جمہوریت اور مفاہمت

پاکستان میں ایسی جمہوریت پھل پھول رہی ہے کہ انھا،،لولا،،لنگڑا،،بے ایمان،،بے ضمیر،،کرپٹ،،رسہ گیر،،بھتہ مافیا،،گینگ وار کا سرپرست،،بھکھے ننگے،غنڈے بدمعاش آسانی سے سیاست میں حصہ لیکر نہ صرف الیکشن میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں بلکہ جمہوریت کے گلدستے میں سج کر بدبودار عوام سے بھی دور رہ سکتے ہیں کیونکہ جمہوریت کی چھتر چھاؤں میں آتے ہی عوام بدبودار ہو جاتی ہے جن سے ہاتھ ملانے کے بعد ہاتھ دھونا کئی بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے کمال جمہوریت ہے کہ اس گلدستے میں سجے سیاستدان صرف دوسرے کی پگڑی اچھالتے ہیں اپنے گریبان میں جھانکنا پسند نہیں کرتے ۔جمہوری دور میں آزاد کشمیر کے الیکشن ہونے والے ہیں مگر الیکشن سے قبل کی ،،باں،باں،ایکدوسرے پر تیز و تلخ جملے،پارٹی ورکروں کی لاشوں پر سیاست عروج پر ہے ن لیگ نے اپنے وزرا کی فوج آزاد جموں کشمیر میں بھجوا رکھی ہے جسمیں وفاقی وزیر آزاد جموں کشمیر چوہدری محمد برجیس طاہر،وزیر اعظم کے معاون خصوصی ،ڈاکٹر آصف کرمانی اور بے لگام وزیر اطلاعات ،پرویز رشید اپنے ٹاسک کو پورا کرنے کے لیے پیپلز پارٹی پر تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں اور جمہوریت کی رہی سہی عزت کا بھی جنازہ نکال رہے ہیں دوسری جانب گذشتہ دن پریس کانفرنس میں وزیر اعظم آزاد جموں کشمیر چوہدری عبدالمجید نے کہا کہ آزاد جموں کشمیر میں وفاقی وزرا کی بے جا مداخلت ہے ن لیگ کے کارکنوں کو غنڈہ گردی پر اکسایا جا رہا ہے جنہوں نے ہمارے ورکر کو قتل کر کے ثابت کر دیا ہے ن لیگ کے وزرا کشمیر کے امن کو تباہ کرنے آئے ہیں ن لیگ کے وزرا آزاد کشمیر کو فتح کرنے کی بجائے ،سرینگر اور مودی کو فتح کرتے تو قوم کو فخر ہوتا ۔وفاقی وزرا آزاد جموں کشمیر میں اقتدار کے نشہ میں دھت ہو کر امن کی فضا ء کو خراب کررہے ہیں مگر ہم گولی،لاٹھی کی سیاست نہیں چلنے دیں گے پیپلز پارٹی کے ورکر چوہدری منشی کے قاتلوں کو کیفرکردار تک پہچائیں گے ہم نے کبھی راستہ روکنے کی سیاست نہیں کی پارٹی کے حکم پر مفاہمتی پالیسی کو ہمیشہ فروغ دیا ہے اسی روز صدر آزاد جموں کشمیر محمد یعقوب خاں نے فرمایا کہ ریاست کی تمام سیاسی پارٹیوں کا احترام کرتے ہیں مگر پاکستان سے آنے والے وزرا ،مارو،جلاؤ،گھراؤ کی سیاست کر رہے ہیں پیپلز پارٹی کے کارکن کی شہادت رائیگاں نہیں جائے گی الیکشن میں آزاد جموں کشمیر کی عوام ن لیگ کا وہ حشر کرے گی کہ دنیا دیکھے گی ان بیانات سے لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی ایک بار پھر ن لیگ کو مفاہمتی پالیسی یاد دلانے کی کوشش کر رہی ہے مفاہمتی پالیسی ادھر تم ادھر ہم والی تو نہیں تھی یا پھر مفاہمتی پالیسی کا مطلب یہ تو نہیں تھا کہ اقتدار قائم رہے عوام مرتے ہیں تو مرتے رہیں قتل ہوں یا مہنگائی،کے ہاتھوں دم توڑیں ،بے روزگاری میں خودکشیوں کی فضاء بنے ،یا پڑھے لکھے ڈگریاں پکڑے دھکے کھاتے پھریں،کاش کبھی ایسا بھی ہوتا کہ مفاہمت عوامی فلاح و بہبود کے لیے ہوتی ملکی سلامتی،قاتلوں کی گرفتاری،امن و امان قائم کرنے کے لیے ہوتی یہ مفاہمت تو اس لیے ہے کہ تم بھی لوٹو ہم بھی لوٹتے ہیں تم بھی قتل و غارت گری کرو ہم بھی کرتے ہیں