کالم چور
(Roshan Khattak, Peshawar)
یوں تو وطنِ عزیز میں بے شمار قسم کے
چور موجود ہیں مثلا بجلی چور، گیس چور، پانی چور، ٹیکس چور اور کام چور
وغیرہ وغیرہ، لیکن اس کے علاوہ ایسے چور بھی ہیں جو بظاہر صحافت کے مقّدس
لبادہ اڑے ہو ئے ہیں مگر کام چوری کا کرتے ہیں۔ایسے چوروں کی دو بڑی قسمیں
ہیں ۔ایک قسم کے چور وہ جعلی کالم نگار ہیں جو دوسروں کے کالم سے پورے کا
پورا اقتباس چوری کر کے اپنے کالم میں سمو دیتے ہیں یا پو رے کا پورا کالم
ہی اپنے نام کر لیتے ہیں۔ دوسرے قسم کے چور وہ اخبارات ہیں جو ،بِلا اجازت
اصل کالم نگار کے ،اپنے ادارتی صفحہ پر کسی کالم نگار کا کالم انٹر نٹ سے
Copyکر کے Pasteکر کے اپنے اخبار کی زینت بنا لیتے ہیں۔ایسے اخبارات کو ہم
ان چوروں کے مترادف سمجھتے ہیں جو کسی ہسپتال سے نو زائیدہ بچوں کے چوری
میں ملوث ہو تے ہیں ،کیو نکہ جس طرح کسی کا بچہ کسی ماں کی تخلیق ہو تی ہے
بعینہ ہی کسی کا کالم کسی کالم نگار کی تخلیق ہو تی ہے۔ ایک کالم نگار جب
اپنے ہاتھ میں قلم لے کر کالم لکھتا ہے تو تصورات و خیالات، حقیقت پسندی،
مسائل کے حل کی وادیوں سے خوش رنگ و خوش نما پھول چن چن کر کالم کی مالا
بناتا ہے۔جس سے مردہ دلوں میں تا زگی و فر حت کا احساس جاگ اٹھتا ہے ۔کالم
نگار اپنا خونِ جگر کشید کرکے کالم کی صورت میں اپنے قارئین کے سامنے ایک
گلدستہ کی صورت میں اپنی تخلیق پیش کرتا ہے۔ایک کالم نگار کو اپنا کالم
اتنا ہی عزیز ہو تا ہے جیسے ایک ماں کو اپنا بچہ عزیز ہو تا ہے۔ کیونکہ ماں
کی طرح اس کا کالم اس کی تخلیق ہو تی ہے۔مگر افسوس صد افسوس کہ وطنِ عزیز
میں بے شمار اخبارات ایسے ہیں جو بغیر کالم نگار کی اجازت سے ان کا کالم
چھاپتے ہیں اور ان کو پوچھنے والا کو ئی نہیں ہو تا حالانکہ کسی کی تحریر ،تحریر
کرنے والے کے اجازت کے بغیر چھاپنا نہ صرف یہ کہ اخلاقی جرم ہے بلکہ قانونی
جرم بھی ہے۔مگر ہمارے ملک میں بے شمار اخبارات روزانہ یہ جرم کرتے رہتے ہیں
، نہ حکومت ان سے بازپرس کرتی ہے اور نہ ان کا ضمیر انہیں جھنجو ڑتا
ہے۔قانون اور اخلاق کا تقاضا تو یہ ہے کہ اگر آپ اخبار چلا رہے ہیں اور آپ
یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کے اخبار کے لئے ادارتی صفحے کا ہو نا لازمی ہے اور
ادارتی صفحہ یعنی کالمز کے بغیر آپ کا اخبار نہیں چل سکتا تو پھر اخبار کے
لئے اپنے کالم نگاروں کا بھی انتخاب کر لیں،جس طرح آپ اپنے رپورٹرز کو
معاوضہ دیتے ہیں، اسی طرح اپنے کالم نگاروں کو بھی دو چار آنے دے دیا
کریں۔مگر خدا را ! یہ بچوں (کالم نگاروں کے کالمز ) چوری نہ کیا کریں۔
اخبار کے مالکان کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرنی چاہیئے کہ اخبار نکالنا
، صحافت کے کوچے میں قدم رکھنا ایک بہت بڑی قومی ذمہ داری ہے۔۔صحافت ایک
سماجی خدمت ہے اور اخبار ایک سماجی ادارہ ہو تا ہے۔ سماج کو آئینہ دکھانے
کا کام اخبار کا ہے ۔ اخبار رائے عامہ کو ہموار کرتا ہے۔اور یہ کام اخبارات
کالم نگاروں کے ذریعے ہی کر سکتے ہیں۔ کالم نگار عوام میں غور و فکر کی
صلاحیت پیدا کرتے ہیں، ان کے دلوں میں اخبار کی عزت و عظمت قائم کرتے ہیں،
ان کے خیالات و احساسات کی تر جمانی کرتے ہیں۔
بناء بر ایں، ان کو چا ہئیے کہ وہ کالم کو جنگلی خود رو پودا سمجھ کر، کسی
جگہ سے توڑ کر اپنے اخبار کی زینت نہ بنائیں۔بلکہ متعلقہ کالم نگار سے سے
اجازت لے کر یا اس کا معاضہ ادا کر کے اخبار میں لگا لیا کریں۔
حکومت سے میری یہ گزارش ہے کہ وہ کالم نگاروں کی حقوق کے تحفظ کے لئے
باقاعدہ قانون سازی کریں اور اخبار ات کے مالکان کو اس بات کا پابند بنائیں
کہ اگر انہوں نے ادارتی صفحہ، جس میں کالم نگاروں کے کالمز چھاپے جاتے ہیں
، چھاپنا ہی ہے تو پھر اس کے لئے کل وقتی یا جز وقتی کالم نگار مقرر کریں
جو باقاعدہ اخبار کے پے رول پر مو جود ہوں اوران اخبارات کے ڈیکلریشن منسوخ
کئے جائیں جو صرف اور صرف copyاور پھرpasteکا کام کر کے اپنے اخبار چلاتے
ہیں اور یوں لاکھوں کما کر صرف اپنا بنک بیلنس بڑھاتے رہتے ہیں۔ |
|