ہم کس قدر غافل ٗ لاپروا ہیں کہ حادثات پر
حادثات ہو رہے ہیں انسان اذیت ناک موت مررہے ہیں ٗ حکمران (زندہ لوگوں کو
تو پوچھتے بھی نہیں) مرنے والوں کو پانچ پانچ لاکھ روپے کے چیک دینے کے لیے
بے تاب رہتے ہیں ۔حادثات کیسے رونما ہوتے اور کیاکیا عوامل ایسے حادثات کے
محرکات بنتے ہیں اس کی جانب کوئی بھی دھیان دینے کو تیار نہیں ہے ۔خبر ایک
دن اخبار میں شائع ہوتی ہے تو دوسرے دن انتظامی ادارے حکمران اور عوام بھول
کر اپنے معمولات میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔جہاں حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ
ایسے عوامل اور عناصر کی روک تھام کرے جو ایسے حادثات کا باعث بنتے ہیں
وہاں عوام کو خود اپنی جان و مال کا بھی خیال رہنا چاہیئے۔ مشاہدے میں یہ
بات آئی ہے کہ کچھ لوگ بہادری اور مردانگی کااظہار کرتے ہوئے پٹرول پمپوں
اور کیمیکل کی موجودگی میں بھی لمبے لمبے کشا لگا کر سگریٹ پیتے دکھائی
دیتے ہیں ۔ کچھ ایسے افراد بھی ہمیں اپنے اردگرد دکھائی دیتے ہیں جو سلگتا
ہوا سگریٹ پٹرول سے بھری گاڑیوں ٗ رکشوں اورموٹرسائیکلوں کے درمیان پھینکنے
سے بھی باز نہیں آتے ۔کئی سگریٹ نوشوں کو تو میں نے خود بائیک چلاتے ہوئے
اس حالت میں سگریٹ پیتے دیکھاہے کہ ان کے سگریٹ سے چنگاریاں اڑ اڑ کر پیچھے
آنے والی ٹریفک پر گر رہی ہوتی ہیں ۔ ایک عام شخص بھی یہ جانتا ہے کہ پٹرول
دور سے آگ پکڑ لیتا ہے اور اگر خدانخواستہ آگ لگ جائے تواس کومیلوں دور تک
پھیلنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی ۔ سابق وفاقی وزیر قادر بخش میلہ کے بارے
میں بہت سال پہلے اخبار میں خبر شائع ہوئی تھی کہ وہ پجارو میں بیٹھ کر فصل
کٹائی کی نگرانی کر رہے تھے ۔ انہوں نے بے دھیانی سے جلتا ہوا سگریٹ جیسے
ہی پجارو سے باہر پھینکا تو اس نے یکدم آگ پکڑ لی اور چند لمحوں میں ہی آگ
نے اس پجارو کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا جس میں قادر بخش میلہ موجود تھے ۔گویا
جلتی ہوئی آگ میں انہیں بچانے کے لیے کوئی آگے نہ بڑھ سکا اور وہ سب کے
سامنے تڑپ تڑپ کر زندہ جل گئے ۔ ایک اور واقعہ جھنگ کے علاقے میں اس وقت
پیش آیا جب اچانک ایک آئل ٹینکر لیک کرنے لگا ۔ لیک کرتے ہوئے ٹینکر کو
دیکھ کر محلے کے چھوٹے بڑے لوگ دوڑ پڑے اور مٹی کے تیل سے بالٹیاں اور برتن
بھر بھر کے اپنے گھروں میں پہنچ گئے وہ خوش تھے کہ اتنا مہنگا مٹی کا تیل
انہیں مفت ہاتھ آگیا ہے لیکن انہیں یہ خبر نہیں تھی کہ مٹی کا یہی تیل ان
کی موت کا پیغام لے کر ان کے گھروں تک پہنچ گیا ہے ۔ اسی ٹینکر کے نزدیک
نوجوان سگریٹ پی رہا تھا اس نے بے دھیانی میں وہ جلتا ہوا سگریٹ جیسے ہی
زمین پر پھینکا تو زمین پر پھیلے ہوئے تیل نے آگ پکڑ لی ۔پہلے یہ آگ اس آئل
ٹینکرز تک پہنچی پھر اردگرد کھڑے ہوئے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے کر ان
تمام گھروں تک جا پہنچی جہاں جہاں مٹی کا تیل بالٹیاں بھر کے لے جایاگیا
