بچوں کی کردار سازی اور اساتذہ کا رویہ
(Syed Anees Bukhari, Karachi)
معلم کا کردار ہمارے معاشرے میں انتہائی
مخدوش ہو چکا ہے اور اگر دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میں ایک معلم نہ صرف
اپنی حیثیت اور اہمیت کھو چکا ہے بلکہ اگر ہم یہ کہیں تو بجا ہوگا کہ اب
معاشرے میں ایک معلم کا مقام پیسے کمانے والی مشین سے کم نہیں ہے۔ اگر ہم
آج سے چالیس۔ پچاس سال قبل اساتذہ کے کردار اور انکے اخلاق پر نظر دوڑائیں
تو ہم دیکھتے ہیں کہ اب یہ مثال خال خال ہی ملے گی۔ اساتذہ کا کلاس میں
بچوں کو اخلاقی درس دینا، بچوں، اپنے بہن بھائیوں، دوستوں اور ساتھیوں سے
محبت اور اخلاق سے پیش آنا، والدین کی عزت اور تکریم، پڑوسیوں اور عزیز و
اقارب کے حقوق او ر محلے کے عمر رسیدہ لوگوں کی عزت و احترام کے بارے میں
بتانا ایک ایسا عمل تھا جو بچپن سے ہی بچوں کے دل و دماغ میں ایسا گھر کر
جاتا تھا کہ وہ ان پر عمل کرتے ہوئے معاشرے کو مثالی بنانے میں اپنا اہم
کردار کیا کرتے تھے۔ جہاں بچوں کیلئے نصابی سرگرمیاں انتہائی ضروری ہیں
وہیں انکی کردار سازی بھی نہایت ضروری ہے مگرہمارے معاشرے کے موجودہ اساتذہ
نے ان تمام اخلاقیات کو پس پشت ڈال کر ہمارے بچوں کی کردار سازی سے توجہ
ہٹا کر صرف اور صرف اپنے لالچ ، ذاتی مفاد ، مذموم مقاصد جن میں دولت کی
ریل پیل اور ذاتیات پر توجہ مرکوز کرکے معاشرے کے بچوں سے اخلاقیات چھین کر
انہیں کرپٹ ، فراڈ، جھوٹ، دھوکہ دہی اور بد اعمالیوں کا شکار کر دیا ہے جس
سے نہ صرف ہمارا معاشرہ اخلاقی طور پر تباہی کی جانب سرعت سے گامزن ہے بلکہ
ہم اپنی معاشرتی اور ثقافتی اقدار کو بھول کر دولت کے ارتکاز کو ذیادہ
اہمیت دینے کیطرف مائل ہیں اور یہی ہمارے معاشرے کی تباہی کا باعث بن رہا
ہے۔ معاشرے سے محبت اور بھائی چارہ ختم ہوتا جا رہا ہے، عز ت و تکریم کیلئے
دولت کا سہارا لیکر تعلیم کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، طلباء کو درس گاہوں
میں تعلیم دینے کی بجائے انہیں انکا status برقرار رکھنے کیلئے مختلف طریقے
سکھائے جاتے ہیں اور انکے دماغ میں صرف ایک ہی فطور ڈالا جاتا ہے کہ دولت
ہی انسان کے تمام مسائل کا حل ہے۔اسکے لئے طلباء سے بھاری فیسیں وصول کی
جاتی ہیں انہیں درسگاہوں میں کرپشن کے ذریعے پوزیشن دلوائی جاتی ہے ۔ جس سے
معاشرے کا غریب اور متوسط طبقہ نا خواندگی کی طرف جا رہا ہے۔ تعلیم صرف چند
ہاتھوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے ۔ جو بچے اپنی درسگاہوں سے ہی کرپشن سیکھ
لیتے ہیں ایسے بچے بڑے ہو کر ملک کی لوٹ کھسوٹ اور کرپشن کرنے میں پیش پیش
ہوتے ہیں اور وہ معاشرے کیلئے ناسور کی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں۔ جہاں وہ
وائٹ کالر جرائم میں ملوث ہوتے ہیں وہیں وہ قانون شکنی کا موجب بھی بنتے
ہیں۔ایک معلم کا کردار انتہائی شستہ اور قابل تعریف ہونا چاہئے مگر ہم
دیکھتے ہیں کہ خاص طور پر سرکاری درسگاہوں میں اساتذہ بچوں کیساتھ انتہائی
نا روا سلوک اختیار کرتے ہیں ۔ اپنے سر سے بوجھ اتارنے کیلئے بچوں کو ڈراتے
اور دھمکاتے ہیں اور اسطرح وہ بچوں کی مار پیٹ کرکے اور ان پر جسمانی تشدد
کرکے انہیں تعلیم سے خائف کر دیتے ہیں اور ایسے بچے اساتذہ کے خوف سے ڈر کر
اسکول سے بھاگ جاتے ہیں اور وہ آوارہ ہو جاتے ہیں جسکی تمام تر ذمہ داری
اساتذہ پر عائد ہوتی ہے ۔ حکومت کو چاہئے کہ ایسے اساتذہ کیلئے سخت قوانین
عمل میں لائے جائیں اور ایسے اساتذہ کو مستوجب سزا قرار دیکر انہیں ملازمت
سے بر خواست کر دینا چاہئے تاکہ تعلیم کے میدان میں معاشرے کو ان ناسوروں
سے پاک کیا جائے جو اپنے ذاتی مقاصد حاصل کرنے کیلئے اور بچوں کو تعلیم سے
دور رکھنے میں اپنا گھناؤنا کردار ادا کرکے معاشرے کو ناخواندگی کیطر ف لے
جار ہے ہیں۔ ہم اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ موجودہ دور میں انسان نے
