طلبہ یونینز!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
سٹوڈنٹس یونینز پر پابندی کو 32سال
مکمل ہوگئے، فطری طور پر آمریت ہر اس فرد سے خوفزدہ ہوتی ہے، جو آواز بلند
کرسکتا ہے، نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ مختلف حیلے بہانوں سے ایسی آواز کو دبانے
کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسے مخالف کو جیل میں ڈالنے کا نسخہ قدیمی اور آزمودہ
ہے۔ وہ پرانے رہنما جو زبان وبیان کے بادشاہ تھے، ان کی حیاتِ عزیز کے بہت
سے سال جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ہی گزرے، کتابیں لکھیں، جیل سے آئے، پھر
کوئی تقریر کی اور اپنے اصلی گھر لوٹ گئے۔ بہت سے مخالفین ایسے ہوتے تھے
جنہیں جابر حکمران جیل بھجوانے کی بجائے ’اوپر‘ بجھوانے کا بندوبست کرتے
تھے۔ مختلف قسم کی پابندیوں کا سامنا بھی اُن لوگوں کو کرنا پڑتا تھا۔ تاہم
حکومت مخالف گروپوں میں طلبا کی طاقت ایسی تھی جس سے کوئی بھی آمریت سخت
پریشان رہتی تھی، ایوب خان کے زمانے میں یہ طلبہ تحریک ہی تھی جس نے بنیاد
رکھی، پھر ہنگامے شروع ہوگئے اور انجام حکومت کے خاتمے پر ہوا۔ ایوب خان کے
دورِ حکومت میں ہی طلبا تنظیموں نے خود کو مضبوط کیا ۔تاہم اب صرف آمریت پر
الزام نہیں دھرا جاسکتا۔
طلبا ہی کسی بھی ملک کا مستقبل ہوتے ہیں، پہلے تمام بچوں کو سکول لانا، پھر
انہیں اچھی اور بھرپور تعلیم دینا اور ان کی تربیت کرنا حکومتوں اور اساتذہ
کا کام ہوتا ہے، ان طلبہ کے پاس ہنر، تعلیم اور تہذیب جیسے ہتھیار ہونگے تو
وہ ترقی، خوشحالی اور مستقبل کی نئی عمارت تعمیر کرسکیں گے، اگر وہ بے ہنر
اور غیر تربیت یافتہ ہوں گے تو ان سے کس قسم کی تعمیر کی توقع رکھی جاسکتی
ہے؟ حکومتیں چونکہ سیاستدانوں نے چلانی ہیں، اور سیاست کے حقیقی رموز سے
واقفیت کے لئے اسے پہلے سے ہی تربیت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ تعلیمی اداروں
میں یونین سازی اسی قسم کی ایک نرسری تھی، جہاں سٹوڈنٹس کے الیکشن ہوتے تھے،
مختلف پارٹیاں آمنے سامنے آتی تھیں، اور نتیجے کے طور پر کچھ لوگ کامیاب
ٹھہرتے تھے، اور سال بھر کے لئے وہ دیگر تمام سٹوڈنٹس کے نمائندہ بن کر
خدمات سرانجام دیتے تھے، طلبا کو کسی مسئلے کا سامنا ہے تو وہ اپنے
نمائندوں کے پاس جاتے تھے ، یوں انفرادی یا اجتماعی مسائل کے حل میں آسانی
پیدا ہوجاتی تھی۔ یونین کے دور میں ہر پارٹی چونکہ الیکشن جیتنے کی خواہش
رکھتی تھی ، اسی لئے کامیاب ہونے والی پارٹی کی سال بھر یہ کوشش اور خواہش
رہتی کہ وہ طلبا کی زیادہ سے زیادہ خدمت کریں تاکہ اگلی مرتبہ بھی انہیں
الیکشن کے موقع پر کسی قسم کی مشکل برداشت نہ کرنا پڑے۔ بہت سے تعمیری کام
کئے جاتے تھے، تقریبات منعقد کی جاتیں، جن میں تقریری مقابلوں کی فضا پیدا
ہوتی، ایک دوسرے کی دلیل سننے اور اس کا جواب دینے کا حوصلہ اور صلاحیت
پیدا ہوتی۔ ہنر مندی کے مقابلے ہوتے، کھیلوں کے میدان سجتے، تعلیمی مقابلہ
جات کا اہتمام کیا جاتا، مختلف ایشوز کے حوالے سے مخصوص دن اور ہفتے منائے
جاتے، کبھی ہفتہ اخلاق ہوتا تو کبھی ہفتہ صفائی، کبھی اساتذہ کی عزت کا
ہفتہ ہوتا تو کبھی باہمی احترام کی تربیت کا۔ طلبا ان تقریبات اور
پروگرواموں میں بہت دلچسپی سے حصہ لیتے، کالجوں اوریونیورسٹیوں میں میلے کا
سماں ہوتا۔
ہر سال دسمبر کے اواخر میں باقاعدگی سے طلبا یونینز کے الیکشن ہوتے تھے،
دلچسپ بات یہ کہ اُس زمانے میں سیاست میں پیسے کا عمل دخل نہ تھا، طالب علم
کی صلاحیت اور پارٹی ٹکٹ ہی اس کے مقابلے میں کامیابی وغیرہ کی ضمانت ہوتا
تھا۔ بہت سے دیہات کے عام اور غریب طلبہ بھی شہر میں آکر طالب علم لیڈر بنے
۔ ان یونینز کا سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ قومی سیاست کے لئے یہ طلبہ ایک
نرسری کی حیثیت رکھتے تھے، یہی نرسریاں آگے جاکر تناور درخت کے طور پر
پاکستان کے سیاسی افق پر نمودار ہوئے ، چونکہ اس نرسری کو بند ہوئے تین
دہائیاں گزر چکی ہیں، اس لئے ان نرسریوں سے تیار شدہ پودے اب زندگی کی
پانچویں دہائی یا اس کے بھی بعد والی دہائیوں میں موجود ہیں۔ کون نہیں
جانتا کہ جو لوگ طالب علم لیڈر رہے ہیں، وہ اب بھی کسی حد تک اصولی سیاست
کرتے دکھائی دیتے ہیں (اگرچہ پاکستان کی سیاست کے بہت سے منفی اثرات ان پر
بھی پڑ چکے ہیں)۔ طلبا سیاست سے آگے آنے والے لیڈر اس وقت ہر جماعت میں
موجود ہیں، مگر اب یہ دروازے مکمل طور پر بند ہیں۔ سیاسی جماعتیں بھی دیگر
امور میں مصروف ہیں اور شاید طلبا بھی تحریکیں چلا چلا کر مایوس ہوچکے ہیں،
یا شاید اب وہ ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے ، کیونکہ آئی ٹی نے سب کو مصروف
کردیا ہے۔ اگرچہ کچھ لوگ سٹوڈنٹس یونینز کے شدید مخالف ہیں، تاہم یونین کی
خوبیاں خامیوں سے زیادہ ہیں۔ دوسرا یہ کہ اب بتیس برس مکمل ہوئے ہیں تو
اگلے سال فروری میں 33ہوجائیں گے اور اس سے اگلے 34اور چل سو چل۔
|
|