آصف سر کا اے سی (A C

ایک دن اچانک بجلی کٹ گئی ، میں علیگڑ مسلم یونیورسٹی کے شعبئہ فارسی میں پروفیسر آصف نعیم صدیقی صاحب کے چیمبر میں بیٹھا تھا، موسم گرما اپنے پورے شباب میں لوگوں سے داد وصول کر رہا تھا. بجلی کٹتے ہی کمرہ آگ اگلنے لگا، چیمبر میں سبھی طلباء جیسے انگاروں پہ بیٹھے ہوں ، آصف سر محو درس تھے کیا فرمارہے تھے الله بہتر جانے. میں نے اوپر کی جانب نگاہ کی تو پنکھا اپنی گردش چھوڑ کے پرسکون ہوگیا تھا- گرمی کی شدّت نے روز محشر یاد دلایا ، جب یہ معمولی سی گرمی مجھ سے برداشت نہیں ہو رہی تو میدان محشر میں کس طرح برداشت کر پاؤں .؟ اب کمرے سے میدان حشر میں پہنچ گیا محشر کا سما دیکھ کر میرے ہوش اڑ گئے اسی بیہوشی کے عالم میں ایک دوست نے میرا کندھا ہلاکر کچھ کہا ، میں اس منظر سے حواس باختہ ہوگیا تھا کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا جب میں اپنی حالت پہ لوٹ آیا تو میں نے اپنے آپ کو آصف سر کے چیمبر میں ایک کرسی پہ پایا ، دوست اوپر کی جانب انگلی اٹھا کر اشارہ کر رہا تھا میں نے کہا بھائی کیا کہہ رہے ہو ؟ تو وہ اے سی کی بات کر رہا تھا - میں اس اے سی کو دیکھنے لگا، اس کے اگلے حصہ پر جلنے کی وجہ سے سوراخ ہوگیا تھا- معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ وہ کچھ عرصہ سے اسی حالت میں ہے ، آگ لگنے کی وجہ سے اس کے دل میں سوراخ ہوگیا ہے -

اس بیچارے A C کی زبوں حالی پر کسی کو رحم نہیں آیا ہے ، کسی کی ہمت نہ ہو سکی ہے کہ اسے وہاں سے اٹھا کر کسی ہسپتال میں بھرتی کرواتا- بہت عرصہ سے میں اسے ایسی ہی حالت میں دیکھ رہا تھا اس کی حالت زار پر مجھے افسوس ہوتا تھا، جونہی میں اس کی طرف نظر اٹھاتا تھا تو وہ گویا بزبان حال مجھ سے یہ کہتا تھا :
اب اس مریضِ بے زبان پر کرم کیجئے
نمک حرامی کب تلک کچھ شرم کیجئے
راقم

افسوس اس وجہ سے ہوتا تھا کیونکہ خیال آتا تھا کہ یہ ہماری خدمت کرتا ہے ، جھلسا دینے والی گرمی سے ہمیں بچاتا ہے ، پل بھر کےلئے اگر یہ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے تو ہم خود کو جھنم میں پاتے ہیں . ہمیں اس کی قدر ہی نہیں . جب سے یہ مریض ہوا ہے تب سے اس کی مزاج پرسی کی توفیق بھی کسی کو نہیں ملی-

ایک دن اچانک ڈپارٹمنٹ بہت صاف ستھرا اور بدلا بدلا سا لگ رہا تھا ، یہ منظر دیکھ کر میں خود سے گویا ہوا کہ یہ اپنا ہی شعبہ ہے یا کوئی اور ..... اتنے میں آصف سر نمودار ہوئے مجھے یقین آگیا کہ ہاں اپنا ہی شعبہ ہے - آصف سر کے چیمبر میں جاتے ہی میری نظر پھر سے اے سی پر پڑی ، دیکھا کہ اے سی غلاف میں لپیٹ دیا گیا ہے ، میں نے سوچا شاید مردے کو کفن مل گیا ہے اب عنقریب ہی اسے کسی قبرستان میں دفن کر دیں گے اور اس کی جگہ کسی دوسرے اے سی صاحب کا تقرر کریں گے -

