اسلام کی حقانیت اور امن و سلامتی کے ہر کوئی قائل ۰۰۰
(Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid, India)
اسلام کی حقانیت او رامن و سلامتی کا دوسرے
مذاہب کے ماننے والے اور دشمنانِ اسلام نے ہر دور میں اعتراف کیا ہے یہ اور
بات ہے کہ وہ راہِ ہدایت سے محروم رہے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر دنیا کے سب
سے بڑا سوپر پاور ملک امریکہ کے صدر نے بھی 3؍ فروری کوپہلی مرتبہ اپنے ملک
کے دارالحکومت واشنگٹن کی بالٹی مور مسجد میں امن و سلامتی اور مذہبی ہم
آہنگی کو فروغ دینے کے حوالے سے دورہ کرتے ہوئے مذہبِ اسلام کی تعریف کرنے
پر مجبور ہوگئے یہ تعریف اور اعتراف کسی بھی مقصد کے لئے کیا گیا ہوگا وہ
الگ بات ہے۔بارک اوباما مسجد میں اپنے خطاب سے قبل یہاں کے امام و دیگرکئی
مذہبی قائدین سے ملاقات کی اور انہوں نے اپنے خطاب کے دوران قرآن مجید کا
حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ اسلام ایک پرامن مذہب ہے، اسلام میں ایک انسان کا
قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ انہوں نے مذہبی آزادی اور برداشت پر اظہار
خیال کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر انتہاء پسندی کا خاتمہ کیا
جاسکتا ہے۔ امریکی مسلمانوں کے تعلق سے انکا کہنا تھا کہ امریکی مسلمانوں
سے ہمیں تحفظ کا احساس ہوتا ہے، امریکی معاشرے میں تعصب کی کوئی گنجائش
نہیں ہے انہوں نے مزید کہا کہ مسلم مخالف بیان بازی کی بھی امریکہ میں کوئی
جگہ نہیں۔ اوباما کا کہنا تھا کہ مشرقِ وسطی میں جس طرح دہشت گردی کی وجہ
سے تمام مذاہب میں خوف و ہراس کا ماحول ہے ،اور دہشت گرد تنظیمیں بشمول
داعش اسلام کا غلط تصور پیش کررہی ہیں، انہوں نے کہا کہ امریکی اتحاد،
اسلام کو نہیں دبا رہا ہے بلکہ اسلام کے نام پر جو تنظیمیں غلط تصور پیش
کررہی ہیں انکے خلاف کارروائی کی جارہی ہے۔ اس موقع پر صدر امریکہ نے ایک
جانب پاپ کلچر سے متاثر امریکیوں کا یہ خدشہ دور کرنے کی کوشش کی کہ مسلمان
دہشت گرد نہیں ہیں اور دوسری جانب امریکی مسلم نوجوانوں کو یہ یقین دہانی
کرائی کہ ان کے لئے معاشرے میں جگہ ہے، انہو ں نے اسلام پر حملے کو تمام
مذاہب پر حملہ قرار دیا ، اور صدارتی امیدوارکی دور میں شامل ڈونلڈ ٹرمپ
اور دوسرے ری پبلکن امیدواروں کی مسلمانوں کے خلاف ’’زہر افشانی‘‘ کی مذمت
کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمیں یہ بات سمجھنا ہوگی کہ ایک عقیدے پر حملہ تمام
عقیدوں پر حملے کے مترادف ہے۔ جب ایک مذہبی گروہ کو ہدف بنایا جاتا ہے تو
اس کے خلاف بولنا ہم سب کی ذمہ داری ہے‘‘۔ اس موقع پر صدر امریکہ نے
مسکراتے ہوئے سامعین کو بتایا کہ ’’میں ایک اچھی مجلس میں ہوں‘‘۔ خطاب کے
بعد اوباما نے مسجد کے جمنازیم میں بھی گئے اور وہاں انہوں نے کھیل کود میں
مصروف بچوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ ’’ایک دن‘‘ وہ بھی امریکہ کے صدر بن سکتے
ہیں، آپ یہاں فٹ ہیں اور آپ مسلمان یا امریکی، نہیں بلکہ مسلمان اور امریکی
ہیں۔امریکی صدر کے اس دورے کے بعد عالمی سطح پر مسلمانوں کے لئے ہی نہیں
بلکہ دیگر مذاہب کے لئے بھی یہ پیغام ملا کہ اسلام کی حقانیت، امن و سلامتی
کو کسی طور پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اور اسلام کے سچے پیروکار کسی بھی
طرح انسانیت کے قاتل نہیں ہوسکتے۔ امریکہ میں اس وقت ایک سروے کے مطابق
35لاکھ کے قریب مسلمان آباد ہیں جن میں پناہ گزیں بھی شامل ہیں اور یہ
تعداد امریکی آبادی کا ایک فیصد ہے۔ امریکہ میں مذہبی آزادی ہے اور
