اظہارِ یکجہتی؟
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
گزشتہ روز پاکستانی عوام نے کشمیریوں
کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا دن منایا۔ شہر شہر میں ریلیاں نکلیں، لوگ اپنی
اپنی پارٹی کے جھنڈے اٹھائے سڑکوں پر نکل آئے، سیکڑوں موٹر سائکلوں کی
بیسیوں ریلیوں نے شہروں میں رونق لگائے رکھی۔ بہت سی سیاسی اور دیگر
تنظیموں نے تقریبات کا اہتمام بھی کیا، جہاں دانشوروں، سیاستدانوں اور
مختلف طبقہ ہائے فکر کے لوگوں نے کشمیر کے معاملے پر اپنے جذبات وغیرہ کا
اظہار کیا۔ اور یہ بھی کہ پانچ فروری کو ایک طویل عرصے سے پورے ملک میں
سرکاری تعطیل ہو رہی ہے۔ اس مرتبہ یہ چھٹی چونکہ جمعۃ المبارک کو تھی اس
لئے چھٹی کے اثرات زیادہ ہی گہرے تھے، یعنی تعلیمی ادارے، سرکاری دفاتر اور
بازار سب بند تھے۔ یوں ریلیوں کو سڑکوں پر چلنے میں مزید آسانی رہی۔ ان سب
باتوں سے بڑھ کر یہ کہ وزیراعظم پاکستان نے اس موقع پر آزاد کشمیر کونسل
اور قانون ساز اسمبلی کے مشترکہ اجلاس سے خطاب بھی کیا۔ انہوں نے اپنے خطاب
میں اقوامِ متحدہ سے اس کی ناکامی کا جواب بھی طلب کیا، اور یہ بھی بتایا
کہ مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر پاکستان اور بھارت خوشحال نہیں ہوسکتے۔ انہوں
نے مسئلہ کشمیر کو پاکستان اور بھارت کی قیادت کا امتحان قرار دیا، کہ اس
کے حل کے بغیر دونوں ملکوں میں امن نہیں آسکتا۔ پانچ فروری کو چھٹی ہونے کی
وجہ سے بہت سے سرکاری اداروں میں کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کی تقریبات نہیں
ہوسکیں، ان میں بہت سے ایسے ہیں جو وقت گزرنے پر خاموش رہیں گے اور بعض
ادارے اس فرض کو اگلے دنوں میں ادا کر کے ثوابِ دارین کے حقدا ر قرار پائیں
گے۔
کشمیر کو قائد اعظم نے پاکستان کی شاہ رگ قرار دیا تھا، اور قیامِ پاکستان
کے اولین ایام سے ہی کشمیر پر بھارتی تسلط کی وجہ سے حالات خراب ہوگئے،
وہاں کے عوام پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں ا وروہاں کی حکومت اسے انڈیا
کے ساتھ ہی ملا کر رکھنا چاہتی ہے۔ کشمیر کی بنیاد پر ہی پاک بھارت جنگیں
بھی ہوچکی ہیں۔ اگرچہ کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ کے پاس ہے اور وزیراعظم
پاکستان کا یہ کہنا درست ہے کہ کچھ قراردادیں ایسی ہوتی ہیں، جن پر قرار
داد کی سیاہی خشک ہونے سے قبل ہی عمل ہوجاتا ہے، اور بہت سی قرار دادیں
ایسی ہیں، جنہیں اقوام متحدہ نے طاقِ نسیاں پر رکھ دیا ہے۔ یہ اقوام متحدہ
کی ساکھ کا معاملہ ہے، ساری دنیا تلخ ماضی سے نجات حاصل کررہی ہے، بھارت سے
مل جل کر بیٹھ کر مسائل حل کرنے کی خواہش ہے۔ لڑائی جھگڑے سے مسائل حل نہیں
ہوتے۔ وزیراعظم کا کہنا بجا، مگر یہاں اور بھی بہت سے مسائل ہیں، مثلاً یہ
کہ پاکستان دنیا میں شاید کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کرنے میں کامیاب ہی نہیں
ہوسکا، شاید بہت سے ممالک کو ابھی تک کشمیر کے تنازع کی درست سے خبر بھی
نہیں، کہ اصل مسئلہ ہے کیا، اور یہ کہ اس پر پاکستان کا کیا موقف ہے اور
بھارت کیا کہتا ہے؟
دنیا کے سا منے پاکستان کی کمزور خارجہ پالیسی کھل کر سامنے آجاتی ہے، جب
ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کو حقیقی نقشہ دکھایا اور بتایا ہی نہیں
گیا، جس کی وجہ سے اسے مسئلے کی سمجھ ہی نہیں آئی۔ مگر یہاں خود اقوامِ
متحدہ کے ساتھ ساتھ اقوام عالم کی بے حسی کا منظر بھی سامنے آتا ہے کہ جب
پوری دنیا گلوبل ویلیج کا درجہ حاصل کرچکی ہے، تو کیا دنیا میں کسی بڑی
آبادی کو زبردستی زیردست رکھنے کا عمل قابلِ گرفت نہیں؟ ویسے بھی یہ کوئی
نیا کیس نہیں، یا اقوام متحدہ کے لئے کوئی نیا امتحان نہیں کہ وہ کسی مشکل
میں آجائیں، یہ تو منظور شدہ قرار دادوں کا مسئلہ ہے، اس پر عمل درآمد
کروانے کی بات ہے، جہاں اقوام متحدہ کی بدنیتی کا عمل دخل ہے، وہاں
پاکستانی حکومتوں کی بھی کمزوریوں کی داستان سامنے ہے، اور وہیں پر بھارت
کی دنیا کے ساتھ اپنے موقف کو بہتر انداز میں پیش کرنے کی صلاحیت کو بھی
تسلیم کرنا چاہیئے، کہ ہم دنیا کے سامنے کشمیر کو متنازع ثابت ہی نہیں
کرسکے، جبکہ بھارت دنیا کو اس بات پر قائل کر چکا ہے کہ کشمیر بھارت کا
اندرونی معاملہ ہے اور وہ بہتر جانتا ہے کہ کس انداز میں اسے حل کرنا ہے۔
وزیراعظم پاکستان نے جن الفاظ میں اقوام متحدہ کو مسئلہ کشمیر یاد دلایا
ہے، وہ قابلِ تحسین ہیں، مگر اسی قسم کا لہجہ اور اسی طرح کے الفاظ اور اسی
قسم کے موقف کی اس وقت بھی ضرورت ہوتی ہے، جب پاک بھارت قیادت اکٹھی ہوتی
ہے، پاکستان نہ تو اقوام متحدہ سے اسی کی قراردادوں پر عمل کروانے میں
کامیاب ہوا اور نہ ہی بھارت کو کشمیر کے متنازع تسلیم کروانے میں۔ ایسے میں
ریلیوں اور تقریبات کس کام کی، ہر کام اس کے خاص مقام اور درست وقت پر ہی
اچھا لگتا ہے۔ |
|