چند دن گزرنے کے بعد وہ اے سی اُسی طرح کفن میں لپٹا ہوا دیکھا ، میں مایوس ہوگیا کہ اب یہ اسی طرح پڑا رہے گا، اسی مایوسی کے عالم میں ایک دوست نے مجھ سے مایوسی کا سبب پوچھا ، میں نے کہا بھائی یہ بتاؤ کہ اس اے سی کو کفن کس وجہ سے پہنایا گیا ہے ؟ اس نے کہا اُس دن جو صاف صفائی آپ یہاں دیکھ رہے تھے اس کا سبب جانتے ہو.؟ میں نے نفی میں جواب دیا . بولا اس دن کچھ ڈاکٹر حضرات یہاں معائنہ کیلئے آئے تھے ، شعبہ والوں نے اس اے سی کو اسی لئے ڈھانپ کے رکھا تھا تاکہ یہ اپنے زبوں حالی کی شکایت کرکے شعبہ کی ناک نہ کٹوا دے ....

مجھے خود نہیں معلوم کہ اس بے جان شئے سے میری اتنی ہمدردی کیوں کر ہوئی ، آج تو اشرف المخلوقات بھی اپنے ہم جنسوں سے اتنی محبت و ہمدردی نہیں کرتا - شاید اے سی سے میری ہمدردی کی وجہ یہ تھی کہ وہ ہروقت دوسروں کے فلاح و رفاہ میں مصروف رہتا ہے ، کوئی اس کا شکریہ ادا کرے یا نہ کرے وہ تب بھی اپنا کام جاری رکھتا ہے ، جب تک اس کی جان میں جان ہے اپنے فرائض انجام دیتا رہتا ہے -
یہ صفت اشرف المخلوقات کی ایک میراث تھی لیکن بدقسمتی سے اس نے یہ صفت گم کر دی __:
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کےلئے کچھ کم نہ تھے کرّوبیاں

گرمیوں کے ایام میں مجھے ضرور یاد آتا ہے آصف سر کا چیمبر اور وہ اے سی .

اس اے سی پر جتنا زیادہ غور کرتا ہوں اتنا ہی زیادہ یہ مجھ پر اثر انداز ہوتا ہے ، یہ انسانی صفات سے لیس ہے ایسا لگتا ہے جیسے حضرت انسان کے وہ تمام صفات جس کی وجہ سے وہ انسان کہلاتا تھا وہ صفات انسان سے نکل کر اسی اے سی میں حلول کر گئی ہوں . یہ اپنے ہدف سے غافل نہیں رہتا ، دوسروں کی خدمت بغیر کسی بدلے یا طمع و لاچ کے کرتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اپنے مالک کی نافرمانی نہیں کرتا ہے -
انسان کا اپنے ہی ہاتھوں سے بنایا ہوا یہ مخلوق انسان کو بہت ساری باتوں کی طرف راہنمائی کرتا ہے لیکن انسان کسی معمولی شئی سے درس حاصل کرے...؟ یہ حضرت انسان کو گوارہ نہیں . مزے کی بات یہ ہے کہ یہ انسان جس قاتلِ اول یعنی حضرت آدم کے بیٹے قابیل پر سب و شتم کر رہا ہے خود اُس سے بدتر ہو چکا ہے ، اَس نے کوّے سے راہنمائی حاصل کی اور کم سے کم اظہار تاسف کرکے اتنا تو کہا تھا کہ ہاے رے بدنصیبی ...! میں اس کوّے جیسے نہ بن پایا (سورہ مائدہ آیت ٣١ ) ٹھیک ویسے ہی یہ اے سی بھی اور دوسرے کئی اشیاء زبان حال سے بہت کچھ سکھا رہے ہیں لیکن انسان دنیاداری و زرپرستی میں اتنا سرگرم و گرفتار ہے کہ خود احتسابی و خود سازی کی فرصت ہی نہیں ...
Dr. Yawar Abbas Balhami
About the Author: Dr. Yawar Abbas Balhami Read More Articles by Dr. Yawar Abbas Balhami: 11 Articles with 17359 views MIR YAWAR ABBAS (BALHAMI)
(میر یاور عباس بالہامی )
From Balhama Srinagar, Jammu and Kashmir, IND
Ph.D Persian from Aligarh Muslim Universi
.. View More