مسلمانوں کو بھی اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی ہے۔ نام نہاد
دہشت گرد جہادی تنظیموں کی وجہ سے آج اسلام کی شبیہہ متاثر ہورہی ہے اور
مسلمانوں کو عالمی سطح پر دہشت گرد کے طور پر پیش کیا جارہا ہے جبکہ دیگر
مذاہب سے تعلق رکھنے قائدین یا تعلیم یافتہ و دانشور طبقہ اسلامی تعلیمات
کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ واقعی اسلام امن و
سلامتی کا پیغام دیتا ہے اور اس کے ماننے والے حقیقی طور پر عجزو انکساری ،
ادب و اخلاق کے پیکر ہوتے ہیں۔ آج مشرقِ وسطی میں جس طرح کا ماحول نام نہاد
جہادی تنظیموں نے بنائے رکھا ہے اس سے عالمی سطح پر مسلمانوں کو دہشت گرد
بناکر پیش کیا جارہا ہے ۔ شام، عراق، یمن، لیبیاء، افغانستان وغیرہ کے
حالات نے ایک طرف مسلمانوں کو دہشت گرد کے طور پر پیش کیا ہے تو دوسری جانب
معصوم و بے قصور مسلمان نام نہاد جہادی تنظیموں اور امریکی و مغربی اتحاد
کے حوالے سے ظلم و بربریت کا شکار ہورہے ہیں۔ آج لاکھوں کی تعداد میں پناہ
گزیں بے سروسامانی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ میں انقلاب اور مصر
مشرقِ وسطی میں 2011میں بہارِ عرب کے نام سے انقلاب برپا ہوا اور دیکھتے ہی
دیکھتے مصر، لبیاء کے دونوں حکمرانوں کو اقتدار سے بے دخل ہونا پڑا۔ ایک
طرف کرنل معمر قذافی کو بُری طرح قتل کردیا گیا تو دوسری جانب جنوری
2011میں حسنی مبارک کو ذلیل و خوار کرکے اقتدار سے بے دخل کردیا گیا۔ملک
میں حسینی مبارک کے تیس سالہ حکومت کے خاتمہ اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں
کو معطل کردیا گیا اور ملک میں فوجی حکومت نگران بنی۔ جون 2012میں مصرمیں
صدارت کے لئے انتخابات منعقد ہوئے اور اخوان المسلمین سے تعلق رکھنے والے
امیدوار محمد مرسی ملک کے پہلے جمہوری صدر منتخب ہوئے۔ صرف ایک سال بعد جون
2013میں انکے خلاف احتجاج بلند ہوا اور3؍ جولائی 2013کو محمد مرسی کے خلاف
فوجی بغاوت کرتے ہوئے موجودہ صدر و سابق فوجی جنرل عبدالفتاح السیسی نے
انہیں اقتدار سے بے دخل کردیا اور مختلف الزامات کے تحت ان پر مقدمات دائر
کئے گئے جو آج بھی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں۔ محمد مرسی کے
خلاف فوجی بغاوت نے ملک میں خانہ جنگی کا ماحول پیدا کردیا اور دیکھتے ہی
دیکھتے اخوان المسلمین نے سارے ملک میں احتجاج بلند کیا ۔ مصر کے
دارالحکومت قاہرہ میں اگست 2013میں پولیس نے ہزاروں اخوان المسلمین کے
احتجاج کرنے والے مظاہرین پر گولیاں چلائیں جس میں غیر سرکاری اعداد و شمار
کے مطابق 4000ہزار افراد ہلاک ہوگئے۔ یہ کارروائی اتنی بھیانک تھی کہ اس کے
خلاف عالمی سطح پر انگلیاں اٹھائی گئیں ۔ ایک طرف اخوان المسلمین پر گولیاں
چلائی گئیں تو دوسری جانب احتجاج کرنے والوں کے خلاف کارروائیاں کرتے ہوئے
انہیں حراست میں لیا گیا اور سخت دفعات کے تحت ان احتجاجی اخوانیوں کو
سزائے موت یا سزائے عمر قید سنائی گئی۔ 2015میں سلسلہ وار سزائے موت دیئے
جانے کے ابتدائی فیصلے پر عالمی سطح پر تنقید کی گئی تھی۔ جس میں کہا گیا
تھا کہ حکومت نے برطرف کئے جانے والے صدر محمد مرسی کے حامیوں کے خلاف کریک
ڈاؤن کیا تھا۔ محمد مرسی کے علاوہ اخوان المسلمان کے شیخ بدیع کو بھی سزائے
موت سنائی گئی۔ 3؍ فبروری 2016کو عدالتی ذرائع کے مطابق مصر کی اپیل کورٹ
نے سابق صدر محمد مرسی کے 149حمایتیوں کی سزائے موت پر روک لگا دی ہے۔ ان
افراد پر الزام تھا کہ انہوں نے پولیس اسٹیشن پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں
13پولیس اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سزائے موت کے
