میں نے دنیا کی بڑی بڑی ایئر لائیز کو
دیکھا تو دور دور تک کو ئی ٹھیکیداری والا نظام نظر نہ آیا ، کیونکہ یہ
ادار ہ ایسے چند قومی اداروں میں سے ہو تا ہے جو ملک کو اقتصادی و معاشی
جلا بخشنے میں بنیادی کردار ادا کر تا ہے ، ملکی روابط کو قائم رکھنے کا
ذریعہ ائیر لاینز کا ادارہو تا ہے اس وقت کہا جا سکتا ہے کہ ایئر لائیز ان
عالمی ضرورتوں میں سے ہے کہ اگریہ نہ ہو تو ہم پتھر کے زمانے میں لوٹ جا
ئیں ۔ پوری دنیا کیساتھ منسلک رکھنے والا قومی ادارے کو حکومتی تحویل میں
رکھ کر ملکی معیشت کو استحکام بخشنا بہتر ہے یا نجکاری کی بھینٹ چڑھا کر
ذاتی مفادات کو ترجیح دینا ۔ اس بات سے تب واقف ہوا جب دنیا کی تمام ا
لائیز کا جائزہ لیا تو پتا چلا ترقی یافتہ ممالک نے اس منافع بخش ادارے کو
سرکاری تحویل سے نکال کر بیچا نہیں بلکہ اس کو مثالی بنانے کیساتھ ساتھ ملک
کے لئے فائدہ مند بنایا ہے ۔
لیکن صاحب اس ملک کا تو با وا آدم ہی نرالہ ہے جس ادارے میں انتظامی
معاملات کرپشن ، نااہلی اور میرٹ کی خلاف ورزی کی وجہ سے بگڑ جائیں اور وہ
ملک کے خزانے پر بوجھ بن جائے بجائے اس امر کے کہ اس ادارے کو بہتر بنایا
جا ئے اس کے اندر پیدا ہو نے والے نقص اور گند کو صاف کیا جا ئے اسے بیچ
دیاجا تا ہے جس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ یہ معاملات بگاڑے بھی تو خود ہی
جا تے ہیں کیونکہ اسی بات کو جواز بنا کر تو ایک بنیادی قومی ادارے کو
خریدا جا سکتا ہے جس سے یہ چابت ہو تا ہے کہ یہ حکومت قو می نہیں اگر یہ
عوامی حکومت ہو تی تو قومی اداروں کو یوں سربازار خریدتی نہ ۔ یہ حکومت
سرمایہ داروں کی کہلاتی ہے جسے نجی حکومت کہا جاسکتا ہے قومی حکومت نہیں ۔
ادارے کو اس قدر بے ہنگم کر دیا گیا ہے کہ 25اکتوبر1985کو متحد ہ عرب
امارات کی ائیرلائیز کی بنیاد پاکستان انٹر نیشنل ایئر لائیز نے رکھی جو اس
وقت ایشیاء کی نمبر ون ائیر لائن تھی اور اس وقت Emiratesایشیا ء کی پہلی
اور دنیا کی پانچویں بڑی ائیر لائن بن چکی ہے اس وقت پی آئی اے کے پاس
38جہاز اور تقریباً 19000ملازمین ہیں اورامارات کے پاس 256جہاز اور
56725ملازمین ہیں اس تناسب سے دیکھا جائے تو پی آئی اے کے ہر جہاز کے لئے
تقریباً چھ سو ملازم بنتا ہے جبکہ دنیا کی بہترین ائیر لائیز متحدہ عرب
امارات کے پاس ہرجہاز کے لئے 58ملازمین ہیں ضرورت سے زیادہ اور اقربا پروری
کی نذر کر کے اس قومی ادارے کو تباہ کرنے میں کو کسر نہیں چھوڑی گئی ، یہی
وجہ ہے کہ وہ قومی ادارہ جو ملکی خزانے کو تقویت بخشتا تھا آج سفید ہاتھی
ثابت ہو رہا ہے اور ملکی خزانے پر بوجھ بن چکا ہے اس وقت پی آئی اے کا
