علم کا بہتا دریا

فہد فاروق اشرف

پروفیسر ڈاکٹر احمد حسین قریشی قلعداری کی ہمہ جہت شخصیت پر بہت کچھ کہا لکھا جا چکا ہے۔ حال ہی میں پروفیسر ابو بکر فاروقی کی کتاب شائع ہوئی ہے جو ان کی ادبی خدمات کا مختصر احاطہ کرتی ہے ۔ڈاکٹر احمد حسین قریشی فارسی اور اُردو میں دُہرے پی ایچ ڈی کے با وصف ، علم و تحقیق میں بلند درجہ کی حامل شخصیت ہیں تاہم انہوں نے علمِ تاریخ ، شعر و ادب ، صرف و نَحو، منطق و فلسفہ ، فارسی اُردو اور پنجابی زبانوں میں دقیق دسترس اور تصوف و تنقیدبھی میں گہرا مطالعہ کر رکھا ہے۔ ان سب سے بھی بڑھ کر قرآنِ حکیم کا منظوم ترجمہ کرنے کی ان کو سعادت حاصل ہوئی۔ یقینا یہ کوئی آسان کام نہیں۔ ان کی مسلسل محنت اور جذبہ انہیں اس روشن منزل سے بھی ہمکنار کرگیا۔ ان کی شخصیت، ادبی و علمی تحقیق اور کام یقینا ایک بہتا سمندر ہے جس سے بہت سے مستفید ہورہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ ان کی شخصیت اور کام کو ایک مختصر شکل میں سامنے لایا جائے تاکہ اس نابغہ روزگار کی علمی و اد بی خدمات سے بہت سے طالبعلم اپنی علمی پیاس بجھا سکیں۔ یہ کام جناب پروفیسر ابو بکر نے انجام دیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے انتہائی جذبے اور محنت ڈاکٹر احمد حسین پر تحقیق و جستجو کرکے ڈاکٹر احمد حسین قریشی قلعداری کی ادبی خدمات پر ایک جامع کتاب مرتب کی ہے جس میں ان کی تمام علمی ، تحقیقی، ادبی و تدریسی خدمات کو اجاگرکرکے ان کے مداحوں اور طلباء کی علمی و ادبی تشفی کی ہے۔ یقینا یہ کتاب پڑھتے ہوئے ایک قاری ڈاکٹر احمد حسین قریشی قلعداری کے مختلف پہلوؤں سے روشناس ہونے کے ساتھ ساتھ خود میں علمی و ادبی تحریک محسوس کرے گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ خطہ گجرات کی علمی و ادبی کہکشاں کے یہ روشن ستارے ہیں کہ جن کی روشنی ہمہ دم راہ دکھا تی چلی جاتی ہے ۔ اک دھڑکن نما جنبش ہے جو زندگی کی روحِ رواں ہے ، جس کے ناپید ہونے کا سوچ کر ہی رقم طراز دم بہ خود ہو جاتا ہے ۔ ا ک ستارہ ہے جو گردشِ افلاک میں مینارۂ نور کی حیثیت رکھتا ہے۔ ڈاکٹر احمد حسین قریشی اس حوالے سے خوش قسمت ہیں کہ انہیں بچپن ہی سے کتابوں کا ایک ذخیرہ مل گیا جن سے انہوں نے بھرپور استفادہ کیا۔ ان کی لائبریری کا زیادہ ترحصہ قدیم طرز کی کتب پر مشتمل ہے جن میں سے بعض کتابیں ایسی ہیں جن کا متن اوّل صفحے کی بجائے آخر میں جا کے درج ہوتا ہے اور اکثر اوقات اُن کتابوں کا نام تلاش کرتے کرتے تقریباََ چار پانچ صفحے نظر سے گزارنے پڑتے ہیں۔ ڈاکٹراحمدحسین قریشی کی ساری زندگی درس وتدریس میں گزری۔ وہ اکثر فرمایا کرتے ہیں کہ دین دو بنیادوں پر استوار ہے۔ ایک صدقِ مقال اور دوسرا رزقِ حلال۔ ان کی ساری زندگی انہی دو اصولوں کی پیروی میں گزری ہے ۔ اُن کا کہنا ہے کہ نیک اعمال انسان کی شخصیت میں ایک غیر مرئی کشش پیدا کر دیتے ہیں جس کی بدولت حق اور باطل کی تمیز کرنے میں کوئی رکاوٹ اسکی راہ میں حائل نہیں رہتی۔اس کا دل اپنے آپ گواہی دیتا ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔

ڈاکٹر احمد حسین قریشی نے شاعری کے مجموعے کے علاوہ درجنوں تحقیقی کتابیں بھی لکھیں اورمختلف کتب کی تدوین کا کام بھی عرق ریزی کے ساتھ کیا۔ ان کی شاعری کی کتابوں میں علامہ اقبال کی کتب کا منظوم ترجمہ اس کے علاوہ فارسی کے قدیم شعراء کے کلام کو اردو کا لباس بھی بڑی خوبی سے پہنایا۔ احمد حسین قریشی کا ذوق تحقیق ہمہ جہتی ہے قدیم و کمیاب نسخوں کی تلاش ان کی خطاطی اور ترتیب و تدوین نو کے علاوہ پر خامہ فرسا ئی ان کے تحقیقی مشاغل میں شامل ہے۔ اقبالیات کا مو ضوع بھی ان کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ علمائے قلعدار یعنی احمد حسین قریشی کے اسلاف کا علمی ذو ق چونکہ عربی و فارسی پر محیط تھا چنانچہ یہی ذوق ان میں بھی منتقل ہو گیا اور انھوں نے متعدد فارسی گو شعراء کے دو اوپن نہ صرف دریافت کیے بلکہ ان کو مرتب بھی کیا جن میں دیوان تاثیر ، دیوان راحت وزیر آبادی شامل ہیں اس کے بعد ان کی تحقیق کا رخ حضرت علامہ اقبال کی شاعری کی طرف ہوا ۔ انھوں نے بڑی محنت سے تمام غیر مطبوعہ کلام اکٹھا کیا تو وہ ایک ضخیم مجموعہ تیا ر ہوگیا ۔ بعض وجوہ کی بنا پر وہ یہ کلام شائع تو نہ کر واسکے لیکن ان کی اس تحقیق سے دوسرے لوگوں کو بھی یہ کام کرنے کا شوق دامن گیر ہوا۔ چنانچہ اس کے بعد اس بارے میں کافی کام ہوا۔مختصر یہ کہ خطہ گجرات کا یہ علمی دریا بہت سے علمی اداروں اور طالبعلموں کو سیراب کررہا ہے ۔ دعا ہے کہ علم کی یہ خوشبو علمی و ادبی محفلوں کو معطر کرتی رہے اور ان کے کلام اور کام سے طالبعلم اپنی علمی و ادبی پیاس بجھاتے رہیں۔
Anwar Parveen
About the Author: Anwar Parveen Read More Articles by Anwar Parveen: 59 Articles with 43580 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.