چہرہ روشن،اندرون چنگیز سے تاریک تر۔۔۔۔۔۔!

چہرہ روشن،اندرون چنگیز سے تاریک تر۔۔۔۔۔۔!
نظام حکمرانی انسانوں کا قدیم مسئلہ ہے۔اشرف المخلوقات میں سے بہترین نظام زندگی اورحکمرانی کا نعرہ سب سے پہلے یونانیوں نے بلند کیا تھا اور اسے اپنے ہاں رائج کرنے کی کوشش کی۔بادشاہت و ملوکیت کے اس قبل مسیح دور میں یہ نظام بہت خوشنما لگا لیکن محض سراب ثابت ہوا۔اس نظام میں ''عوام''کو حاکمیت کا حقدار مانا گیااور اقتدار اعلیٰ کو'' عوام'' میں منتقل کیا گیا۔ البتہ غلام،دوسری قوموں کے مفتوح افراد اور عورتیں اس ''عوام'' سے مستثنیٰ تھیں۔یہی نظام دنیا کی اوّلین ''جمہوریت'' کہلایا۔

موجودہ دور میں مثالی سمجھا جانے والانظام حکمرانی اسی انداز سے یونان میں متعارف ہوا۔یونانی تہذیب کے زوال کے بعد یہ رومیوں کے ہتھے چڑھا اور وہاں بھی اس نظام میں'' بہتری'' کی خاطر اصلاحات کی گئیں اور عوام کو حاکمیت دینے کی بھر پورکوشش کی گئی۔

جمہوریت کا یہ سفرتو قدیم دور میں طے ہوا لیکن جدید جمہوریت جو آج دنیا کے بیشتر ممالک میں رائج ہے' کا آغاز برطانیہ میں''Megna Carta'' سے ہوا جو1214ء میں منظور کیا گیا۔اسی بنیادپر برطانیہ کو''جمہوریت کی ماں''بھی کہا جاتا ہے۔اس دور میں یورپ میں دوہی نظام رائج تھے۔ایک بادشاہت اور دوسرا پاپائیت۔ عوام بیچاری چکی کے ان دو پاٹوں کے درمیان پس رہی تھی۔ان دونوں نظاموں کی خرابیوں سے جب عوام اکتا گئی اور ظلم سے لاچار ہوگئی تو اسی عوام نے ان نظاموں سے چھٹکاراحاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔

چونکہ یہ لوگ بادشاہت اور پاپائیت کے درمیان پس رہے تھے لہٰذا جب یہاں کے لوگ اٹھے تو انہوںنے بادشاہت کے ساتھ ساتھ پاپائیت(کلیسا کی حکومت)یعنی دینِ عیسائیت سے بھی بغاوت کا اعلان کیااورعوام کی حاکمیت کا مطالبہ کردیا۔

برطانیہ کے بعدسترہویں صدی میں فرانس میں جو انقلاب برپا ہواوہ بھی اسی بنیاد پر ہواکہ عوام کو حاکمیت دی جائے اور عوام کواقتدار اعلیٰ کا مرکز بنایا جائے۔

جان لاک،روسو،مارکس،فرائیڈاوراس طرح کے دیگر لوگوں نے اس تحریک میں اپنے اپنے نظریات پیش کیے اور بالآخر 1689ء میں بنیادی حقوق کا بل منظور کیاگیا جسے موجودہ جمہوریت کی حقیقی روح کہا جاتا ہے۔
لیکن کیا جمہوریت واقعی انسانوں کی کا بنایا ہوا کامیاب ترین نظام ہے۔۔۔۔۔۔؟ اس کا اندازہ مندرجہ ذیل سطور پڑھنے سے ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔!

