پٹوار کلچر کے خاتمہ کی جانب پیش قدمی

میں اس اصول کا قائل ہوں کہ حکومت کے عوام کے لئے کئے جانے والے ترقیاتی منصوبوں کی تعریف ضرور ہونی چاہئے مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ اس میں کاسہ لیس کا عنصر شامل نہ ہو پائے۔ مسائل کے حل کے لئے کی جانے والی تعریف سے جہاں کسی سوسائٹی کا معیار زندگی بلند ہوتا ہے وہاں حکومتی اداروں کو بھی مزید پنپنے اور مستحکم ہونے کے مواقع دستیاب ہوتے ہیں۔ گزشتہ68 برس سے ہمارا یہ قومی المیہ رہا ہے کہ حکمران جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں ہیں۔ یہی وہ افسوسناک عمل ہے جس سے غیور قومیں اپنی پہچان کھودیتی ہیں۔ خادم اعلی پنجاب شہباز شریف جو سرکاری طور پر تووزیراعلیٰ کے مرتبے پر فائز ہیں مگر عوامی خدمت اور اپنی سادگی کے حوالے سے اپنے آپکوخادم اعلیٰ کہلوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں اورحقیقی معنوں میں صوبے میں خادم اعلیٰ کا کردار ادا کرتے نظر بھی آتے ہیں۔ اہل پنجاب کے تعمیرو ترقی کے منصوبوں کی تیز رفتاری کے ساتھ تکمیل کے لئے آجکل زیادہ ہی مصروف نظر آرہے ہیں۔ انکی ایڈمنسٹریشن پاور، گڈ گورننس اور یاداشت کا میں خود بھی معترف ہوں۔

پاکستان میں 40 لاکھ بے روزگار نوجوانوں کو غم روزگاری سے نجات دلانے کے لئے انکے غم کو بھی سمجھتا ہوں۔ تارکین وطن کے لئے حال ہی میں لاہور میں قائم اوورسیز پاکستانیز کمیشن پنجاب کا پلاٹوں کو قبضہ گروپوں سے واگزار کروانے کے عملی اقدامات کا بھی مجھے ادراک ہے۔ لاہور کی میٹرو بس اور مستقل قریب میں لاہور ہی میں چلنے والی اورنج لائن ٹرین اور نالج پارک کی تعمیر کے فیصلے کا بھی انہیں ضرور کریڈٹ دینا چاہئے۔ خادم اعلیٰ کی لیپ ٹاپ سکیم اور نا بینا اور معذور افراد کو ترجیحی بنیادوں پر ملازمت فراہم کرنے کے حوالے سے موثر اقدامات بھی ان کی صوبہ کے عوام سے محبت اور کام سے لگن کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ خادم اعلیٰ نے صاف پانی پینے کے لئے اے ٹی ایم مشینوں کی طرز پر نئے واٹر پلانٹ لگانے کے منصوبہ کو بھی آخری شکل دے دی ہے جو انقلابی قدم دکھائی دے رہا ہے۔

شہباز شریف نے مذکورہ بالا ترقیاتی منصوبوں کے علاوہ ایک وہ کام بھی کردکھایا ہے جو بنیادی طور پر پورے پاکستان کے عوام کا سب سے بڑا گھمبیر مسئلہ تھا۔ اراضی مالکان کے لئے زمینوں کی دستاویزات کا حصول ایک ایسا مشکل مسئلہ تھا جسے آزادی وطن سے آج تک سلجھایا نہیں جاسکا تھااور اس مسئلے کی بدولت ہی پٹوارکلچر کی ابتداء ہوئی۔ فرد برائے اراضی، رجسٹرڈ برائے حق داران زمین، خسرہ نمبر، کھیوٹ، اور اس طرح کے دیگر کاغذات برائے اراضی اور لینڈ رجسٹری کو مکمل طور پر سمجھنا صرف اور صرف پٹواری اور گرداور کا کام تصور ہوتا رہا ہے۔پٹواری یوں تو محکمہ مال کا اہلکار ہو تا ہے لیکن وہ دو جمع دو برابر بائیس کرنے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں۔ قیام پاکستان سے آج تک ہرحاکم نے پٹواری کو ٹشو پیپر بنائے رکھا۔آمریت کے دور میں پٹواری ہمیشہ آلہ کار بنائے گئے۔تازہ ترین آمریت کا تو میں خود عینی شاہد ہوں۔جب جلسوں کا انتظام، ٹرانسپورٹ ، کھانا پینا اور بندے آکھٹے کرنے تک سب کچھ پٹواری کے ذمہ تھا۔ اسی سیاسی کرپشن نے پٹواری کو مالی کرپشن کی راہ دکھائی۔ظاہر ہے تنخواہوں سے صرف چولہے جلتے تھے۔انہیں فری ہینڈ ملا تو کلف لگی شلوار قمیض اور تلے والے کھسے پہننا شروع کر دئیے۔پبلک ٹرانسپورٹ سے وہ موٹر سائیکلوں اور پھر بڑی بڑی گاڑیوں کے مالک بن گئے۔ بچے میونسپل کے سکولوں سے انگلش میڈیم میں آگئے ۔حتی کہ بیرون ممالک سے اعلی تعلیم بھی حاصل کر لی۔ شہر کے ہر خالی پڑے پلاٹ کو دیکھ کر ان کی رال ٹپکی۔ قبضہ مافیا کو ساتھ ملا کر کالونیاں کاٹیں اور بڑے بڑے رقبوں کے مالک بن گئے اور حکمرانوں کا اقتدار مضبوط ہوتا رہا۔پاکستان میں آج بھی زمینوں کی نشاندہی اور شناخت کپڑے پر بنائے گئے ایک شجرہ سے ہوتی ہے۔ جسے پٹواری لٹھا کہتے ہیں۔ جسے دیکھ لینا عام آدمی کے لئے جنت کے نظارے سے کم نہیں ہوتا۔زمین کی فرد لینے ہو تو فیس نما رشوت دینا پڑتی ہے۔ جو سرکارکے بجائے ذاتی خزانے میں جاتی ہے۔لٹھے پر جو کچھ لکھ دیا جائے وہ نوشتہ دیوار جیسا ہوتا ہے۔پٹواری کے لکھے کوصرف اعلی عدلیہ ہی بدل سکتی ہے۔وہ اعلی حکام کی ذاتی ضروریات پوری کرنے میں مصروف رہتا ہے۔تعیناتی کے لئے سفارش اور بولیاں لگائی جاتی ہیں۔فرد اراضی، جو پٹواری اپنے دفتر میں بچھائی پھوڑی یا دری میں بیٹھ کرہفتوں بھر اس لئے نہیں دیتا تھا کہ عام شخص اس فرد کی منہ مانگی رقم جسے وہ سرکاری فیس کہتا تھا دے نہیں پاتا تھا۔ فرد برائے اراضی کی حکومتی فیس کیا ہے، رجسٹری کیسے اور کتنے رپوں میں ہوتی ہے۔68 برس گزرنے کے باوجود عام آدمی کو سمجھ میں نہیں آسکی۔

مگر اب خادم اعلیٰ محمد شہباز شریف کی ہدایت پر صوبہ میں اراضی کا مکمل ریکارڈ کمپیوٹرائزڈکر دیا گیاہے۔ جس سے پٹوار کلچر کے بوسیدہ نظام کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو گیا ہے۔ پنجاب حکومت کا یہ اہم اقدام کرپشن کے خاتمے اور عوام کو بہترین سہولتوں کی فراہمی کی جانب ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔صوبے کی تمام تحصیلوں میں لینڈ ریکارڈ مینجمنٹ اینڈ انفارمیشن سسٹم کا جدید نظام رائج کردیاگیا ہے ۔ 143تحصیلوں میں سروسز سنیٹرز مکمل طورپر آپریشنل ہیں اورعوام کو خدمات فراہم کررہے ہیں ۔ اراضی کی کمپیوٹرائزیشن اور پٹوار کلچر کا خاتمہ حکومت پنجاب کا تاریخی کارنامہ ہے۔ پنجاب بھر میں لینڈ ریکارڈ مینجمنٹ اینڈ انفارمیشن سسٹم رائج ہونے سے کئی دھائیوں سے رائج پٹوار کلچر کا خاتمہ ہوگیاہے اور لاکھوں لوگ نئے رائج شدہ نظام سے مستفید ہورہے ہیں ۔ لینڈ ریکارڈ مینجمنٹ اینڈ انفارمیشن سسٹم سے کے باعث اراضی کی فرد کا حصول اورانتقال اراضی کا عمل چند منٹوں میں ممکن ہو گیاہے ۔ پنجاب میں لینڈ ریکارڈ مینجمنٹ اینڈ انفارمیشن سسٹم وزیر اعلی پنجاب کا لاجواب کا رنامہ ہے اور پٹوار کلچر پر کاری ضرب ہے۔ اب اراضی مالکان کو زمینوں کے ریکارڈ کی مکمل معلومات با آسانی دستیاب ہو ں گی۔پنجاب کے تمام اضلاع کی اراضی کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کر لیا گیاہے اور اراضی کی دستاویزات اب چند منٹوں میں دستیاب ہیں۔لینڈ ریکارڈ مینجمنٹ اینڈ انفارمیشن سسٹم سے اراضی کے معاملات میں کرپشن ،دھوکہ دہی اورجعلسازی کا بھی ہمیشہ کے لئے سر کچل کر رہ گیا ہے۔اب عوام کو ایک ہی چھت تلے اراضی کی دستاویزات کی فراہمی ممکن ہورہی ہے ۔ پنجاب حکومت کے اربوں روپے کے اس منصوبے سے عام آدمی کو حقیقی ریلیف مل رہا ہے ۔پنجاب حکومت مستقبل میں اس جدید منصوبے پر عملدرآمد کیلئے خودمختار اور آزاد اتھارٹی اور سٹیٹ آف دی آرٹ مرکزی ڈیٹا سینٹرکے قیام کابھی ارادہ رکھتی ہے۔سروس سینٹرز کو صبح سے رات گئے تک آپریشنل رہتے ہیں۔ جس کے باعث عوام کو اراضی کے کاغذات کاحصول نہایت آسانی سے ممکن ہو پارہا ہے۔اس نئے نظام کے رائج ہونے کے بعد کرپٹ عملے کی کوئی گنجائش نہیں رہی اور حکومت نااہل اور کرپٹ عملے کے خلاف محکمانہ کارروائی کے ساتھ انٹی کرپشن میں بھی کیس چلانے لے لئے عملی اقدامات کر رہی ہے۔ حکومت پنجاب نے لینڈ ریکارڈ مینجمنٹ اینڈ انفارمیشن سسٹم کے تحت 143 تحصیلوں میں سروس سنٹر قائم کردیئے ہیں جہاں ریونیو ریکارڈ اور کمپیوٹرائزڈ ریونیو خدمات فراہم کی جارہی ہیں۔صوبہ بھر میں لینڈ ریکارڈ کی ڈیٹا انٹری کا عمل بخوبی مکمل ہوچکا ہے جبکہ 75 فیصد مواضعات (محالات )میں ریونیو سے متعلق معلومات اور خدمات ویب سائٹ پر میسر ہیں۔ صوبہ بھر میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے تعلیم یافتہ 3ہزار سے زائد افراد کیلئے ملازمت کے مواقع پیدا ہوئے بلکہ18 ارب 28کروڑ روپے کا خطیر ریونیو کمپیوٹرائزڈ لینڈ ریکارڈ مینجمنٹ اینڈ انفارمیشن سسٹم کے تحت سرکاری خزانے میں جمع کرایاگیا۔اب وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کے متعارف کروائے لینڈ ریکارڈ مینجمنٹ اینڈ انفارمیشن سسٹم سے 30 منٹ میں محض سرکاری فیس کے عوض حاصل کیا جاسکے گا۔ اسی طرح اراضی اموار کو بذریعہ گوگل میپنگ پنجاب بھر میں پھیلایا جا رہا ہے۔ عالمی بینک نے بھی لینڈ ریکارڈ مینجمنٹ اینڈ انفارمیشن سسٹم کے اس منصوبے کو خوش آئندہ قرار دیا ہے اور کسی بھی عالمی ادارے کی جانب سے حکومتی منصوبوں کی تعریف اس کے اعلیٰ کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہوتی ہے ۔
Faisal Javed
About the Author: Faisal Javed Read More Articles by Faisal Javed: 23 Articles with 17358 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.