عوام کی نظروں میں سرخرو ہونے کے لیے ایکدوسرے پر الزامات لگائیں گے ،گرما گرم تقریں کریں گے اور پھر ہاتھ بھی ملا لیں گے اس ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ ایسی مفاہمت ڈاکوؤں،رسہ گیروں کے درمیان ہوتی ہے علاقے بانٹ لیے جاتے ہیں کہ دوسرے علاقے میں اس گینگ کا کوئی رکن واردات نہیں کرے گا اور جب کوئی اس غیر تحریری معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے تو علاقے کا بڑا دونوں کو بلاتا ہے اور فیصلہ کیا جاتا ہے تاکہ قتل و غارت نہ ہو اور ڈاکوؤں کے سرداروں کو ایک دستر خوان پر بٹھا دیا جاتا ہے جہاں لوٹ کے مال سے دعوت اڑائی جاتی ہے اور ڈاکوؤں میں اس دستر خوان کو ڈاکوؤں کی اسمبلی کہتے ہیں ۔وزیر اعظم آزاد جموں کشمیر چوہدری عبدالمجید کے بیان اور مفاہمت پالیسی یاد کروانے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے مگر انہیں بھی کچھ یاد ہونا چاہیے جب پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں آزاد کشمیر کے الیکشن ہونا تھے تو تب بھی وفاقی وزیر آزاد جموں کشمیر اور دیگر وزرا کی فوج آزاد جموں کشمیر میں الیکشن میں حصہ لینے میدان میں اترے ہوئے تھے اس بار کی طرح تب بھی ملکی خزانے کا منہ کھول دیا گیا تھا تب بھی جو بکا خرید لیا گیا جو نہ بکا اسے جھکا دیا گیا اور جس نے بکنے و جھکنے سے انکار کیا توڑ دیا گیا مگر اعلی قیادت کو رزلٹ دیا گیا یہ سب باری کی سیاست کا رواج اور بنیاد بھی تم سیاستدانوں نے متعارف کروائی تھی اب اس پر بھڑکنا اچھا نہیں لگتا کیو نکہ ہماری سیاست میں مداری تماشہ زیادہ ہوتا ہے ۔نکمے،نکھٹو،ذہینی طورپر بیمار سیاستدانوں اعلی منصب عطا کر دیے جاتے ہیں جو جتنا کرپٹ،بے ایمان،اور ملک لوٹنے میں مہارت رکھتا ہے اسے اتنا ہی بڑا منصب مل جاتا ہے پیپلز پارٹی ہو یا ن لیگ دونوں ایک ہی چکی کے دو پاٹ ہیں نام اور چہرے تبدیل ہیں مگر طریقہ ملتا جلتا ہے اور دونوں کے راستے خزانہ سرکار کی طرف ہی جاتے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ پیپلز پارٹی ذولفقار علی بھٹو،مرتضی بھٹو،محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادتوں کو کیش کروا کر حکومت میں آتی ہے اور ن لیگ اپنی شہادتوں سے زیادہ مختلف ٹیکس لگا کر عوام کی شہادتوں پر سیاست کرنے کا وسیع تجربہ موجود رکھتی ہے مگر ایک بات طے ہے کہ اس بار ان دونوں پارٹیوں کو اپنا بڑا نہ ملے گا۔ جو مفاہمتی دستر خوان پر بٹھا دے اور لوٹ کے مال سے غیر تحریری امن معاہدہ بھی کروا دے کیونکہ اس بار کے بڑے نے صفائی کا عمل شروع کر رکھا ہے جس سے دونوں خائف ہیں کیونکہ صفائی کے اس عمل میں سیاسی پارٹیوں کی دھلائی جاری ہے اور یاد رہے جب حد سے کوئی بڑھے گا بڑا نکیل ڈالنے آ جائے گا سقوط ڈھاکہ جیسی سوچ اپنانے والوں کو اپنا قبلہ درست کر کے ادھر تم ادھر ہم کے نعرے کی بجائے ،،فیصلہ عوام پر چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ جمہوریت کے گلدستے میں تو تم سب سج ہی چکے ہوجو اس قوم کی سب سے بڑی بدنصیبی ہے۔
Rana Zafar Iqbal
About the Author: Rana Zafar Iqbal Read More Articles by Rana Zafar Iqbal: 43 Articles with 31372 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.