یکم جون 2009ء کو اپنی پہلی کمرشل پرواز
دبئی سے بیروت بھرنے والی ائیر لائن فلائی دبئی نے اپنی عوائل عمری میں ہی
صرف چھے سال کے مختصر عرصے اس سال2015 کا سالانہ منافع 27.4 ملین ڈالر حاصل
کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اور یہ منافع پچھلے سال کے مقابلے میں گیارہ پرسنٹ
زیادہ بھی ہے۔ اور اس سال فلائی دبئی نے پندرہ نئے انٹر نیشنل مقامات سے
اڑانیں بھرنا شروع کر دی ہیں۔ جبکہ اس نو آموز اور ناتجربہ کار انتظامیہ نے
پچھلے مختصر عرصے 50 اور اس سال سات جہازوں کا اپنے بیڑے میں اضافہ کیا ہے۔
جبکہ حقیقی باکمال لوگوں کی ہاتھوں شروع ہونے والی یہ لاجواب سروس اب کے اس
جدید دور میں خود تو '' خجل'' ہوہی رہی ہے۔ اپنے تخلیق کاروں کے مقصد اور
تخیل کو بھی خجل کر ہی رہی ہے اور اس کے ساتھ بھوک، افلاک، مہنگ بھائی ،
بجلی ،گیس ، اور روز مرہ کی پریشانیوں سے خجل شدہ عوا م کی تخجیل کو یہ
لاجواب طریقے سے چار چاند بھی لگا رہی ہے۔اور جو بھی کسی گزشتہ کیے ہوئے
گناہ کی پاداش میں اس پرایک بار سوار ہوتا ہے پھر سے تو وہ اپنے اس منتخب
گناہ سے توبہ النصوحہ کرکے دوبارہ اس کے قریب سے گزرکر ہونے والے گناہ سے
بھی بارہا توبہ کرتاہے۔کیونکہ یہ '' با خوار لوگ اور یہ باخوار سروس'' بندے
کی سروس ہی کچھ اس انداز میں کرتی ہیں کہ دوبارہ اس مقدس سعادت سے محرومی
کو ہی سعادت جانتا ہے۔
قیام پاکستان سے بھی قبل 1946ء میں قائدِ اعظم محمد علی جناح کے کہنے پر
اورینٹ ائیر ویز کے نام سے بننے والی اس ائیر لائن کو 10 جنوری 1955 کو
پاکستان کے جھنڈے کے ساتھ اڑان بھرنے کا کہا گیا اور اسے پاکستان انٹرنیشنل
ائیر لائن کا نام دیا گیا۔
اس باکمال لوگ لاجواب سروس نے اوائل عمری میں تو بڑی بڑی داستانیں رقم کر
رکھی ہیں اور بڑے عمدہ ریکارڈز اپنے نام کر رکھے ہیں اور اس دور کی ایشیا
ریجن کی تمام تر بڑی ائیر لائنوں کو کھڑا کرنے میں اپنا عملی کردار ادا کر
رکھا ہے ایمرٹس ائیر لائن، ملائشیا ائیر لائنز اور سعودی ائیر لائن کو
انتظامی ،فنی اور تکنیکی مدد فراہم کی۔اور اس دور کے بہترین طیارے بوئنگ
737 ، بوئنگ 707، بوئنگ 747 اور ائیر بس 321 جیسے جہاز اسے کے بیڑے کا حصہ
تھے۔ماضی کی اس کامیاب ترین تجربہ کار ائیر لائن کو عہدِ حاضر کے چند ستم
ظریفوں نے کس مہارت اور چابک دستی سے عہد کے اس بے باک شناور کو خطِ ہستی
سے منہدم کر دیا ہے۔
انہیں ٹھہرے سمندر نے ڈبویا
جنہیں طوفان کا اندازہ بہت تھا
اور آج لاجواب سروس کاحال یہ ہے ڈکٹیٹر مشرف دور کے بعد آنے والی حکومتوں
میں میں اس نے اپنی فنی و انتظامی مہارت کی لاجواب داستانیں رقم کی ہیں ،
کہ پوری دنیا میں میں اس وقت سالانہ 3.3 بلین لوگ سالانہ فضائی سفر اختیار
کرتے ہیں،اور ائیر ٹرانسپورٹ کے مسافروں میں سالانہ 4.1 فیصد کی اوسط
سیاضافہ بھی ہو رہا ہے اورلیکن موصوف'' لاجواب سروس'' کے ساتھ سفر کرنے
والے مسافروں کی تعداد اس سیدگنی رفتار میں کم ہورہی ہیں۔2007ء اور 2008ء
میں پاکستان سے انٹرنیشل فضائی سفر اختیار کرنے والے 45 فیصد اور 47 فیصد
مسافروں کا انتخاب پی،آئی، اے ہوتی تھی جو اب لائق ترین حکومتی محنتوں ،
کاوشوں ، ترتیبوں اور قابل ترین ، اور تجربہ کار عملے کے 19000 ہزار افراد
