شاہد احمد دہلوی پر ایک عمدہ کتاب

راشد اشرف کراچی کے ادبی حلقوں میں جانے پہچانی شخصیت کے مالک ہیں۔ اکثر ادبی محفلوں میں اپنی معصومانہ مسکراہٹ کے ساتھ موجود ہوتے ہیں، پیشہ تو ان کا انجیئیر نگ ہے لیکن اپنے ظاہری حلیے اور عمل سے مکمل ادبی شخصیت نظر ۤتے ہیں۔ کئی کتابیں مرتب کر چکے ۃٰن ابن صفی ان کے پسندیدہ مصنف ہیں اس لیے کہ ان پر انہوں نے دو کتابیں مرتب کی ہیں۔ شاہد احمد دہلوی کی یہ کتاب ان کی عمدہ کاوش ہے۔ کچھ اس حال بیان کیا ہے۔
ادب کی دنیا کا ایک معتبر نام شاہد احمد دہلوی، ادب اور موسیقی ان کی زندگی تھی۔ ڈاکٹر احسن فاروقی کے بقول ’ان کی صلاحتوں کے ادیب ہر روزنہیں پیدا ہوتے بلکہ جس دور میں پیدا ہوجائیں اسے ان پر ناز کرنا چاہیے‘۔ شاہد احمد دہلوی جس زمانے میں پیدا ہوئے اس زمانے کے لوگوں کو تو ان پر ناز ہوگا ہی جب تک دنیا باقی ہے ادب سے تعلق رکھنے والے اس بات پر ناز کرتے رہیں گے کہ ان کے قبیلے میں شاہد احمد دہلوی جیسا ادیب پیدا ہوا۔ آج میں ایک ایسی کتاب کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں جو ادب کے ایک کثیر التحریر مصنف، خاکہ نگار، ترجمہ کرنے کے ماہر، ساز و سنگیت کے ماہر، معروف ادبی جریدے ’ساقی‘ کے مدیراور اردو ادب کے ساتھ ساتھ عالمی ادب پر گہری نظر رکھنے والے ادیب شاہد احمد دہلوی پر مرتب کی گئی ہے ۔ ان کے لکھے ہوئے خاکے ،فن خاکہ نگاری میں منفرد مقام رکھتے ہیں۔ شاہد احمد دہلوی پر مرتب کی جانے والے یہ کتاب کراچی کے نوجوان ادیب راشد اشرف نے مرتب کی جو انہوں نے ازراہ عنایت مجھے عنایت فرمائی، شکریے کے ساتھ میں نے ان سے اجازت چاہی تھی کہ میں اس کتاب کا پوسٹ مارٹم کرنے کروں ز ، اس پر وہ ہنس دیے تھے گویا یہ اجازت تھی ۔

شاہد احمد دہلوی ‘ادب اور موسیقی کی دنیا کا ایک معروف و معتبر نام، ماہنامہ ’ساقی‘ شاہد احمد دہلوی کی پہنچان تصور کیا جاتا ہے، ساقی میں تحریرکردہ اداریے بعنوان ’نگاہ اولین‘ شاہد احمد دہلوی کے رشحاتِ قلم کا انمول نمو نہ ہیں۔ان اداریوں میں شاہد احمد دہلوی نے اپنے دور کے علمی و ادبی ماحول کی عکاسی کی ہے، ادبی سرگرمیوں کی تفصیل خوبصورت انداز سے بیان کی ہے،اُس دور کی باہمی نہ انصافیوں اور ادیبوں کے مابین ہونے والی چَپقَلشوں کاذکر بھی ملتا ہے،ادب کی مختلف اصناف کے بارے میں روشنی ڈالی گئی ہے، ساقی کے علاوہ جو ادبی جرائد شائع ہورہے تھے ان کے حوالے سے مختلف پہلوؤں کا ذکر ان اداریوں میں ملتا ہے۔شاہد احمد دہلوی کی نظر بہت گہری ، سوچ مثبت، انداز فکاہیہ تھا۔ انہوں نے جو بھی لکھا شائستہ اور سلیقے سے لکھا، تنقید بھی کی تو شگفتگی اور مُوَدَّبانہ انداز میں۔شاہد احمد دہلوی جیسی باصلاحیت علمی و ادبی شخصیات روز پیدا نہیں ہوتیں۔لمحہ موجود کے نوجوان ادیب راشد اشرف نے شاہد احمد دہلوی کے حوالے سے ’’گلدستۂ شاہد احمد دہلوی: ساقی سے انتخاب، خاکے اور متفرق تحریریں‘‘ مرتب کرکے ایک جانب تو شاہد احمد دہلوی سے اپنے علمی و ادبی تعلق کو آگے بڑھایا ہے دوسرے یہ کہ شاہد احمد دہلوی کے حوالے سے ادبی کام جو ابھی تک مختلف اوراق میں بکھرا ہوا تھا اسے یکجا کردیا ہے ۔

