چھوٹی سی دُنیا - پہلی قسط

پہلی قسط - “چھوٹی آنکھ"

- "اِس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا"

آنکھ ایک کمال چیز ہے۔ دنیا جہان سے روشنی اکٹھی کر کے دماغ کے سامنے رنگا رنگ مناظر پیش کرتی ہے۔ پر ایک لحاظ سے یہ بہت "سادہ طبیعت" بھی ہے:

یہ سمجھتی ہے کہ روشنی ہمیشہ ایک سیدھی لکیر میں چلتی ہے

(جو کرن جس طرف چل پڑی ویسے ہی ناک کی سیدھ میں چلتی رہے گی؛ بَل نہیں کھائے گی، مُڑے گی نہیں، جُھکے گی نہیں)۔

مثلاََ جب ہم اپنے سامنے پڑی شمع کو دیکھتے ہیں تو آنکھ یہی طے کرتی ہے کہ شمع کے شعلے سے چلنے والی کرنیں سیدھی لکیروں میں سفر کرتی ہوئی اِس تک پہنچی ہیں، چنانچہ یہ شمع کو ہمارے سامنے بتاتی ہے۔ یہ ایسا ہرگز نہیں "سوچتی" کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ شمع جہاں نظر آ رہی ہے وہاں سے قدرے دائیں یا بائیں پڑی ہے اور شعلے سے چلنے والی روشنی سیدھی لکیر میں اِس تک پہنچنے کی بجائے قوس کی شکل میں (یا کسی اور ٹیڑھے میڑھے راستے سے) اِس تک آ رہی ہے؟ آنکھ اِس مسئلے میں نہیں پڑتی۔ اِس کے لئے روشنی ایسے ٹیڑھے میڑھے راستے اختیار نہیں کرتی۔

- "توڑ کر آئینے نظر آیا // چار سُو اِک خلا ہے، اور میں ہوں!"

اب آنکھ کے اِس مفروضے (اور سادگی!) سے بہت سے دلچسپ نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ مثلاََ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ آپ کے سامنے والی دیوار میں آپ سمیت آپ کا پورا کمرہ "گھُس" کر بیٹھ جائے؟ بظاہر ناممکن سی بات ہے، مگر آپ کی آنکھ آپ کو بالکل ایسا ہی کچھ دکھائے گی اگر دیوار پر ایک بڑا آئینہ لگا دیا جائے۔ آئینہ خود پر پڑنے والی کرنوں کی سمت بدل دیتا ہے۔ آنکھ سمجھتی ہے کہ یہ کرنیں سامنے سے سیدھی لکیروں میں چلتی ہوئی آ رہی ہیں چنانچہ جن اشیاء سے یہ آ رہی ہیں وہ سامنے ہی ہونگی (یعنی سامنے آئینہ/دیوار نہیں ہیں بلکہ کُھلی جگہ ہے جہاں سے سیدھی روشنی آ رہی ہے)۔ کہ جو نظر آ رہا ہے وہ دراصل "عکس" ہے، اِس کا فیصلہ آنکھ دماغ پر چھوڑ دیتی ہے (جو "تجربے" سے سمجھ جاتا ہے کہ جو نظر آ رہا ہے وہ اصل میں وہاں نہیں، بلکہ عکس ہے)۔ ایک دلچسپ فلسفیانہ سوال تو اِس سے یہ اٹھتا ہے کہ اگر ایسے آئینے ہوں جن کا دماغ کو کبھی ادراک نہ ہو سکے تو کیا ہمیں معلوم ہو سکے گا کہ جو نظر آ رہا ہے وہ وہیں ہے؟ مگر اِس سوال کو یہیں چھوڑتے ہوئے ہم آتے ہیں قسط کے اصل موضوع کی طرف۔

- "عدسوں کی دال"

اوپر آئینے اور عکس کی مثال تو ایک سادہ سی جانی پہچانی شرارت ہے جو آنکھ کے ساتھ ہوتی رہتی ہے۔ پر معاملہ سادہ عکس تک محدود نہیں ہے، بلکہ مناسب شکل کے آئینے اور "عدسے"/ Lenses روشنی کے ساتھ ایسی اٹکھیلیاں بھی کر سکتے ہیں کہ آنکھ کو دِکھنے والے "عکس" اصل شے کے مقابلے میں بہت بڑے یا بہت چھوٹے ہوں ("عدسہ": دال کو عربی میں "عدس" کہتے ہیں اور انگریزی میں Lentil۔ دال کے پودے کو انگریزی میں Lens کہتے ہیں۔ عدسوں کی شکل عموماََ دال کے دانے جیسی ہوتی ہے۔ اِس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ عدسوں کی دال کی فرمائش کر دیں) ۔ آئینوں اور عدسوں کی مختلف شکلوں سے عکس کی پوزیشن اور سائز کو کیسے بدلا جا سکتا ہے، اِس کے بہت سے اہم فارمولے تو راجر بَیکن نے تیرہویں صدی عیسوی میں لکھ دئے تھے (جن تک پہنچنے کے لئے ابن الہیثم اور ابنِ سہل کے فارمولے اُس کے کام آئے) ۔ پر عدسے بنانے میں مہارت حاصل کرنے میں انسان کو مزید تین صدیاں لگ گئیں، اور سولہویں صدی عیسوی کے اواخر میں مختلف عدسہ سازوں اور سائنسدانوں نے ایسے عدسے اور اُن پر مبنی نظام بنائے جو چھوٹی اشیاء کے عکس کو اصل سے لگ بھگ تِیس گنا بڑا دکھا سکتے تھے۔ اِن میں مشہورِ زمانہ گلِیلیو بھی شامل تھا۔ گلیلیو کی اصل دلچسپی تو اجرامِ فلکی اور کششِ ثقل میں تھی اور وہ دُوربین/ Telescope کے لئے زیادہ جانا جاتا ہے، پر وہ اُن اولین لوگوں میں شامل ہے جنہوں نے عدسوں پر مبنی چیزوں کو بڑا دکھانے کے نظام بنائے۔ اپنے ایسے ایک نظام کو گلیلو نے Occhiolino ("چھوٹی آنکھ") کا نام دیا۔ پر گلیلیو کے ایک دوست نے اُسے اِسکا نام بدل کر Microscope ("باریک بین"، خورد بین) کرنے کا مشورہ دیا جسے گلیلیو نے قبول کر لیا، اور اب یہی نام دنیا میں جانا پہچانا جاتا ہے۔
Ibnay Muneeb
About the Author: Ibnay Muneeb Read More Articles by Ibnay Muneeb: 54 Articles with 63913 views https://www.facebook.com/Ibnay.Muneeb.. View More