مہذب اور غیر مہذب اقوام میں فرق
(Muhammad Shafiq Ahmed Khan, Kot Addu)
(ایک مزاحیہ تحریر) |
|
ایک سروے کے مطابق دنیا کی مہذب ترین قوم
میں جنوبی کوریا سرِ فہرست ہے۔ جبکہ بد تمیز ترین یا جاہل اقوام میں
میکسیکو پہلے، برازیل دوسرے اور انڈیا تیسرے نمبر پر ہے۔ صد شکر کہ اس لسٹ
میں کہیں بھی پاکستان کا نام شامل نہیں۔حالآنکہ اس ناچیز کے کافی عرصہ مڈل
ایسٹ اور دیگر ممالک میں کام کرنے کا تجربہ یہ کہتا ہے کہ وہاں پاکستانیوں
کو انتہائی بد تمیز، خربان، جاہل ، گنوار اور پتہ نہیں کیا کیا سمجھا جاتا
ہے اور بہت ہی ہتک آمیز سلوک کیا جاتا ہے۔
بہرحال۔ ہم نے بہت سوچاکہ اس معاملے کی تہہ تک پہنچا جائے کہ آخر یہ سروے
ہو اکیسے؟ سوچا کہ اس معاملے کو ٹالنے کے لیے کوئی کمیٹی بنا دی جائے،
کیونکہ ہمارے ہاں جب بھی کوئی معاملہ ٹالنا ہو تو ایسے ہی کمیٹیاں بنا دی
جاتی ہیں، پھر سوچا کہ جس طرح محترم سلیم صافی صاحب اقتصادی راہداری منصوبے
کو ناکام بنانے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں، میں بھی دن رات اس کام کے
پیچھے لگ جاؤں اور کھوجوں کہ یہ سروے کرنے کا ایس او پی یعنی طریقہ کار آخر
تھا کیا؟ پر دماغ پر دس کلو بوجھ دینے کے باوجود، بڑھاپے کے بڑھتے آثاروں
نے یہ کام نا ممکن بنادیا۔ تاہم پھر یکا یک ایک خیال آیا کہ یہ پراجیکٹ ہم
اپنے انتہائی ذہین فطین انسان للو میاں کی نذر کرتے ہیں کہ وہ اس پر تحقیق
کریں ۔ بس پھر کیا تھا ، انکے ذمے کام لگاتے ہی موصوف اگلے ہی روز اس موضوع
پر ڈھیر سارا مواد لیکر بغیر ٹائم لیے، ہمارا قیلولہ ٹائم اور دیگر تما
مصروفیات کو غارت کرتے آن دھمکے اوردن بھر کا سارا موڈ اور شیڈول خراب کر
دیا۔جسے بعد میں بیوی بچوں نے بھگتا۔
پہلے تو للو میاں بولے کہ میاں پہلے یہ بتاؤ کہ یہ سروے کرنے والی کمپنی کے
پاس آخر ایسا کونسا آلہ ہے کہ جس سے انہوں نے یہ جاہلیت یا قابلیت والا
معاملہ ناپا کہ اس سے یہ پتہ چل گیا کہ میکسیکو میں سب جاہل بستے
ہیں۔کیونکہ میری معلومات کے مطابق سائنسدان انسان کو نظر وں سے اوجھل کرنے
والامادہ ایجاد کر چکے، کچھ عرصہ بعد ایسی دوائی ایجاد ہو چکی ہوگی کہ ورزش
کی ضرورت ہی نہیں پڑیگی اور ورزش کا کام کریگی۔ مزید بتایا گیا ہے کہ جو
بچے آنکھیں ملا کر بات نہ کریں وہ بڑے ہو کر زیادہ شرارتی رہتے ہیں۔وغیرہ
وغیرہ۔ پر یہ مہذب اور غیر مہذب انداز ناپنے کے آلے کے بارے میں ہم نے کہیں
نہ پڑھا نہ سنا کہ کسی سائنسدان نے ایسا آلہ بنایا ہو۔ یا پھر یہ کہیں کسی
مصنوعی سائنسدان یامصنوعی ذہانت کا کمال تو نہیں۔ کیونکہ معروف سائنسدان
سٹیفن ہاپکنز کے مطابق مصنوعی ذہانت انسان کی تباہی کی ذمہ دا ر ہوگی۔للو
میاں کی اس قد ر سائینٹفک اور ذہانت سے بھر پور گفتگو نے ہمیں لاجواب سا
کردیا۔ مصنو عی ذہانت پر بات چلی پر للو میاں نے مزید بتایا کہ آئندہ کچھ
سالوں میں پانچ پانچ سال پڑھ پڑھ کر دماغ کی بتیسی بناکر ڈاکٹر ، انجینئر
بننے کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ مصنوعی ذہانت سے بھری ڈاکٹر ، انجینئر ، وکیل
