ہسپتا ل کے لیبر روم میں اسٹریچر پر وہ درد
سے بے حال تھی جونئیرز ڈاکٹر اور نرس اس کے قریب کھڑی پر یشان تھیں کہ ابھی
تک سنیئر گا ئنا لو جسٹ صا حبہ نہیں پہنچی تھیں وہ باربا ر مر یضہ کو تسلی
دے رہی تھیں کہ بی بی ابھی تھوڑا صبر کرو بڑی ڈا کٹر آنے والی ہیں وہ نا
راض ہوں گی بس راستے میں ہیں یہ انتظار اسلئے تھا کہ مریضہ کی یہ پہلی
ڈلیوری تھی گھر وا لوں نے ایک بڑے پرائیوٹ ہاسپٹل کا انتخاب کیا تھا اور
ساتھ وہاں کی سب سے بڑی گا ئنی سرجن کی بکنگ بھی کروارکھی تھی تا کہ کسی
قسم کی ایمر جنسی کی صور ت میں کو ئی پریشا نی نہ ہو گا ئنا لو جسٹ کی
بھاری فیس ہاسپٹل کے چا رجز سے علیحدہ اداکی جا نی تھی ساتھ میں نو ماہ چیک
اپ کے لئے آنے پر ان کی فیس کے ساتھ مہنگے ٹیسٹ بھی رقم و صولنے کا ذر یعہ
بنے ر ہے ادھر مر یضہ کے گھر والے لیبر روم سے با ہر ڈا کٹر کے منتظر تھے
اور اندر مر یضہ کو کہا جاتا ہے بی بی ابھی کو شش مت کر وڈا کٹر کو تو آنے
دو ۔ ایک ماں نو مہینے تک دنیا میں نئی زندگی لا نے میں جو دکھ ومصیبیتں
جھیلتی ہے اسی دردکی شدت و تکلیف کے صلے میں اﷲ تعالیٰ نے ما ؤوں کا رتبہ
باپ سے ایک در جہ ا فضل کر دیا لیکن افسوس کہ ہم نے اسے بھی مذا ق بنا دیا
ہے۔
ہمارے شہروں میں اب یہ ایک عام سی بات ہو گئی ہے اور اس جا نب کو ئی توجہ
نہیں کہ اکثر پر ائیوٹ ہا سپٹل میں نو ماہ چیک اپ اور ٹیسٹ کی صو رت میں
فیس وصول کی جاتی ہے اور ڈلیوری کے وقت بچے کی سا نس رک رہی ہے دھڑکن کم ہو
رہی ہے بچے اور ماں کی جان کو خطرہ ہے مریضہ کے گھر وا لوں سے کہا جا تا ہے
کہ مر یضہ کا کیس نا ر مل نہیں ہے اسلئے آ پریشن کی ضرورت پڑے گی اگر آپ
کوان کی زندگی عزیز ہے تو آپ خون کی بو تل اور رقم کا انتظا م کر یں جیسے
جملوں کے بعد کو شش کی جا تی ہے کہ نارمل ڈلیوری کے بجا ئے آپریشن کو تر
جیح دی جا ئے جس سے خا صی موٹی رقم بل کی صورت میں وصول کی جا تی ہے ہسپتا
ل کا کاروبار خوب چمک رہا ہے اور ایک فار م جس پر اگر خودا نخواستہ کیس
خراب ہو جا ئے تو قا نونی طور پر سا ری ذمہ داری آپ کی ہے پیشگی دستخط کروا
لئے جا تے ہیں مر یضہ کے الوا حقین کا اس بیلک میلنگ پر عمل کر نے کے سوا
اور کو ئی چا رہ نہیں ہو تا بے چا رے میر کی شا عری کے سادہ لو ح انسان اسی
عطار کے لو نڈے سے شفا طلب کر رہے ہو تے ہیں یہاں میں ایک بات کہتی چلوں کہ
سا رے ڈا کٹرز ایسے نہیں ہیں لیکن یہ منادی شہر ہے اب آپ کو شاذو نادر ہی
کو ئی نارمل کیس ڈلیوری کا سننے کو ملتا ہے توکیا اب ذہن میں خیال نہیں آئے
گا کہ نارمل ڈلیوری بندہو گئی ہے ہما رے گا ؤں دیہا توں میں مائیں اکثر یت
نارمل ڈلیوری سے زندگیاں جنم دے رہی ہیں شہری ما ؤوں کے مستقبل لئے ایک
لمحہ فکر یہ ہے مریضہ آپر یشن کے بعد مزید کتنی پیچید گیوں کا شکار ہو جا
تی ہیں وہ ما ئیں جنھیں نئی نسل کو پروان چڑھا نا ہے جنھیں آگے مزید نئی
زندگیا ں جنم دینی ہیں ایک لمبی زندگی گزارنی ہو تی ہے پورے گھر کی دیکھ
بھال صحت کی ذمہ د اری ما ؤوں کے کاندھوں پر ہو تی ہیں ہم سب اس بات سے
بخوبی وا قف ہیں کہ شادی سے پہلے اور بعد میں اکثریتی لڑکیوں کو خوارک کے