راشد اشرف ایک نواجوان ادیب ہیں، پیشہ تو ان کا انجینیرٔنگ ہیں لیکن ادبی ذوق اور ادب سے والہانہ لگاؤ رکھتے ہیں۔ کتابوں خاص طور پر پرانی کتابوں کو جگہ جگہ سے ڈھونڈ کر لاتے ہیں اورانہیں عام لوگوں سے متعارف کراتے ہیں۔ ان پرانی کتابوں کو متعارف کرانے کا ذریعہ انٹر نیٹ ہے، وہ فیس بک پر ان نایاب اور قیمتی کتابوں اور ان کے لکھنے والوں کا تعارف خوبصورتی کے ساتھ کراتے ہیں۔ اکثر لوگ فیس بک کے بارے میں منفی رائے کا اظہار کرتے ہیں ، میرا استدلال اس حوالے سے یہ ہے کہ ہر چیز کے منفی اور مثبت پہلو ہوتے ہیں، اب یہ طالب پر ہے کہ وہ کس کا انتخاب کرتا ہے۔ انٹر نیٹ میں بے تہاشہ خامیاں اور برائیاں ہیں لیکن کیا آج ہم انٹر نیٹ کے بغیر رہ سکتے ہیں۔ اسی طرح فیس بک کو بعض لوگوں نے تصاویر ڈالنے اور دوسروں کی تصویریں دیکھنے کی حد تک محدود کیا ہوا ہے یہ ان کی اپنی سوچ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اسی قابل سمجھتے ہیں راشد اشرف جیسے کتنے ہی لوگ ہیں جو فیس بک کو علمی ، ادبی، تہذیبی و ثقافتی معلومات دوسروں تک پہنچانے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں اور کتنے ہی ایسے احباب ہیں جو اس علمی ادبی خدمت سے فیضیاب ہورہے ہیں۔ میری تمام کالم اخبار میں شائع ہونے کے بعد فیس بک کی ذینت بنتے ہیں اور کتنے ہی لوگ اس سے فیضیات ہوتے ہیں۔

میں بات راشد اشرف کی کررہا تھا نکل کئی فیس بک اور انٹر نیٹ کی جانب۔ راشد کا تعلق بدایوں سے ہے، ان کے والد بنکر اور والدہ شعبہ تدریس سے تعلق رکھتی تھیں ، بچپن سے پڑھنے اور لکھنے کی جانب مائل ہیں، اے حمید کے بعد ابن صفی کا تفصیلی مطالعہ کیا،ہمدرد نونہال میں اس وقت مضمون لکھا جب یہ نویں جماعت میں تھے اور حکیم محمد سعید سے انعام حاصل کیا۔ افسانہ بھی لکھتے ہیں، مشفق خواجہ کو اپنا رہنما قرار دیتے ہیں۔ ابن صفی کے حوالے سے ان کی کتاب ’ابن صفی کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غأیبانہ ‘ اور’ ابن صفی شخصیت و فن ‘منطر عام پر آچکی ہیں۔’مولانا چرغ حسن حسرت ہم تم کو نہیں بھولے‘ کے علاوہ ’طرز بیاں اور (پرانی کتابوں کا اتوار بازار اور تبصرے اور متفرقات ‘ بھی ان کی تصانیف ہیں۔ ادبی میدان میں یہ جس قدر متحرک ہیں لگتا ہے کہ ادب کے میدانِ کارزار میں تیزی سے چوکے اور چھکے لگاتے رہیں گے۔

راشد اشرف کا یہ مجموعہ شاہد احمد دہلوی پر پہلا کام نہیں اس سے پہلے متعدد علمی و ادبی شخصیات نے شاہد احمد دہلوی کی شخصیت اور ادبی خدمات پر مضامین بھی لکھے اور متعدد کتابیں منطر عام پر آچکی ہیں ۔ ان میں سے چند کا ذکر راشد اشرف نے اپنے پیش لفظ میں بھی کیا ہے۔ جیسے ڈاکٹر جمیل جالبی کا مرتب کردہ ساقی کا شاہد احمد دہلوی نمبر اور شاہد احمد دہلوی کے خاکوں کا مجموعہ ، ڈاکٹر محمد عارف کا پی ایچ ڈی کا مقالہ جو کتابی صورت میں شائع ہوا، عقیل عباس جعفری نے شاہد احمد دہلوی کے موسیقی پر مضامین تحقیقی کام کیا ان کا مرتب کردہ مجموعہ ’مضامین موسیقی ‘ ، ڈاکٹر اسلم فرخی کی سرپرستی میں شاہد احمد دہلوی پر کام ہوا، ’یاد شاہد ‘ مقبول جہانگیر کا مرتب کردہ مجموعہ ہے جو شاہد احمد دہلوی پر بہترین اضافہ ہے۔ مضامین کی تعداد تو بے شمار ہے جن میں شاہد احمد دہلوی کی مختلف اصناف پر تحریر وں اور ان کی شخصیات کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔

