میر جعفر اور میر صادق کے جانشین

میں اپنے نئے کاروبار کی تشہیر میں مگن اور اپنی سوچوں کو آپس میں گھما گھما کر اچھے سے اچھا آئیڈیا زدماغ سے حا صل کرنے میں مصروف ہی تھا ، کہ ایک آدمی نے میری ان تمام سوچوں اور نئے کا روبار کے منصوبے کا ستیا ناس کر ڈالا۔ان صا حب کا نام اعجاز ہے ،یہ صاحب بلد یاتی الیکشن میں امیدوار بننے کے خواہش مند تھے مگر عمر کم ہونے کی وجہ سے جناب اس اعلیٰ فیض سے فیض یاب نہ ہوسکے اور محترم جناب اعجاز صا حب کے دل کہ ارمان آنسوؤں میں بہہ گئے۔ آخری دن کاغذات جمع کروانے کا اور آخری دو گھنٹے ہی رہتے تھے کہ محترم اعجاز صاحب نے اپنی دلی خواہش کو کسی حد تک حا صل کرنے کے لیے مجھے بلی کا بکرا بنانے کا ٹھان لیا اور مجھے کال کر کے اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا ،اور کہا کہ آپ الیکشن لڑے ۔یہ الفاظ سنتے ہی میں نے اپنا موبائل آف کیا اور پھر اپنے معصوم دماغ سے آئیڈیاز نکالنا شروع کیا مگر ہائے رے صد افسوس ماری قسمت ہماری کہ یہ صاحب پانچ منٹ میں میرے سامنے آ گئے۔میرے انکار کے فورا بعد جناب نے میرے بڑے ماموں جان اشفاق احمد بھولا سے میری بات کروا دی اور مجھے ماموں جان کی طرف سے حکم ملا کے ابھی جاؤ اور اپنے بلدیاتی الیکشن کے لیے کاغذات جمع کروا کر آؤ،ابھی کال بند ہی ہوئی تھی کہ ایک اور کال میرے موبائل پر ا ٓ گئی ،یہ کال شوکت قریشی جو کے سابقہ دو دفعہ بلدیاتی کابینہ کے ممبر بھی رہ چکے تھے اورمیرے سماجی استاد بھی تھے ان کی تھی ۔کال رسیو کرتے ہی آگے سے آواز موصول ہوئی کہ جلدی الیکشن کمیشن اپنے تمام کا غذات لے کر آؤ۔ راقم اپنے بزرگوں کے حکم کی تکمیل کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آفس پہنچے اور اپنے کاغذات جمع کروائے۔راقم جس علاقہ میں رہائش پذیر ہے یہاں عرصہ پندرہ سال سے محترم جناب رمضان مستانہ صاحب جو کہ دس سال کے عرصہ تک ناظم کاہنہ کے عہدے پر فائز رہے اورباقی پانچ سال یہ صاحب ایم پی اے 159پی پی کے مزے اٹھاتے رہے ہے۔یاد رہے کہ پی پی 159کے ایم پی اے پیارے پاکستان کی پیاری شخصیت میاں شہباز شریف صاحب مگر میاں صاحب نے کبھی اپنے حلقے میں آنے کی زحمت نہیں کی ۔لہذا رمضان مستانہ صا حب ہی ان کے اموار سر انجام دیتے رہے ہے۔ اورآگے بھی اقتدار کے خواہش مند تھے مگر موجودہ بلدیاتی الیکشن میں تو سب کچھ ان صا حب کی خواہش کے الٹ ہو گیا ۔کیونکہ اب کی بار ان کے مخا لف امیدوار گروپ باکردار، با آواز ،ہمدرد شخصیت کے مالک انسان تھے میری مراد موجودہ چئیرمین حاجی بشارت علی وائس چئیرمیں ارشد رضا ایڈوکیٹ ، اوران کے گروپ ممبران سے ہے ۔ اس گروپ کے چار ممبران کونسلر ز بھی ہو ئے ا ور دو جگہ پراس کے ممبران ہار گئے ،ہارنے کی سب سے بڑی وجہ وہاں پرمیر جعفر اور میر طا رق کا کردار تھا۔

تاریخ بتاتی ہے کہ میر جعفر اور میر صادق دو ایسے غدار تھے جنہوں نے جنگ آزادی میں اپنوں کو چھوڑ کر انگریز کا ساتھ دیا تھا۔ میر جعفر نواب سراج الدولہ کی فوج میں ایک سردار تھا۔ اْس کی بدفطرتی کا یہ عالم تھا کہ نواب سراج الدولہ سے غداری کرکے ان کی شکست اور انگریزوں کی جیت کا راستہ ہموار کیا جس کے بعد بنگال پر انگریزوں کا عملاً قبضہ ہو گیا جبکہ میر صادق متحدہ ہندوستان میں ٹیپو سلطان کے دربار میں وزیر کے عہدے پر فائز تھا۔ اس کے بارے میں مصدقہ اطلاعات ہیں کہ چوتھی انگلو میسور جنگ میں انہوں نے ٹیپو سلطان سے غداری کی اور سلطنت برطانیہ کا ساتھ دیا، جس کی وجہ سے میسور میں اس جنگ کے دوران ٹیپو سلطان کو شکست ہوئی اور وہ شہید کر دیئے گئے۔ میر جعفر اور میر صادق کا کردار تاریخ میں سیاہ حروف سے لکھا جا چکا ہے۔ یہ دونوں غدار خود تو دنیا میں نہیں رہے لیکن اپنے پیچھے کئی ایسے جانشین چھوڑ چکے ہیں جو نہ صرف اْن کے نقش ِ قدم پر چل رہے ہیں بلکہ اْن کے کردار کی بدولت دونوں غداروں کا نام بھی زبان زدِعام ہے۔آج مملکت خداداد پاکستان بھی میر جعفر اور میر صادق کے جانشینوں کے نرغے میں ہے۔ آج کل کے حالات دیکھ کر تو لگتا ہے کہ پاکستان میں میر جعفر اور میر صادق زیادہ ہیں جبکہ ٹیپو کم رہ گئے ہیں۔ ٹیپو سلطان سچے مسلمان، عظیم سپاہی اور ہفت زبان تھے۔ وہ ہر وقت باوضو رہتے، نماز فجر کے بعد بلاناغہ قرآن کی تلاوت کرتے، مکروہات اور فہمیات سے مکمل اجتناب کرتے، اپنے شاہی فرمان کی پیشانی پر اپنے ہاتھ سے ’’بسم اﷲ’’ لکھتے۔ وہ خود تو ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی صد سالہ زندگی سے بہتر ہے’’ کہہ کر وطن پر نثار ہو گیا جبکہ اْن سے غداری کرنے والا میر صادق آج بھی نفرت کی علامت بنا ہوا ہے۔ اس وقت جہاں ہماری پارلیمنٹ میں میر صادق اور میر جعفر موجود ہیں وہیں صحافت، عدلیہ، فوج اور دیگر اداروں میں بھی ان کی کمی نہیں ہے۔سیاست اور صحافت کا تعلق سماجی خدمت سے ہے لیکن بدقسمتی سے یہ دونوں ادارے میر جعفر اور میر صادق کے جانشینوں کی بدولت بدنام ہو چکے ہیں۔اسی طرح عدلیہ، فوج اور دیگر اداروں میں بھی میر جعفر اور میر صادق کے جانشینوں کی موجودگی نہ صرف ملک کی بدنامی کا باعث بن رہی ہے بلکہ ان لوگوں کے بے نقاب نہ ہونے کی بدولت ملک کا مستقبل بھی داؤ پر لگ سکتا ہے۔میر جعفر اور میر صادق کے کئی جانشین سیاست دانوں کا تو یہ عالم ہے کہ عوامی خدمت کو پس پشت ڈال کر ملکی سلامتی کی ضامن افواجِ پاکستان اور خفیہ اداروں کے خلاف زہر اْگل کر ملک کو دولخت کرنے کے درپے ہیں۔ ان کی ’’حب الوطنی’’ ایسی ہے کہ پاکستان کا پانی پینا بھی پسند نہیں کرتے بلکہ منرل واٹر کی بوتلیں بھی یورپ سے آتی ہیں۔ کسی غریب سے ہاتھ ملا لیں تو فوراً جیب میں ہاتھ ڈال کر اینٹی بیکٹریل ٹشو پیپر سے ہاتھ صاف کرتے ہیں۔موجودہ بلدیاتی الیکشن نے تاریخ کے پرانے زخموں کو تازہ کر دیا اور میر جعفر و میر صادق کا کردار پھر ایک دفعہ عوام کے سامنے آ گئے۔نوجوا ن علی عباد عوام کی سوچ تبدیل کرنے کا عزم لئے ہوئے فی سبیل اﷲ ووٹ مانگنے والا نامور ڈبیٹر علی عباد چوھدر ی ا ٓزاد امیدوارضمیر فروشوں کے سامنے عوام کی نمائندگی سے محروم رہ گیا ایسے بہت سے نو جوان جنہوں نے برادریوں کے مقابلے میں تعلیم کا مقابلہ کیا جو الیکشن تو ہار گئے مگر ان نوجوانوں نے عوام کے دل جیت لئے۔
ملیں اس لئے ریشم کے ڈھیر بُنتی ہیں
کہ دختران وطن تاڑ تاڑ تو ترسیں
مالی نے باغ کو سینچا تھا اپنے لہو سے اسئلے
کہ اس کی اپنی نگاہئیں بہار کو ترسیں ؟
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گری ہوئی ہے طوائف تماش بنیوں میں
Sajjad Ali Shakir
About the Author: Sajjad Ali Shakir Read More Articles by Sajjad Ali Shakir: 133 Articles with 143538 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.