جمہوریت کی تعریف کیا ہے۔۔۔۔۔۔؟ اس کے بارے میں بہت سے دانشوروں کا اختلاف ہے لیکن جومعروف ہیں ان میں سے ایک آکسفورڈ ڈکشنری اوردوسری امریکی صدرابراہم لنکن کی پیش کردہ ہے۔

''آکسفورڈ کے مطابق۔۔۔۔۔۔جمہوریت حکومت کی ایک ایسی شکل ہے جس میں اقتداراعلیٰ لوگوں کی اکثریت کے پاس رہتا ہے اور لوگ اسے یا تو بذات خودچلاتے ہیں یا پھر ان کے منتخب نمائندے۔وہ ریاست جس میں اس قسم کی حکومت ہو اسے جمہوری ریاست کہتے ہیں۔''

جبکہ امریکی صدر کے مطابق ''عوام کی حکومت، عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے،ایسے نظام حکومت کو جمہوریت کہا جاتا ہے۔''

جبکہ ایک تعریف جو کہ لارڈ بر ٹینڈرسل کی جانب سے کی گئی ہے وہ کچھ یوں ہے کہ''جمہوریت احمقوں کی حکمرانی کا دوسرا نام ہے۔''

جبکہ برنارڈشاہ کے مطابق''بہت سے نااہلوں کی طرف سے چند احمقوں کے انتخاب کا نام ہے۔''

الغرض مغربی دانشور ہی اس جمہوریت کی تعریف پر متفق نظر نہیں آتے۔بلکہ رابرٹ نامی ایک مفکر نے یہ بھی کہہ دیا کہ ہم جمہوریت کے لفظ کوجہاں اپنے مفاد میں بہتر سمجھتے ہیں استعمال کرلیتے ہیں۔الغرض یہ ایسا نظام ہے کہ جس کی کوئی متفقہ تعریف ہی نہیں ہے۔ یہ نظام درحقیقت ہے کیا۔۔۔۔۔۔؟

بیسویں صدی میں جب انسان قومیت کے جذبے سے سرشار ہوئے تو اپنی عقل پرانحصار کرتے ہوئے اس خود ساختہ نظریہ حیات میں بادشاہت اورپاپائیت سے عافیت تلاش کی تو اس کا نقصان انہیں جنگ عظیم اوّل کی صورت میں نظر آگیا۔اس کے بعد لیگ آف نیشنز قائم کی گئی وہ بھی ناکام رہی اور دوسری جنگ عظیم میں سات کروڑ انسانوں کی لاشوں اور معذوری کا تحفہ دیا گیا۔

اس صدی کے آخر میں اکثر ممالک بالآخرجمہوریت پر رضا مند ہوئے اور طے یہ پایا کہ عوام کی حاکمیت قائم کی جائے گی اور اقتدار اعلیٰ کا مرکزعوام ہوگی۔

لیکن کیا جمہوریت کا بنیادی اصول''عوام کی حاکمیت'' ممکن ہے۔۔۔۔۔۔؟ اگر یونانی معاشرے کی نظر سے عوام کی تعریف کی جائے تو عوام کی حکومت ممکن نہیں کیونکہ اس معاشرے میں عورتیں اور مفتوح قوموں کے افراد اورغلام ''عوام'' کے زمرے میں نہیں آتے تھے۔نیز کسان اور کاشتکاربھی عوام کی صف سے خارج تھے ۔لہٰذا عوام کچھ مخصوص لوگ تھے جن کی حکومت تھی۔

لیکن آج دنیا کے تمام ممالک میں ہر فرد آزاد ہے اوروہ عوام میں شمار ہوتا ہے لیکن اس دور میں بھی کیا عوام کی حاکمیت ممکن ہے؟
جمہوریت کے مطابق عوام کی حاکمیت دو انداز کی ہے۔
بلا واسطہ یابالواسطہ
بلا واسطہ

وہ جمہوریت جس میں عوام بلاواسطہ حکومت کرتے ہیں اس قسم کی جمہوریت ناپیدہے اور دنیا کے کسی خطے میں موجود نہیں کیوں کہ عوام براہ راست حکومت نہیں کر سکتے۔ یہ صرف یونان کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں ممکن تھی کہ جہاں مخصوص افراد کو حکومت کے تمام کاموں میں حصہ لیتے تھے۔

بالواسطہ
ایسی جمہوریت جس میں عوام اپنے پسندیدہ لوگوں کا انتخاب کرتی ہے اوریہ منتخب نمائندے عوام پر حکومت کرتے ہیں یعنی بالواسطہ طورپرعوام حکومت کر رہی ہوتی ہے۔

