تھانہ کلچر کی گونج اب عدالت عظمی میں!
(Prof Liaquat Ali Mughal, Kehroor Pakka)
نجکاری کا عمل عرصہ دراز سے جاری ہے نجکاری
دراصل اپنے کندھے سے ذمہ داریوں کا بوجھ اتار کر دوسرے کے کندھوں پر ڈالنا
ہے جس کا صاف صاف مقصد و مدعا یہ ہے کہ اس ذمہ داری سے میں عہدہ برآ نہیں
ہوسکتا۔لہذا ذمہ داری کسی دوسرے کو سونپ دی جائے چاہے اس کیلئے آپ کو کتنا
ہی نقصان کیوں نہ اٹھانا پڑے۔بس خود کچھ نہیں کرنا کسی دوسرے پر انحصارکرکے
اپنا فائدہ حاصل کرلوباقی سب جائیں بھاڑ میں۔تھوڑے سے مسائل کچھ مشکلات چند
رکاوٹوں اعتراضات و الزامات کا سامنا ہی تو کرنا پڑے گاتو کرلیں گے۔ پی ٹی
سی ایل، سٹیل ملز، پی آئی اے، ریلوے ، واپڈا، تعلیم کی نجکاری تو ہم پہلے
ہی کرچکے ہیں اور اس کے نتائج پوری قوم بھگت بھی رہی ہے لیکن ایک محکمہ
ایسا بھی ہے کہ جس کی نجکاری نہ توکاغذات کی مرہون منت ہے اور نہ ہی اس کی
نجکاری حکومتی وسیاسی سطح پر اجاگرکرنا ضروری ہے اور نہ ہی ارباب اختیار و
اقتدار میں ہی اس کاپرچار کرنا ہے لیکن کبھی کبھی کر نا بھی پڑتا ہے جب
اپنی برتری و بڑائی کا ڈھنڈورا پٹوانا مقصود ہواس محکمے کے بارے میں شاعر
کا درج ذیل شعر تشریحاپیش نظر کررہا ہوں
زمانے سے عمل نجکاریوں کا
یہاں جاری نہیں تو اور کیا ہے
ہمارے ملک میں بکتے ہیں تھانے
یہ نجکاری نہیں تو اور کیا ہے
جی ہاں یہ محکمہ ہے پولیس کا ۔ جس کی’’ نجکاری ‘‘(خریدو فروخت )روز اول سے
جاری و ساری ہے یہ الگ بات ہے کہ اس کی بولی لگتی ہے اور نہ ہی اس کا ٹینڈر
ہوتا ہے بیچنے والہ بھی سامنے نہیں آتا اور خریدار کا بھی پتہ نہیں
ہوتا(کاغذات کی حد تک)وگرنہ تو سب کو معلوم ہوتا ہے کہ کون کتنے میں بکا ہے
اور کس نے کس بل پر کسے خریدا ہے۔عوام الناس تو شروع دن سے ہی اس حوالے سر
پیٹتی آرہی ہے لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے کے مصداق ان کی
کوئی شنوائی نہیں ہوتی اور وہ سر پیٹتے اور سینہ کوبی کرتے مرجاتے ہیں یا
پھر اس محکمے(پولیس)سے کسی ایک فرد کی ’’نجکاری‘‘کرکے اپنا جائز و ناجائزحق
وصولتے ہیں-
اب تو اعلی عدلیہ میں بھی اس ’’نجکاری‘‘یعنی تھانے بکنے کی گونج سنائی دینے
لگی ہے اور یہ آواز اتنی واضح اور صاف ہے کو اس کو رد کرنا آسان نہیں ۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے پانچ رکنی لارجر بنچ
کی سربراہی کرتے ہوئے ایف آئی آر کے اندراج سے متعلق دفعات 22A اور22B کی
سماعت پر ریمارکس دیتے ہوئے تھانہ کلچر پر انتہائی برہمی اور افسوس کا