اور دیگر تمام کٹیگریز کی سمیں موبائل سموں کی طرح گلی گلی دستیاب ہونگی
جنہیں دماغ میں فٹ کرا کر انسان لمحوں میں ڈاکٹر ،انجینئر یا وکیل بن
جائیگا۔للو میاں کی اسقدر معلومات ہمیں ششد کیے د ے رہی تھیں-
تا ہم للو میاں مزید گویا ہوئے بلکہ دل کی بات زبان پر لائے کہ بھئی ہمیں
تو سب سے زیادہ دکھ اس بات کا ہے کہ اس فہرست میں انڈیا بھی شامل ہے کہ
جہاں پر مادھوری، شلپا، قطرینہ، کرینہ ، دیپیکا، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس جیسی
سینکڑوں مہذب اداکارئیں بستی ہیں۔ جہاں پر سلمان خان جیسا صوبر انسان بھی
ہوجو اپنی تمام مصروفیا ت منسوخ کرکے زندگی کے آخری ایام گزارنے والے بچے
سے ملاقات کرے ۔ جہاں پر مدر ٹریسا جیسی عورت جس نے ساری زندگی مریضوں کے
ساتھ گزاری، وہ رہتی تھی۔ ایشوریا جیسی خاتون جسکا دیوانہ فرانس کا صدر،
جسکا دیوانہ امریکی صدر، جسکا دیوانہ برطانوی صدر، جسکا دیوانہ ہر
کوئی۔۔۔۔۔۔ ۔ اور یہ کہ جہاں باربی ڈول قطرینہ بھی ہو، ڈانسنگ کوئین
مادھوری بھی ہو تو یہ قوم کیسے غیر مہذب ہو سکتی ہے ۔للو میاں مزید گویا
ہوئے کہ میاں میں تو مادھوری اور قطرینہ ، کرینہ ، ایشوریا ،کاجل، سونم
کپور، دیپیکا (کالی ہی سہی) پر انکادیوانہ ہوں، لہذا انہیں ان اداکاراؤں کی
وجہ سے اس لسٹ سے انڈیا کا نام نکالنا ہوگا! یا پھرانہیں غیر مہذب ہونے کی
وجوہات دینی ہونگی۔ ہم نے للو میاں کو سمجھا یا کہ میاں چار اداکار یا
اداکاراؤں کے مہذب ہونے سے ملک مہذب نہیں ہو جاتا اور انہیں کچھ غیر مہذب
اداکار اور اداکاراؤں کے نام بھی گنوائے اور حال ہی میں جاری مذہبی شدت
پسندی کے واقعات بھی گنوائے پر للو میاں انکی ڈانس زدہ فلمیں دیکھ دیکھ کر
اتنے عادی اور دیوانے ہو چکے تھے کہ انکے خلاف کوئی بات سننے کو تیار ہی نہ
تھے۔ ہم نے للو میاں کو دھمکی بھی لگا ئی کہ وہ اپنے ہندہ دوستانہ خیالات
تبدیل کریں ورنہ ہم انکا نام پاکستان کی ایک مذہبی جماعت کو دے دیں گے کہ
یہ انڈین شوقین ہیں، پر وہ اپنی بات پر اڑے رہے کہ اس لسٹ سے انڈیا کا نام
نکالا جائے۔
موصوف پھر گویا ہوئے کہ آ خر ان بد تمیز ممالک کے لوگ ایسا کیا کرتے ہیں کہ
انہیں بد تمیز گردانا گیا ہے۔ کیا وہ ایک دوسرے کی برائیاں زیادہ کرتے ہیں،
لڑتے جھگڑتے زیادہ ہیں، دھوکے باز ہیں؟ شرابی کبابی زیادہ ہیں، لڑکیاں
چھیڑتے ہیں، چغل خوری ، مکاری، عیاری کرتے ہیں، کیا انکی عورتیں زبان دراز
ہیں، شوہروں کا کہنا نہیں مانتیں، انہں کھانا پینا نہیں دیتیں، انکے آگے ز
بان چلاتی ہیں، بد تمیزی سے پیش آتی ہیں، ساس سسر کو برداشت نہیں کرتیں،
شوہروں کی پٹائی کر تی ہیں، بات بات پر طعنے دیتی ہیں، سوکن برداشت نہیں
کرتیں۔ انکے مرد کیا سرِ عام لڑکیوں کو چھیڑتے ہیں، آنکھیں مارتے ہیں، طلاق
زیادہ دیتے ہیں، گھر میں خرچہ نہیں دیتے، بیوی کو تنخواہ نہیں بتاتے،
دوسروں کی بیویوں اور لڑکیوں پر نظر رکھتے ہیں، کیا وہاں کے نوجوان لڑکے
لڑکیاں آوارہ ہیں، بد چلن اور بد کردار ہیں، سکول کالج جانے کی بجائے ڈیٹیں