سالانہ خسارہ 30ارب تک جا پہنچا ہے جبکہ مجموعی خسارہ 320ارب سے زائد ہو
چکا ہے ۔۔
اگر دقیق نظری سے دیکھا جائے تو معاملات میں کرابی انتظامی معاملات میں
واضح طو ر پر عیاں ہے کہ اقربا پروری اور ذاتی مفادات کی خاطر ایک عظیم
منافع بخش ادارے کو تباہ کر دیا گیا ، لیکن حکومت کی یہ بات سمجھ سے بالاتر
ہے کہ کی جانے والی غلطیوں کو سدھارنے کی بجائے ان سے جان چھڑانے کی کو شش
کیوں کی جا رہی ہے تو پتا چلا کہ سارا کھیل قرضے کی ہے حکومتی وزرا ء کہتے
ہیں کہ 1992میں پی آئی اے کے لئے لیا گیا قرضہ ابھی تک نہیں اتر سکا جو
ابھی تک اتار رہے ہیں ، پھر سمجھ میں آیا کہ حکومت بھی کٹھ پتلی کی طرح
پھنسی ہو ئی ہے آئی ایم ایف سے قرض ملنے اور رعایت کے لئے پی آئی اے کی
نجکاری شرط ہے جبکہ دوسری طرف ملازمین اور اپوزیشن کے دباؤ کے باعث حکومت
دونوں طرف سے جکڑی ہو ئی ہے ۔ اداروں کی نجکاری کی جانب حکومت کی سستی دیکھ
کر آئی ایم ایف نالاں دکھائی دے رہی ہے جبکہ حکومت کی جانب سے تاثر یہ پیش
کیا جا تا ہے کہ آئی ایم ایف کے بغیر ملک قرضوں اور بحرانوں کی دلدل سے
نہیں نکل سکتا معاشی و اقتصادی ترقی کے لئے آئی ایم ایف کی خو شنودی ضروری
ہے۔ جبکہ حکومت کا قومی اداروں اور ملازمین کے ساتھ یہ رویہ مستقبل میں
خطرناک ثابت ہو سکتا ہے
فرض کریں پی آئی اے کی نجکاری کر دی جا تی ہے جب اسے بیچیں گے تو خریدنے
والے کو قرضہ صفر کرکے دیں گے اگر قرضہ صفر کر کے ہی دینا ہے تو پھر بیچنے
کا فائدہ ؟ اس سے بہتر تو یہ ہے کہ آپ اسی کو نالائق اور کرپٹ لوگوں سے پاک
کر کے عظیم قومی ادارہ بنا دیں ، لیکن یہاں بات اداروں کی بہتری کی نہیں
بلکہ ذاتی مفادات کی ہے صرف ایک پی آئی اے نہیں ریلوے ، سٹیل مل، واپڈا
سمیت تمام بنیادی اداروں کی نجکاری ایجنڈے میں شامل ہے پی آئی اے کے تو چند
ہزار ملازمین تھے جنہوں جان کی قربانی بھی دے دی لیکن واپڈا کے ملازمین اور
ریلوے کے ملازمین جب سڑکوں پر آئیں گے حالات قدرے مختلف ہونگے اور شدت اس
سے کہیں زیادہ ہو گی سوال یہ ہے کہ اس قت بھی گو لی چلائی جائے گی ؟ حکومت
نے احتجاج کرنے والوں پر گولی چلا کر احتجاج کا حق بھی چھننے کا واضح تاثر
دیا ۔ گھر میں کسی بچے پر پیسا خرچ کرکے اسے اچھی تعلیم دلائی جائے اور وہ
امیدوں پر پورا نہ اترے تو اسے گھر سے نکال نہیں دیا جا تا بلکہ اسے کماؤ
پوت بنانے کے لئے کوشش کی جا تی ہے اگر کوشش خالص ہو تو کامیابی حاصل ہو ہی
جا تی ہے لیکن شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ :
شہر آسیب میں آنکھیں ہی نہیں ہیں کافی
الٹا لٹکو گے تو سیدھا نظر آ ئے گا |