شاہد احمد دہلوی کی ادبی خدمات اس مجموعہ کی بنیاد ہیں۔ خاص طور پر رسالہ ’ساقی‘ میں شاہد احمد دہلوی کے جو شخصی خاکے شائع ہوئے ان کاانتخاب ، اہم یہ کہ ساقی کے اداریے بعنوان نگاہ اولین پہلے شمارہ ، جنوری 1930ء سے اکتوبر1936ء تک کے اداریے اس مجموعہ کا حصہ ہیں۔ مجموعہ طور پر کتاب چار حصوں میں تقسیم ہے۔ مؤلف کا لکھا ہوا پیش لفظ اور شاہد احمد دہلوی کے فرزند محمود احمد کا تعارفی مضمون علیحدہ ہے۔ پہلے فرزند شاہد احمد دہلوی نے کیا لکھا ہے اسے دیکھئے ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’دلی سے لٹ پٹ کر آنے کے بعد ابا کی ریڈیو پاکستان کراچی میں ملازمت کی خبر سن کر راجہ مہدی علی خان نے بمبئی کے کسی رسالے میں یہ لکھا ’’شاہد صاحب آپ کا ریڈیو میں ملازمت کرنا مجھے ایسا لگتا ہے جیسے شیکسپیٔر ریوڑیاں بیچ رہا ہو یا ملٹن نے نان چھولے کی دکان لگالی ہو‘‘۔ آپ اس بات پر بہت ہنسے تھے۔ ابا بہت خوش مزاج ، زندہ دل اور بہت خودار انسان تھے۔ ان کے لیے قیمتی موٹر کاریا گدھا گاڑی کا مصرف ایک تھا۔’’گدھا گاڑی میں بیٹھنے سے انسان کا وقار کم نہیں ہوتا ‘‘۔ مجھے یاد ہے ایک مرتبہ میری پھوپھی زاد بہن صبیحہ آرا نے کسی شخص کی بڑائی کرتے ہوئے ابا سے کہا: ’’ماموں اس کے پاس تین موٹر کاریں ہیں‘‘۔ اس پر ابا نے بیڑی کا کش لیتے ہو ئے بہت اطمینان سے کہا تھا : ’’ہاں ، وہ تینوں کاروں میں ایک ساتھ سفر کرتا ہوگا‘‘۔ شاہد احمد دہلوی کے طنز و مزاح کے بارے میں محمود احمد لکھتے ہیں’’ابا کے فقرے طنز و مزاح سے بھر پور ہوتے تھے۔ ایک دوپہر ہم لوگ ریڈیوسن رہے تھے ۔ ایک فلمی گانا نشر ہورہا تھا’’آئے گا․․․․آئے گا آنے والا․ ․․آئے گا ‘‘ ابا کمرے میں داخل ہوئے اور یہ کہتے ہوئے ’’کھائے ․․․کھائے․․․جوتے کھائے گا کھانے والا‘‘ ریڈیو بند دکردیا ‘‘۔ شاہد احمد دہلوی از خود موسیقی سے بے پناہ دلچسپی رکھتے تھے۔ وہ ایک عمدہ سازندہ نواز اور سنگیت نگار تھے۔

گلدستہ شاہد کا حصہ اول جریدہ ’ساقی کے اداریے ہیں جو مدیر کی حیثیت سے شاہد احمد دہلوی نے ’نگاہ اولین‘ کے عنوان سے لکھے، یہ اداریے ادب کا دلکش نمونہ ہیں، یہ اداریے اس کے علمی ادبی ماحول کی عکاسی کرتے ہیں۔حصہ دوم میں ساقی سے شاہد احمد دہلوی کے چند منتخب کردہ مضامین شامل ہیں۔ ان میں ’یہ آل انڈیا ریڈیو ہے‘ کے عنوان سے لکھے گئے سلسلہ وار مضامین شامل ہیں، اس حصے میں ایک مضمون ’’اجڑے دیار کی آخری بہار‘‘ ہے ۔بقول راشد اس مضمون کو بلاشبہ حاصل مطالعہ کہا جاسکتا ہے۔ یہ مضمون دلی کی معاشرتی زندگی ، بولیوں ٹھولیوں اور دلچسپ واقعات کا ایک ایسا مرقع ہے جس میں شاہد احمد دہلوی اپنے فن کے عروج پر نظر آتے ہیں۔ کتاب میں شامل شاہد احمد دہلوی کے خاکوں سے شاہد احمد دہلوی کی شخصیت کے اہم پہلو اجاگر ہوجاتے ہیں۔ کتاب کا چوتھا حصہ تصاویر پر مشتمل ہے۔ المختصر کتاب کو بہت سلیقے کے ساتھ مرتب کیا گیا ہے ۔ اس طرح کے شاہد احمد دہلوی کی شخصیت کے تمام ہی پہلو چھم چھم کرتے سامنے آجاتے ہیں۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437448 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More