مارتے ہیں۔ کیا وہاں کے کالجوں ، سکولوں میں پڑھا ئی نہیں ہوتی۔ کیاں وہاں
زنا، شراب، جوا، لوٹ کھسوٹ، مار دھاڑ، اور سینہ زوری عام
ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وغیرہ، وغیرہ، آخر کونسا ایسا پیمانہ ہے کہ جس سے یہ
ناپا گیا کہ وہ بد تمیز قوم ہیں ۔ حالآنکہ یہ سب کچھ تو ہمارے ہاں اور بہت
سے دیگر ممالک میں بھی ہوتا ہے۔یا پھر یہ سب کچھ بد تمیز دل بد تمیز دل
گانے کا کمال تو نہیں۔ ابھی پچھلے دنوں اخبار میں خبر پڑھی کہ سعودی عرب کے
شاپنگ مال میں سعود ی خواتین مردوں کو حراساں کرتی پائیں گئیں۔ اصل
مقصدمردوں کو شادی کے لیے متوجہ کر نا تھا۔ہے نہ حیرت کی بات ۔ کہ یہ سب
کچھ سعودی عرب جیسے شہر میں بھی ہو رہا ہو۔؟
اب اگر ہم بات کریں مہذب ا قوم کو ناپنے کے فارمولے کی تو ہمارے خیال سے اس
معاملے میں جاپانی قوم کو نمبر ون ہو نا چا ہیے تھا کیونکہ وہ تو سلام اور
جواب میں ہی آدھا رکوع و سجود میں چلے جاتے ہیں۔بلکہ ایک بار تو ایک صاحب
نے اسی جھکے پن پر ایک لات دے ماری، بس پھر نہ پوچھیں کہ جاپانی کا کیا حال
ہوا۔ ہاں تو جناب مہذب مما لک والے ایسا کیا کرتے ہیں۔ کیا وہ بات بات پر
بچھ بچھ جاتے ہیں۔ کیا وہ سلام سے پہلے ہی جواب دے دیتے ہیں، کیا وہ ہر کام
اجازت لیکر کرتے ہیں۔ کیا وہ سڑکوں پر کچرا نہیں ڈالتے۔ کیا انکی بیگمات
انہیں جوتے نہیں مارتیں۔ کھانا پینا ٹائم پر دیتی ہیں۔ انکی خواتین چغل
خور، مکار عیار، چالاک نہں۔ کیا ساس بہو ایک ہی گھاٹ پر پانی پیتے ہیں۔ کیا
انکی بیگمات شوہروں کی برائیوں میں رطب اللسان نہیں رہتیں۔ کیا وہ لوگ شادی
بیاہ میں ٹائم پر آتے جاتے ہیں۔ کیا وہاں سگنل توڑنے کا رواج نہیں۔ کیاں
وہاں پر شوہر بیویوں کی پٹائی نہیں کرتے۔ کیا وہاں پر بیگمات صبر شکر کے
ساتھ گزارا کر تی ہیں۔ کیا وہاں پر بیگمات کہنا ایک بار ہی میں مان لیتی
ہیں۔ کیا وہاں کے شوہر اپنے کپڑے خود دھوتے ہیں، کھانا بناتے ہیں، کچن اور
ٹوائلٹ خوش خوش صاف کر تے ہیں۔ کیاوہاں کے بچے والدین کا کہنا مانتے اور
بڑوں کا ادب کرتے ہیں۔ کیا وہاں پر لڑکیاں بغیر بتائے گھروں سے نہیں بھا
گتیں۔ کیا وہاں پر گھروں میں جنگ و جدل نہیں ہوتا۔ کیا وہاں پر سیاستدان
عوام کو چ نہیں بناتے۔ کیاوہاں کرپشن نہیں ہے۔ کیا وہاں پر سارا بجٹ
ترقیاتی کاموں میں ایمانداری سے استعمال ہوتا ہے۔ کیا وہاں پر بھی سرِ شام
ٹی ویوں پر سیاسی مداری تماشہ نہیں دکھاتے ہیں۔ کیا وہاں پر ایک دوسرے پر
کیچڑ اچھالنے کا رواج نہیں۔ کیا وہاں پر نند بھا وج ایک دوسرے کے پیر دھو
دھو کر پیتے ہیں۔ کیا وہاں پر ہمارے ملک کی طرح لا را لپا لائی جا نہیں ہے۔
کیا وہاں پر، بد تمیز دل، بد تمیز دل نہیں گایا جاتا؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وغیرہ
وغیرہ۔۔۔۔ اگر ان سب باتوں کا جواب آپ لوگوں کے پاس ہے تو پھر میں انہیں
مہذب اقوام میں مانوں ، ورنہ نہیں۔
تو جناب للو میاں کے ان سوالات کا ہمارے پاس تو کوئی جواب نہیں، آپ میں سے
کسی کے پاس ہو تو ضرور بتائیگا۔ آپ کے جواب کا انتظار رہیگا۔ اﷲ حافظ۔ |
|