اظہار کیاانہوں نے بتایا کہ تھانے کروڑوں میں بکتے ہیں اور ایس ایچ او
کروڑوں روپے دے کر لگتے ہیں انہوں نے پھر پیسے بھی پورا کرنا ہوتے ہیں ساری
خرابی قانون پر عمل درامد نہ کرنے کی وجہ سے ہے جسٹس ثاقب نثار کا موقف تھا
کہ ماسواء ایک وکیل کے تمام وکلا کا موقف ہے کہ 22A اور22B کا اختیار آئین
سے متصادم نہیں جسٹس ِآف پیس کا عہدہ پولیس پر ایک چیک ہے2015 میں سپریم
کورٹ نے ایک فیصلے کے ذریعے ایک کھڑکی کھولی تھی کہ مقدمہ کے اندراج کیلئے
کوئی سائنسی طریقہ کار وضع کیا جائے انہوں نے یہ بھی کہا کہ ممکن ہے کہ
عدالت اس حد تک چلی جائے کہ پرچہ کااندراج نہ کرنے والا پولیس آفیسر مس
کنڈکٹ کا مرتکب پایا جائے سماعت میں اس بات کا اعادہ عدالتی معاون خواجہ
حارث نے کہااگر پولیس پرچہ درج نہ کرے تو پولیس سے ہٹ کر ایک ایسی اتھارٹی
ہونا چاہئے جو ان کو اس کا حکم دے سکے کیونکہ 30-35 فیصد ایف آئی آر کے
چالان ہی پیش نہیں کئے جاتے۔
یہ ہمارے سماج کا سب سے بڑا سماجی مسئلہ ہے جس کا حل تاحال لاینحل ہے عدالت
عظمی نے بات کروڑوں سے شروع کی ہے لیکن کہیں کہیں بات لاکھوں حتی کہ ہزاروں
میں بھی ہوتی ہے تھانے ہزاروں میں بکتے دیکھے اور سنے گئے ہیں اور تاحال یہ
روش قائم و دائم ہے۔یہی وجہ ہے کہ انصاف کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف
ہے سائل تھانے میں مقدمہ درج کرانے سے بہتر یہ سمجھتا ہے کہ اس کے ساتھ جو
ظلم و زیادتی ہوئی ہے اسے اﷲ کی رضا سمجھ کر صبرکرلیا جائے کیونکہ تھانوں
میں سائلوں کے ساتھ جو ذلت آمیز سلوک ہوتا ہے اور جو تحقیرآمیز رویہ اختیار
کیا جاتا ہے اور پیسے بٹورے بغیر کام نہیں ہوتا یا پھر وہ سائل تھانے کی
’’نجکاری ‘‘کرتے کوئی ایک افسر کو خریدلیتا ہے اور پھر اس کے تمام جائز و
ناجائز کام ہوجاتے ہیں۔ماضی میں بھی یہ شکایات عام تھیں حال بھی ان مسائل
سے بے حال ہے جبکہ مستقبل میں بھی اس کی بہتری اور تھانہ کلچر کے خاتمے کے
آثار دور دور تک دکھائی نہیں دیتے۔کیونکہ موجودہ حکومت اور بالخصوص وزیر
اعلی پنجاب شہباز شریف نے تو ایک عشرے سے زائد گزار دیا ہے تھانہ کلچر
تبدیل کرتے کرتے لیکن نتائج ندارد۔دراصل کسی بھی کام کو پایہ تکمیل تک
پہنچانے کیلئے خلوص درکا ر ہوتا ہے اور ہم لوگ اس سے خالی ہیں ہم صرف ہوس
کے پجاری ہیں اور دولت کی ہوس نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا اور پولیس والے
بھی آخر انسان ہیں اور24 گھنٹے ڈیوٹی دیتے ہیں تھانہ کلچر کو ختم کرنے
کیلئے اخلاص کے ساتھ ساتھ سسٹم میں تبدیلی لانا بھی ازحد ضروری ہے- |
|