہے، لہٰذا اس نے اپنے ماتحتوں کو محبت دینے کا فیصلہ کیا۔ اس نے اعلان کردیا کہ کسی بھی ملازم کو نہیں نکالا جائے گا، لیکن جب تک ہم اپنی حالت رفتہ بحال نہیں کرلیتے، اس وقت تک سب کی تنخواہیں کم کرناہماری مجبوری ہے۔ اس نے عہد کیا کہ اپنی کمپنی کو دنیا کی ٹاپ ٹین کمپنیوں کی لسٹ میں لانا ہے۔

اس سلسلے میں اس نے پہلا کام تو یہ کیا کہ تمام48 ہزار ملازمین کی تصویریں اپنے ساتھ ہیڈ آفس میں چسپاں کردیں۔ ملازمین جب اپنے سی ای او کے ساتھ اپنی تصویروں کو لگا دیکھتے تو بہت خوش ہوتے۔ ہر ملازم اپنے آپ کو کمپنی کا مالک تصور کرتا۔ دوسرا کام اس نے یہ کیا کہ کچھ افراد کے ذمے صرف یہ کام سونپا کہ وہ تمام ملازمین کی ڈیٹ آف برتھ (سالگرہ کا دن) اچھی طرح یاد رکھےں۔ جس دن کمپنی کے کسی بھی ملازم کی سالگرہ ہوتی تو ہرب کیلر کمپنی کے تمام ملازمین کو سالگرہ کے کارڈ بھجواتا اور جس کی سالگرہ ہوتی اس کو خود اپنے ہاتھ سے دستخط کرکے سالگرہ کا کارڈ بھیجتا۔ جب ملازم کے پاس ہرب کیلر کے ہاتھ سے دستخط شدہ سالگرہ کا کارڈ پہنچتا تو وہ خوشی سے پھولے نہ سماتا۔ وہ سمجھتا کہ شاید ہرب کیلر کا میرے ساتھ کوئی خاص تعلق ہے، کیونکہ 48 ہزار ملازمین میں سے صرف میری ڈیٹ آف برتھ کو یاد رکھنا اور اس پر اپنے ہاتھ سے دستخط کرکے کارڈبھیجنا خاص الفت کے بغیر ممکن نہیں۔ وہ ہر ملازم کی سالگرہ پر ایسے ہی اپنے ہاتھ سے دستخط کر کے کارڈ بھیجتا۔ جس سے تمام ملازمین بہت خوش تھے اور کام بہت ہی دلجمعی کے ساتھ کرنے لگے۔

اس نے کچھ افراد کے ذمے صرف یہ کام سونپا کہ وہ تمام ملازمین کے مکمل نام اچھی طرح یاد کریں، حتیٰ کہ وہ ملازمین کے ان ناموں کے بارے میں پتا لگواتے جو صرف اس کے قریبی دوستوں کو ہی معلوم ہوتے۔ جب ہرب کیلر وزٹ پر نکلتا تو سب کے نام جاننے والے افراد بھی اس کے ساتھ ہوتے تھے، جب ہرب کیلر کسی ملازم کے قریب سے گزرتا تو اس ملازم کا مکمل نام لے کر بلاتا۔ اس سے حال احوال پوچھتا اور کچھ دیر گپ شپ بھی لگاتا۔ ملازم سوچتا کہ میرا یہ نام تو صرف میرے قریبی دوستوں کو ہی معلوم ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہرب کو میرے ساتھ خصوصی لگاﺅ ہے جو اتنے قریبی نام سے بھی واقف ہے۔ہرب کیلر سے تمام ملازمین ہی بہت خوش تھے، ملازمین ڈیوٹی کے وقت میں بھرپور محنت سے کام کرتے۔وہ سوچتے کہ ہرب کیلر اگر ہم سے اس قدر محبت کرتا ہے تو ہمیں بھی محبت کے بدلے میں محبت اور محنت کا مظاہر ہ کرنا چاہیے۔ اب ان کا ایک ہی ہدف تھا کہ کسی طرح ساﺅتھ ویسٹ ائیر لائن کمپنی کو سنبھالا دیا جائے۔ ملازمین کی محنت اور ہرب کیلر کے اصول محبت سے رفتہ رفتہ کمپنی ترقی کرنے لگی۔ تمام ملازمین کمپنی کے کام کو اپنا کام سمجھ کر کرنے لگے۔ مثلاً کسی بھی جہاز کو تیار ہونے میں جتنا وقت لگتا اس سے آدھا وقت لگنے لگا، کیونکہ جب جہاز تیار ہونے لگتا تو وہاں موجود تمام ملازمین فوری فوری کام مکمل کرلیتے۔ کمپنی کے ملازمین نے جتنا ہوسکا کمپنی کو آرام دہ بنادیا۔ملازمین کے اچھے رویے کی وجہ سے لوگ خود بخود ہی اس کمپنی کے ساتھ سفر کرنے لگے۔ ساﺅتھ ویسٹ کمپنی نے اتنی تیز رفتاری سے ترقی کی کہ کچھ ہی عرصے میں ساﺅتھ ویسٹ ائیر لائن کا شمار دنیاکی ٹاپ ٹین کمپنیوں میں ہونے لگا۔