جمہوریت کی کچھ مخصوص خصوصیات ہیں آئیے! ذرا ان پر نظر دوڑاتے ہیں۔

جمہوریت کی ایک بڑی خوبی بیان کی جاتی ہے کہ اس میں اکثریت کی حکومت ہوتی ہے۔یعنی جو اکثریت چاہے گی وہی ہوگا۔ہم سب یہ بات جانتے ہیں کہ بہت سارے انسان اپنے مجموعی مفاد کے بجائے انفرادی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔جبکہ ذاتی مفاد ہر فردکے مختلف ہوتے ہیں لہٰذااکثریت کا کسی ایک نکتہ پر متفق ہوجانا نا ممکن نظر آتاہے۔اس کے نتیجے میں اختلاف پیدا ہوتا ہے۔

لیکن اگر اس کو نظر اندازبھی کردیا جائے اور یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ اکثریت متفق ہوجاتی ہے تو کیا یہ بات لازم ہے کہ اکثریت جس بات پر متفق ہو ئی وہ بات درست بھی ہو۔اگر اقلیت درست مؤقف پر ہو توپھر کیا ہوگا؟یعنی اکثریت اقلیت پرظلم کرے گی۔جیسا کہ لارڈبرٹینڈرسل نے کہا تھا''اکثریت کاجبر ایک حقیقی خطرہ ہے ۔یہ سمجھنا غلطی ہے کہ اکثریت ہمیشہ درست ہی کہتی ہے۔ہر نئے مسئلے میں اکثریت ہمیشہ غلطی کھاتی ہے''۔

یعنی جمہوریت کواس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ کیا غلط اور کیا صحیح ۔۔۔۔۔۔! غرض صرف تعداد سے ہے۔جیسا کہ اقبال نے کہا تھاکہ
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

یعنی جمہوریت میں تعداداورمقدارہمیت رکھتی ہے لیکن معیار کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔اکثریت کی حکومت میں ایک نمائندہ جیتنے کے باوجود اکثریت کا نمائندہ نہیں ہوتا۔برطانیہ جسے جمہوریت کی ماں کہا جاتا ہے وہاں بھی چالیس فیصد لوگ ووٹ نہیں ڈالتے اور60 فیصد لوگ ووٹنگ میں حصہ لیتے ہیں۔اگر دو امیدوار ہوئے اورایک کو 31 فیصد جبکہ دوسرے کو29فیصد ووٹ ملے تو31فیصد والا جیت جائے گا اور ''اکثریت'' کا نمائندہ قرار پائے گا۔کیا اس انداز سے قائم ہونے والی حکومت اکثریت کی حکومت ہے۔۔۔۔۔۔؟ اوراگر امیدوار دو سے زیادہ ہوں تو عموماً معاشرے کے 20فیصد ووٹ لینے والا امیدوار جیتتا ہے اور 80 فیصدعوام کے خلاف20فیصد ''اکثریت ''کا نمائندہ بن جاتا ہے۔

الغرض اکثریت کی حکومت تو ممکن نہیں کیوں کہ کسی ملک میں ایسا نہیں کہ وہاں حقیقی اکثریت کی حکومت آئی ہو۔سوجہاں تک سوال ہے عوام کی حاکمیت کا تو وہ بھی ناممکن ہے۔

یہ بات تو طے شدہ ہے حکومت توصرف چند لوگ کرتے ہیں تو پھر عوام کی حاکمیت کیوں کر ممکن ہے؟الغرض عوام کی حاکمیت کا جودلفریب نعرہ لگایا جاتا ہے وہ ایک سراب کے سوا کچھ نہیں ہے۔

قصہ مختصر یہ کہ جمہوریت اک ایسا طرزحکومت ہے کہ جو در حقیقت ممکن ہی نہیں ہے جیسا کہ روسو جسے جمہوریت کا بانی بھی کہا جاتا ہے اس نے کہا تھا کہ ''اگر ہم اس جمہوریت کو اس کے صحیح ترین معنوں میں استعمال کریں تو یہ جمہوریت نہ کبھی موجود رہی ہے اور نہ کبھی موجود ہوگی۔ یہ بات سراسر خلاف عقل ہے کہ حکومت کرنے والے کثرت میں ہوں اور جن پر حکومت کی جارہی ہو وہ قلیل''

موجودہ دور کی حکومت کے خواص پر اگر نظر ڈالی جائے تو یہاں بھی یہ جمہوریت' نظام حکمرانی کاڈھونگ رچانے میں ناکام نظر آرہی ہے۔اس کے خواص میں سب سے اہم سیکولر ازم ہے۔