کی ان تھک محنت اور مسلسل لگن کی وجہ سے کم ہو کر 28 فیصد رہ گئی ہے۔ انٹر
نیشنل ائیر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن کے مطابق سالانہ پاکستان میں 70 لاکھ لوگ
بین الاقوامی فضائی سفر اختیار کرتے ہیں اور ان ستر لاکھ میں سے بیس لاکھ
سے بھی کم افراد کا انتخاب پی۔آئی۔ اے۔ ہوتاہے اور یہ تعداد بتدریج کم ہو
رہی ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے غلطی سے بھی پی آئی اے کا انتخاب کرنے والے
والے مسافروں کو اس مستقل مزاجی اور متواتر اسلوب کے ساتھ خوار کیا جاتا ہے
کہ وہ دوبارہ لمبے عرصے تک نہ توخود اس لاجواب سروس کا انتخاب کرنے کی جرات
کرتا ہے اور نہ ہی اپنے متعلقہ احباب کو کبھی ایسی جرات کرنے دیتا ہے۔
پاکستان سے بین الاقوامی سفر کرنے والے مسافروں کی بڑی تعداد اب دیگر ائیر
لائنوں ایمرٹس، فلائی دبئی ، سعودی ائیر لائن اور دیگر کا انتخاب کرتی ہے۔
ہانگ کانگ کی سرکاری فضائی کمپنی کیتھے پیسیفک جس نے پاکستان سے کے تمام
ائیر پورٹس سے اپنی پروازیں ایک لمبے عرصے سے بند کر رکھی ہیں۔ 2013-14 میں
اپنے ایک روٹ کو خسارے سے بچانے کے لیے انہوں نے پاکستان سے ٹرانزٹ روٹ
لینا شروع کیا تو انہیں بھی 72000سالانہ کے قریب مسافرلینے کا موقع فراہم
کیا ہے اور اس کے خسارے والے روٹ کو بھرپور منافع سے نوازا گیا ہے۔
دوسری طرف جمہوریت کے لمبے لمبے راگ الاپنے والے بھی اسی تماشے میں اپنا
حصہ ڈالنے میں بالکل شانہ بشانہ موجود ہیں۔اور اپنی اپنی بساط کے مطابق اس
بیڑے کو ڈبونے میں اپنا حق ادا کر رہے ہیں۔ اورہر سال فاقوں سے ہاری ہوئی
قوم کی جیبوں پر ڈاکے ڈال کر لوٹا ہوا سالانہ اربوں روپیہ اس بیڑے کے اٹھتے
ہوئے الاؤ میں جھونک کر سینک رہے ہیں۔ ایسے لگ رہا ہے کہ گزشتہ اور موجودہ
تما م حکومتوں اور اپوزیشنوں کے پاس پی آئی اے کے حوالے سے ایک ہی مخصوص
سکرپٹ لکھ کر دیا گیا ہے۔ اس سکرپٹ کی ''فلاں'' لائن کو حکومت نے الاپنا ہے
اور''فلاں'' لائن کا بگل اپوزیشن نے بجانا ہے۔ ہر دور کی حکومت ہمیں پی آئی
اے کی نجکاری کرتی دکھائی دیتی ہے اور عمران خان سمیت گزشتہ اپوزیشن دور
میں نواز شریف بھی پی آئی اے کی نجکاری کے خلاف اپنا بگل بجاتے دکھائی دیتے
تھے۔
پی آئی اے کے بیڑے کو ڈبونے میں اس کے نا خدا بھی اپنا بھر پور حصہ ڈالنے
میں کوئی کسر نہیں اٹھاتے۔ اور وہ بھی اس قومی فریضے میں پیش پیش ہیں۔ اور
یہ عملے کے 19000 لوگ جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی میں چھید کرتے ہیں۔ حالیہ
حکومت اور ہڑتالی ایسوسی ایشنوں کی لڑائی کی وجہ سے ایک ہفتے کی بندش میں
اس قومی ادارے کا قریب ڈھائی ارب کا مالی خسارہ بھی غریب ٹیکس پئیرز کی
جیبوں نے برداشت کیاہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مسافروں کی خواری اور عالمی سطح پر
جگ ہنسائی بھی بھر پور طریقے سے پاکستانی قوم کے حصے میں آئی ہے۔اور پھر اس
پر نور علی نور یہ کہ دو طرفہ گیدڑ بھبھکیوں کے ساتھ ہڑتال بغیر کسی ٹھوس
نتیجے اور فیصلے کے موخر بھی کر دی گئی ہے جب پھر کہیں زیادہ ٹکٹیں بک گئیں
اور طرفین میں دوبارہ سے تماشے کا شوق مچلا تو ایک بار پھر یہی پتلی تماشہ
سرِ بازار دوبارہ سے لگایا جائے گا۔ رہی سہی کسر بھی نکالی جائے گی۔ |