اسلام کی تاریخ عزیمت کی
داستانوں اور قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ چشم عبرت ہو تو ان میں سے ہر داستان
بذاتِ خود اسلام کی حقانیت کی دلیل ہے اور حق کے متلاشیوں کو غور و فکر
کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ زیرِ نظر واقعہ بھی عزیمت کے راستے کا ایک روشن باب
ہے:
اسلام نے جہاں عورت کو اُس کا صحیح مقام و مرتبہ عطا فرمایا وہاں بہت سے
اعزازات سے بھی نوازا۔ جس طرح اسلام کے دامنِ رحمت سے وابستہ ہونے کا عزاز
ایک معزز خاتون حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو حاصل ہوا اسی
طرح اسلام کے گلشن کی آبیاری کے لئے سب سے پہلے ایک عورت نے ہی اپنے خون کا
نذرانہ پیش کیا۔ جی ہاں! اسلام کی سب سے پہلی شہیدہ حضرت سمیہ بنت خباط رضی
اللہ تعالیٰ عنہا تھیں جنہوں نے راہ حق میں اپنی جان کی قربانی پیش
کی۔آپ(رض) حضرت عمار بن یاسر (رض) کی والدہ اور حضرت یاسر(رض) کی زوجہ تھیں
جنہوں نے خود بھی اسلام کی خاطر تکلیفیں اُٹھاتے ہوئے جام شہادت نوش فرمایا۔
حضرت سمیہ (رض) ابو حذیفہ بن مغیرہ مخزومی کی کنیز تھیں۔ اسلام کی صدا بلند
ہوئی تو ہجرت سے قبل، اسلام کے ابتدائی دور میں ہی حضرت سمیہ(رض) حضرت
یاسر(رض) اور عمار(رض) تینوں نے اس دعوت کو لبیک کہا اور اس کا اعلانیہ
اظہار بھی کیا۔ حضرت سمیہ(رض) کا اسلام قبول کرنے والوں میں ساتواں نمبر ہے۔
قبول اسلام کے ساتھ ہی ان کے جذبہ ایمانی کو طرح طرح سے آزمایا گیا لیکن
جان کا خوف بھی ان کے جذبہ ایمان کو شکست نہ دے سکا۔ کفار کو جب پتا چلا تو
انہوں نے حضرت سمیہ(رض) کو اسلام سے پھیرنے کے لئے ہر حربہ آزمایا، تشدد
اور اذیت کا سلسلہ دن بدن بڑھتا رہا۔ روایت میں مذکور ہے کہ انہیں گرم
کنکریوں پر لٹایا جاتا، لوہے کی زرہ پہنا کر دھوپ میں کھڑا کر دیا جاتا
لیکن تشنہ لبوں پر محبت ِ رسول ﷺ کے پھول کھلتے رہے اور پائے استقلال میں
ذرہ بھی لغزش نہ آئی۔ عورت تو نازک آبگینوں کا نام ہے جو ذرا سی ٹھیس سے
ٹوٹ جاتے ہیں لیکن آفرین ہے حضرت سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی استقامت پر
کہ آپ اس بڑھاپے اور جسمانی ضعف اور کمزوری کے باوجود ایمان کا حصار آہنی
بن گئیں۔’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جب حضرت عمار(رض) اور ان
کے والد اور والدہ کے پاس سے گزر ہوتا جن کو کفار کی طرف سے مکہ کی شدید
گرمی میں وادی ابطح میں عذاب دیا جا رہا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم فرماتے اے آلِ یاسر! صبر کرو، جنت تمہارا انتظار کر رہی ہے۔‘‘ حضرت
سمیہ(رض) کو اسلام لانے کی پاداش میں طرح طرح کی تکلیفیں پہنچائی گئیں لیکن
﴿اقرار اسلام کے سوا﴾ ہر چیز کا انکار کیا حتیٰ کہ آپ کو شہید کر دیا گیا۔
’’روایت میں ہے کہ ابو جہل نے ان کے جسم کے نازک حصے پر برچھی کا وار کیا
جس سے وہ شہید ہو گئیں‘‘ اس طرح آپ (رض) کو اسلام کی پہلی شہیدہ خاتون ہونے
کا شرف حاصل ہوا۔ یہ واقعہ ہجرت سے سات سال پہلے پیش آیا اور آپ(رض) کی
شہادت کے بعد آپ کے شوہر حضرت یاسر(رض) بھی کفار کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ
بن کر شہید ہو گئے۔ اس کے بعد آپ(رض) کے بیٹے حضرت عمار (رض) کا شمار حضور
اکرم ﷺ کے خاص صحابہ میں ہوتا تھا اور حضور اکرم ﷺ آپ (رض)سے بہت محبت
فرماتے تھے اور آپ (رض) کے خاندان کی اسلام کی خاطر قربانیوں کی تعریف
فرماتے تھے۔ پھر جب غزوہ بدر کے دن ابو جہل مارا گیا تو حضور اکرم ﷺ نے
حضرت عمار بن یاسر (رض) سے فرمایا کہ ’’ اللہ نے تمہاری والدہ کے قاتل کو
قتل کر دیا‘‘۔
حضرت سمیہ (رض) اپنی زندگی کے آخری لمحے تک اسلام سے ایک قدم پیچھے نہ ہٹیں
اور ایمان و یقین کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ آپ ایک مثالی بیوی اور مثالی
ماں ہیں جنہوں نے اپنے شوہر، اپنے بیٹے سمیت اپنی زندگی اسلام کے لئے وقف
کردی تاکہ وہ آخرت کی زندگی میں اکٹھے داخل ہو سکیں۔
یہ واقعہ بھی ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ جنت کا راستہ مشکلات اور قربانیوں
سے پُر ہے۔ آجکل سہل پسندی ہماری فطرت بنتی جا رہی ہے۔ دین سے دوری اور
دنیا کی چمک دمک نے ہمارا مزاج ایسا بنا دیا ہے جو ہمیں قربانیوں سے دامن
بچانے کا درس دیتا ہے۔ ہر معاملے میں رخصت تلاش کرنا اور مشکلات سے جی
چرانا ہماری عادت بن چکا ہے۔
اگر حضرت سمیہ (رض) جیسی باہمت اور اسلام کے جذبے سے سرشار خاتون کی زندگی
پر غور کریں تو آج کی مسلمان عورت سوچ، مزاج، مقصدِ حیات اور طرزِ زندگی
میں یکسر مختلف نظر آئے گی۔ ایسے موقع پر ضرورت ہے کہ ہم اپنے ماضی کی طرف
جھانکیں اور اس سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ آج بھی مسلمان ماؤں اور
مسلمان بیویوں کو چاہیے کہ وہ حضرت سمیہ (رض) کی استقامت اور اللہ اور رسول
ﷺ سے والہانہ عقیدت و محبت کو اپنے لئے مشعلِ راہ بنائیں کیونکہ اسی طرح وہ
نہ صرف کلمہ حق کی سربلندی میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں بلکہ آخروی
کامیابی بھی حاصل کر سکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو جانثارانِ اسلام کے
نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ﴿آمین﴾ |