کامیابی کی ایک اور حیرت انگیز مثال میں گزشتہ دنوں ہفت روزہ ”شریعہ اینڈ بزنس“میں ملاحظہ کر رہا تھا۔ اس دیدہ زیب میگزین میں ہرب کیلر جیسے کامیابی حاصل کرنے والے لوگوںکے حالات و واقعات اور ان کی زندگی کا نچوڑ، ان کی کامیابی کے اصول، ہر قسم کے کاروبار میں کامیابی کے طریقے اور تجارت و کاروبار میں شرعی لحاظ سے رہنمائی کی جاتی ہے۔ ”شریعہ اینڈ بزنس“ نے اپنے ایک شمارے میں دنیا کے امیر ترین شخص ”کمپارڈ“ کی اسٹوری شائع کی تھی، جس کے مطابق اس نے بھی ماتحتوں سے اصول محبت کو اپنا شعار بنایا اور پھر رفتہ رفتہ اس کا کاروبار اتنا بڑھا کہ فوربس میگزین نے اس کے اثاثہ جات کا اندازہ 33بلین امریکی ڈالر لگایا ہے۔ یہی اصول کمپارڈ کو پرچون فروش سے ”آئی کیا“ کمپنی تک لے گیا۔یہاں تک کہ2004ءکے شروع میںسویڈن کے ایک تجارتی رسالہ Affares Veckans نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں بتایا کہ جنوبی سویڈن کا ایک دیہی لڑکا جس نے اوائل جوانی میں سائیکل پر ماچس فروخت کرنے سے کاروبار کا آغاز کیا تھا، آج اس نے دنیا کے امیرترین شخص بل گیٹس کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ کمپارڈ کی کمپنی ”آئی کیا“ کا شمار دنیا کی مشہور و معروف کمپنیوں میں ہوتا ہے، یہ کمپنی 200 سے زائد اسٹوروں، 75ہزار سے زائد ملازمین اور 12ملین سالانہ آمدنی کے ساتھ دنیا کے 31ممالک میں کاروبار کررہی ہے۔ کمپنی کا مالک آج بھی ملازمین سے محبت کے اصول پر کاربند ہے اور مزید ترقی کررہا ہے۔

اگر ہرب کیلراورکمپارڈ کی کامیابی اور ان کے اپنائے ہوئے اصولوں پر غور کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ انہوں نے وہی اصول اپنایا جو اسلام نے ہمیں دیا ہے۔ اسلام اپنے ماتحتوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتا ہے۔ اسلام ایک جامع نگرانی کا نظام فراہم کرتا ہے، جس میں صرف کام کی نگرانی ہی نہیں بلکہ ماتحتوں کے اخلاق، عادات و اطوار اور جذبات و حقوق کا خیال رکھنا بھی شامل ہے۔ بخاری شریف کی حدیث ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور قیامت کے دن ہر ایک سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ آج اکثر ماتحتوں کے ساتھ ویسا سلوک نہیں کیا جاتا جیسا کیا جانا چاہیے۔ اس لیے وہ کام کو مجبوری سمجھ کر کرتے ہیں، فریضہ سمجھ کر نہیں۔ اگر ان کے ساتھ شریعت کے مطابق برتاﺅ کیا جائے تو سب کا بھلا ہو، شریعت نے وہ قوانین دیے ہیں جن پر عمل کرکے ہر کوئی کامیاب ہوسکتا ہے،چاہے ہرب کیلر و کمپارڈ جیسے غیر مسلم ہوں یاکوئی مسلمان ہو۔ آج بھی جو ترقی کی منزلیں طے کرنا چاہتا ہے، اس کو ان اسلامی اصولوں پر عمل کرنا ہوگا جن پر ہرب کیلر اور کمپارڈ نے عمل کرکے کامیابی حاصل کی ہے۔
 
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 625806 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.