معا ملے میں کس قدر بد قسمتی کا سامنا رہتا ہے اس پر آپریشن سے ڈلیوری ہونا
ان کے لئے مزید تکلیف کا با عث بنتا ہے وہ بعد میں اپنا خیال نہیں رکھ پا
تیں وقت سے پہلے اپنی صحت کھو دیتی ہیں ۔
یہ ایسی فیلڈ ہے کہ جس کے بارے میں عام آدمی کچھ نہیں جانتا بلکہ اچھے خا
صے پڑھے لکھے قابل آدمی بھی ہاسپٹل میں بے بس نظر آتے ہیں ہو نق بنے ڈا کٹر
کی ہر بات پر عمل کر تے نظر آتے ہیں ہم سب کی ا نسانی جسم کی کیمسٹری سے نا
واقفیتی ڈا کٹروں کے حق میں جا تی ہے ڈا کٹر کو مریض سے کو ئی ہمدردی نہیں
ہو تی بعض اوقات خود علاج سے اپنے تجربے میں اضافہ کرتے رہتے ہیں مریض اور
اہل خا نہ اکثر شاکی رہتے ہیں کہ مسیحا نے مرض کو سمجھنے میں کا فی مدت لگا
دی ہزاروں رو پئے کے مختلف ٹیسٹ کروا کر بھی ڈا کٹرز مطمن نہیں ہو تے مزید
ٹیسٹ لکھ دیئے جا تے ہیں احتیجاج کر نے پر وہی بلیک میلنگ کا حربہ مر یض کی
زندگی پیا ری ہے تو اس کے لئے ٹیسٹ ضروری ہے مر یض کے اہل خا نہ کے پا س
ڈاکٹروں کی بات ماننے کے کو ئی چارہ نہیں ہو تا ۔اس میں ایک عوامل اور بھی
کار فرما رہتا ہے بحیثت مسلمان ہم سب قسمت پر شا کر رہتے ہیں اگر خدا نخو
استہ ڈا کٹرز کی غفلت و لاپرا ئی کی و جہ سے مر یض کو نقصان پہنچتا ہے تو
اسے رضا ئے الہیٰ سمجھ لیا جا تا ہے تقدیر کا لکھا جان کر کچھ دن ماتم کیا
جا تا ہے پھر رو دھو کر سب خا موش ہو جا تے ہیں کہ یہ قسمت کا کھیل ہے اس
طرح غلطی کر نے والے کو مزید موقع دے دیا جا تا ہے ایک پرانا لطیفہ ہے کہ
وکیل اپنی غلطی لٹکا دیتا ہے استاد کی غلطی آنے وا لی نسلوں کی تر بیت میں
جھلکتی ہے اور ڈاکٹرز کی غلطی کو قبر میں دفنا دیا جاتا ہے۔مسیحا ئی کا
رتبہ تو بہت افضل ہے میری گزا رش ہے کہ اسے خدارا لا لچ و ہوس کے بھینٹ نہ
چڑھنے دیں چند رو پوں کی اس لا لچ سے و ہ کتنی خو شیاں سمیٹ سکے گے ہما رے
معا شرے میں تو ویسے بھی ہر طرف لا قانونیت ، غربت ، مہنگا ئی اور جہا لت
کا بسیرا ہے عام لوگ صحت کی جانب کم تو جہ دے پا تے ہیں بیماری کی آ خری
شدت پر آ ئے بناء ڈا کٹروں کے پاس جا نے کا سوچ بھی نہیں سکتے ا س پر ان
مسیحا ؤں کی لو ٹ مار نے حالات کو مزید بگا ڑنے میں کو ئی کسر نہیں اٹھا
رکھی غریب اورلا چار طبقہ تو بے چارہ سسک سسک کر دم توڑ دیتا ہے صحت کی
سہولت بہم پہنچا نا پا کستانی آ ئین کے مطا بق حکومت کی ذمہ داری ہے گو ر
نمٹ ہسپتا لوں میں ڈا کٹرز اور سرجنز لا کھوں کی تنخواہ وصول کر تے ہیں
ہمارے اکثر سنئیر ڈا کٹرز وارڈ کو ٹرینی ڈاکٹرز اورنرسسز کے رحم و کر م پر
چھوڑ کرپرا ئیوٹ ہسپتالوں میں پریکٹس بھی جا ری ر کھتے ہیں جس کی وجہ سے مر
یض کے رشتہ داروں کی کو شش ہو تی ہے کہ پرا ئیوٹ علاج کروایا جا ئے اگر گو
رنمنٹ ہا سپٹلزمیں صحت کی بہتر سہو لتیں مہیا ہو ں تو عوام کی زندگی آسان
ہو جا ئے پرا ئیوٹ ہسپتا لوں میں مہنگے علاج اور مسیحا ؤں کی بلیک میلنگ سے
بھی بچ سکے گے تر قی یا فتہ ممالک میں اس قسم کے مسا ئل پر با قا عدہ پر
وگرامزاور ور کشاپس کئے جا تے ہیں اس کے سد باب پر غور کیا جا تا ہے عمل
کیا جا تا ہے لیکن ہمارے ہاں اس گھمبیر مسئلے کو جا ننے کے باوجود کو ئی اس
پر بات نہیں کرتا ۔ |