تھا اور راستے میں گرتے ہوئے تیل کے قطرے ایک لکیر کی مانند زمین پر موجود
تھے ۔جانی ومالی نقصان کے علاوہ بے شمار گھر اور خاندان راکھ کا ڈھیر بن
گئے ۔چند دنوں تک لوگ اس واقعے کو بطور تشویش دیکھتے رہے پھر ایسے بھولے کہ
دوبارہ کسی کو یاد ہی نہ رہا ۔اب شاید ہی کوئی بس سٹینڈ ٗ رکشا سٹینڈ اور
موٹرسائیکل سٹینڈ ایسا ہوگا جہاں سگریٹ نوش اپنے شوق کو پورا کرنے میں
مصروف عمل نہ دکھائی دیتے ہوں ۔کئی شوقین تو بستر میں لیٹ کر سگریٹ پینے کا
شوق پورا کرتے ہیں لیکن وہی سگریٹ ان کے اپنے سمیت پورے گھرکو جلا کے راکھ
کا ڈھیر بنا دیتا ہے ۔گجرات کے علاقے میں بچوں کوسکول لے جانے والی ویگن
میں گھٹیا قسم کے سلنڈر جو تباہی مچائی تھی اوراس سانحے میں ایک درجن بچے
زندہ جل گئے تھے ۔چند دن کی پکڑ دھکڑ کے بعد اسی طرح ویگنوں اور رکشوں میں
گھٹیا سلنڈر نصب ہیں اور لوگ ان ویگنوں رکشوں پر بہت خوشی اور اطمینان کے
ساتھ سفر بھی کرتے ہیں ۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ یہ چلتے پھرتے بم کسی بھی
وقت پھٹ سکتے ہیں لیکن انتظامیہ مرنے والوں کو چیک دینے کے لیے تو مستعد
دکھائی دیتی ہے لیکن زندہ لوگوں کی نگہداشت کے فریضے سے خود کو سبکدوش تصور
کرتی ہے ۔ ہر ضلع میں نہ جانے کتنے ڈی سی او ٗ ڈی پی او اور آر پی او جیسے
افسر اور ملازمین موجود ہیں لیکن ان کے سامنے سرے عام کیمیکل اور کھلا
پٹرول دکانوں پر فروخت ہورہا ہے کبھی غیر میعاری سلنڈر سے آراستہ ویگنیں
اور رکشے بھی سرے عام دندناتے پھرتے ہیں ۔لیکن کسی انتظامی افسر کو یہ سب
کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔ ایسا ہی ایک سانحہ گڑھی شاہو میں بھی رونما ہوا تھا
۔ایک کھلا ٹرک المونیا گیس کے سلنڈر لے کر جارہا تھا گڑھی شاہو ریلوے
کراسنگ پر سلنڈروں سے گیس لیک ہونے لگی جس نے آٹھ دس مربع میل علاقے کو
اپنے گھیرے میں لے لیا ۔ہر شخص اپنے اپنے گھر میں بیٹھا ہوا ہوش کھو بیٹھا۔
گھروں میں پڑی اشیائے خوردونوش اور پانی زہر آلود ہونے کے ساتھ مویشی بھی
بے جان ہوکر زمین بوس ہوچکے تھے اس لمحے کسی کوکچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ
آخر ہواکیا ہے ۔ انارکلی اور ایل ڈی اے کی پانچویں منزل پر لگنے والی آگ
میں کتنے انسان زندہ جلے شاید ان کی تعداد بھی ہم بھول چکے ہیں لیکن ایل ڈی
اے آج بھی بربادی کا مثال نظر آتا ہے ۔اب ننکانہ کے نواحی گاؤں میں آئل
ٹینکرز سے ٹکر کے نتیجے میں 18 افراد زندہ جل گئے جبکہ املاک کے نقصان کے
علاوہ درجنوں افراد ہسپتالوں میں کراہ رہے ہیں ۔ انتظامیہ نے مرنے والوں کے
لواحقین کو چیک دیتے ہوئے تصویریں تو بنواکر اخبارات میں چھپوا بھی لی ہیں
لیکن اصلاح احوال کی جانب کسی کی توجہ نہیں۔ اگر پولیس اور ایمبولنس پر
گاڑیوں پر ہوٹر اور جلنے بجھنے والی لائٹس لگائی جاسکتی ہیں تو آئل ٹینکروں
پر کیوں نہیں تاکہ ایسے خطرناک ٹینکروں کے قریب آنے سے لوگوں اور ٹریفک
روکا جاسکے ۔ |