بجائے جو سزاسنائی گئی ہے یہ اس سے زیادہ خطرناک ہے ۔ اب دیکھنا ہیکہ اس
سزا کے خلاف اخوان المسلمین یا عالمی سطح پر کس قسم کے بیان آتے ہیں اور اس
سزا کے خلاف کس قسم کی اپیل کی جاتی ہے۔
داعش کے خلاف شام میں زمینی کارروائی ممکن
سعودی عرب کے فرمانروا وشاہ سلمان بن عبدالعزیز خادم الحرمین الشریفین نے
سعودی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کے دوران کہا کہ دہشت گردوں کو کیفر کردار
تک پہنچایا جائے گا۔ شاہ سلمان نے گذشتہ دنوں الاحساء کی مسجد پر حملہ کی
سخت الفاظ میں مذمت کی۔ سعودی کابینہ نے شام اور یمن کے حالات کا جائزہ لیا
۔ یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف سعودی قیادت میں اتحادی ممالک فضائی
کارروائی کررہے ہیں اور شام میں بھی زمینی کارروائی کے لئے سعودی عرب عندیہ
دے چکا ہے۔امریکہ نے سعودی عرب کی جانب سے امریکہ کی زیرِ قیادت اتحاد کی
جانب سے شام میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ (داعش) کے خلاف کسی بھی زمینی
فوجی کارروائی میں شامل ہونے کی پیشکش کا خیر مقدم کیا ہے۔ سعودی عرب کی
فوج کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل احمد عسیری نے 4؍ فبروری کو کہا تھا کہ شام
میں شدت پسندوں کو شکست دینے کے لئے فضائی کارروائی کے ساتھ ساتھ زمینی
کارروائیاں بھی ضروری ہیں۔ ان کا ملک ایسی کسی بھی کارروائی کے لئے اپنی
افواج فراہم کرے گا۔ امریکی وزیر دفاع ایش کارٹر نے اس پیشکش پر تبصرہ کرتے
ہوئے کہا کہ اتحادی ممالک کی جانب سے سرگرمیوں میں اضافہ امریکہ کے لئے
دولت اسلامیہ کے شدت پسندو ں کے خلاف کارروائی کو آسان بنادے گا۔ امریکی
وزیر دفاع نے اس پیشکش پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اتحادی ممالک کی جانب سے
سرگرمیوں میں اضافہ امریکہ کے لئے دولت اسلامیہ کے شدت پسندوں کے خلاف
کارروائی کو آسان بنادے گا۔ انکا کہنا تھا کہ اس جنگ میں مزید اسلامی ممالک
کو شامل کرنے اور مستقبل میں عراق اور شام میں دولت اسلامیہ کے احیاء کو
روکنے کی کوشش کریں گے۔ ستمبر2014سے شام میں امریکی قیادت میں دولت اسلامیہ
کے شدت پسندوں کے خلاف فضائی حملوں کا آغاز ہوا جو اب بھی جاری ہیں اور اس
کارروائی میں سعودی طیارے بھی شریک رہے ہیں۔ سعودی جنرل عسیری کا کہنا ہے
کہ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ صرف فضائی کارروائیاں بہترین حل نہیں
ہیں اور انکے ساتھ ساتھ زمینی کارروائیاں بھی ہونے چاہئے۔ امریکہ خطے میں
داعش کے خلاف مزید فوجی اقدامات کرنے اور مدد کرنے کے لئے خلیجی ممالک پر
زور دیتا رہا ہے اور اب سعودی عرب کی جانب سے زمینی حملے کی بات امریکہ کے
لئے خوش آئند ہے۔ سعودی عرب اور دیگر ممالک شام میں بشارالاسد کی حکومت کا
خاتمہ چاہتے ہیں کیونکہ شام میں لاکھوں بے قصور سنیوں کو ہلاک کیا گیا اسی
طرح یمن میں بھی حوثی باغی ہزاروں سنی مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں کرتے
ہوئے انہیں ہلاک کررہے ہیں یہی وہ حالات تھے جس کی وجہ سے سعودی عرب اور
دیگر خلیجی ممالک نے اتحاد کے ذریعہ یمن کے حوثیوں اور شام میں بشارالاسد
اور اخوان المسلمین کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کیا ۔ ان تمام کارروائیوں
کے باوجود آج بھی دولت اسلامیہ اور دیگر نام نہاد جہادی تنظیمیں مضبوط
دکھائی دے رہی ہے امریکہ نے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ داعش کو ختم تو کیا جائے
گا لیکن اس کے لئے کافی عرصہ درکار ہوگا۔ اب دیکھنا ہے کہ سعودی عرب اور
دیگر خلیجی ممالک کس قسم کے فیصلے لیتے ہیں امریکی اتحاد کا حصہ بنے رہے گی
۰۰۰ |
|