تعلیم کے میدان میں ترقی کرکے جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں گویا
معجزے برپا کئے ہیں اور ہمارا انداز فکر تبدیل ہو ا ہے وہیں غیر معمولی طور
پر بچوں کی ذہنی نشو و نما اور صلاحتیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے مگر یہ ضروری
نہیں کہ وہ ایک اچھے اور با کردار انسان بھی ہوں۔ ہم انہیں مختلف علوم اور
فنون سے آشنا تو کر رہے ہیں مگر انکی کردار سازی پر توجہ نہ دیکر ہم اپنے
معاشرے کو ایک استحصالی نظام کیطرف لیجا رہے ہیں جو انتہائی خطرناک ہے۔ ہم
ڈاکٹر تو پید کر رہے ہیں مگر انکا کردار مسیحائی نہیں بلکہ وہ ایک قصاب کا
کردار ادا کرتے ہوئے تمام اخلاقیات کا جنازہ نکال کر ہسپتال میں مردہ
مریضوں کے جسم سے نہ صرف انکے کپڑے نوچنے پر تلا ہوا ہے بلکہ وہ تو اسکے
لواحقین کو لوٹنے پر بھی آمادہ ہے۔ وہ تو مریضوں کو شفاء دینے کی بجائے ایک
پیسہ کمانے والی مشین بن کرانکا استحصال کرنے پر تلا ہوا ہے۔ ہم نے وکلاء
تو پیدا کر لئے ہیں مگر وہ تو انصاف کی خرید و فروخت کرنے پر تلے ہوئے ہیں
اور معاشرے میں انصاف کے متلاشیوں کو اندھیروں میں بھٹکا رہے ہیں اور انصاف
عنقاء ہوتا جاتا جا رہا ہے۔ ہم نے انجنئیر تو پیدا کر لئے ہیں مگر وہ قوم
کو سائینیسی ایجادات سے مستفید کرنے کی بجائے ان ایجادات سے قوم کا استحصال
کر رہے ہیں، ہم ان طبقات کو یہ بتانا بھول جاتے ہیں کہ جو تعلیم وہ حاصل کر
رہے ہیں وہ طبقات کی محرومیوں اور کمزوریوں کو ختم کرنے کیلئے ایک ایسا
ہتھیار ہے جو قوم کے پسے ہوئے اور کمزور لوگوں کے دفاع کیلئے ہونی چاہئے۔
معاشروں کی تعمیر میں پڑھا لکھا طبقہ ہی اپنا اہم کردار ادا کرتے ہوئے
معاشروں کی برائیوں کو دور کیا کرتا ہے ۔ یہی وہ طبقہ ہے جو معاشرے میں
استحصالی نظام کے خاتمے میں اہم کردار کرکے معاشرے کو بلندیوں پر لیجاتا ہے
مگر افسوس اس طبقے نے دولت کے حصول کو اپنا مقصد بنا کر انسانی روایات کا
کچومر نکال دیا ہے۔ اگر ہم تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھیں تو یہ بات
سامنے آتی ہے کہ پرانے زمانے میں جب تعلیم عام نہیں تھی تو لوگوں کو ارضی و
سماوی آفات سے خطرات لاحق تھے مگر موجودہ دور میں ہمیں ان خطرات کے علاوہ
غیر معمولی تعلیم یافتہ طبقے سے ہیں جو انتہائی چابک دستی سے معاشی،
اقتصادی اور ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر معاشرے کے عام لوگوں کو لوٹنے کے درپے
ہیں کیونکہ ہم اپنی نئی نسل کو اخلاقی اقدار سے لیس نہیں کر رہے، انمیں
احساس اور غیرت ملی کا جذبہ نا پید ہو چکا ہے اور وہ قوم اور ملک کی لوٹ
مار میں مصروف ہو کر کروڑوں اور اربوں کمانے کے چکروں میں ہیں۔ ہمیں تعلیم
کے میدان میں ترقی کرنے کیلئے نہ صرف انہیں ٹیکنالوجی سے ہمکنار کرنا ہے
بلکہ ان پر خصوصی توجہ دیکر انہیں معاشرے کا مثالی کردار بھی بنانا ہے اور
یہی تعلیم کا صحیح مفہوم ہے۔ہمیں اپنی نئی نسل کو پیسہ کمانے کی مشین بنانے
کی بجائے انکی ذہنی نشو و نما میں اہم کردار ادا کرنا چاہئے، انہیں معاشرے
کا تنو مند اور اچھا شہری بنانے کیلئے کوششیں کرنا ہیں، ہمیں انکے روشن
پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے انہیں اپنے معاشرے کا با کردار اور با صلاحیت
حصہ بنانا ہے، ہمیں انمیں حب الوطنی اور قومی جذے کو ابھارتے ہوئے احساس
ذمہ داری پیدا کرنا ہے۔ انہیں عقلی اور تحقیقی طور پر تیار کرکے اپنے
معاشرے میں امن ، سلامتی، انصاف اور قانون کی عملداری قائم کرنی ہے۔ اسمیں
جہاں ایک طالب علم اپنا کردار ادا کر رہا ہوتا ہے وہیں ایک معلم کا بھی فرض
بنتا ہے کہ وہ اپنا مثالی کردار ادا کرتے ہوئے انمیں احساس ذمہ داری پیدا
کرے، اخلاق کا اعلیٰ نمونہ بنائے ، انہیں با کردار اور با صلاحیت بنا کر
معاشرے کو خوشحالی اور ترقی کی جانب گامزن کرے کہ یہی اایک معلم کی ذمہ
داری ہے۔ |
|