قرون وسطیٰ میں یورپ جب جہالت کے اندھیروں میں تھا تو اس وقت کے لوگ بادشاہوں کے ساتھ ساتھ پادریوں اور مذہبی رہنماؤں سے بھی عاجز تھے۔اس لیے جب عوام کی حاکمیت کا نعرہ لگایاگیا توساتھ میں لادینیت کا نعرہ بھی بلند کردیا گیا۔یعنی مذہب کو ریاست سے جدا کردیا گیاکہ مذہب بالکل انفرادی معاملہ ہے اور اس کا ریاست کے معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

حالانکہ ایک مذہب ہی ایسی چیز ہے کہ جس کی بنیاد پر تمام انسانوں کا اجماع ممکن ہے۔مذہب کے علاوہ کوئی نقطہ ایسا نہیں ہے کہ جس پر تمام انسان متفق ہوسکیں۔اسی مذہب سے لاتعلقی کا نتیجہ آج یورپ اور تمام بڑے بڑے جمہوری ممالک میں اخلاقی قدروں کی پامالی کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے۔

جمہوریت کی ایک اور بڑی خاصیت یہ ہے کہ یہ فرد کو مکمل آزادی دیتی ہے۔یعنی فرد مکمل طور پر آزاد ہے اور اس کوہر قسم کی آزادی حاصل ہے۔ اس شخصی آزادی نے یورپ میں جو گُل کھلائے ہیں وہ اظہرمن الشمس ہے کہ آج یورپ اور ترقی یافتہ ممالک باوجودبہت سی اخلاقی قدروںسے محروم ہیں۔

لبرل ازم اورسیکولر ازم کے ساتھ سرمایہ دارانہ نظام بھی جمہوریت کا ہی ایک خاصہ ہے ۔ سرمایہ دار بھی اس جمہوریت کے نظام میں خوب پھلتے پھولتے ہیں۔اس نظام میں امیر'امیر تراورغریب 'غریب تر ہوتا چلا جاتا ہے ۔
جمہوریت کی ایک اوربڑی خاصیت اس کا پارٹی سسٹم ہے جو کہ بذات خود ایک برائی ہے۔اس کی وجہ سے ایک قوم کے افراد باہم گروہوں میں بٹ جاتے ہیں اور یوں معاشرہ تقسیم ہوجاتا ہے۔قوم کا اتحاد اس صورت میں پارہ پارہ ہوجاتا ہے۔

پارٹی سسٹم کے بعد اس کی بڑی خامی اس کا طریقہ انتخاب ہے۔کیوں کہ اس کے طریقہ انتخاب میں صرف دولت مند افراد ہی حصہ لے سکتے ہیں۔اگر کوئی غریب فرد آتا ہے تواسے سرمایہ دار افراد اور کمپنیاں سپانسر کرتی ہیں جس کے نتیجے میں یہ منتخب ہونے والا نمائندہ ان سرمایہ داروں کا محافظ ہوتا ہے جبکہ پسماندہ ممالک میں تو یہ اور زیادہ بگڑی ہوئی شکل میں ہوتا ہے۔ ان ممالک میں عموماً شعور کی کمی ہوتی ہے اور تعلیم کا بھی فقدان ہوتا ہے۔ صرف چند مخصوص افراد ہی انتخاب میں حصہ لیتے ہیں اور یوں یہاں چند مخصوص پڑھے لکھے افراد ےاخاندان اس جمہوریت کے نام پر اکثریت کاخوب استعمال کرتے ہیں ۔اس کی واضح مثال پاکستان اورہندوستان جیسے ممالک میں دیکھی جاسکتی ہے۔

الغرض جمہوریت ایک ایسا نظام زندگی ہے جو کہ انسانوں کا تشکیل کردہ ہے اور بظاہر کامیاب ہے لیکن در حقیقت ناکام ہے اوراس نے انسانوں کو سوائے غلامیوں میں جکڑنے کے اور کچھ نہیں دیا۔بقول اقبال:
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے کہ یہ آزادی کی ہے نیلم پری
Hanzla Ammad
About the Author: Hanzla Ammad Read More Articles by Hanzla Ammad: 24 Articles with 19517 views Doing M-Phil from Punjab University
A Student of Islamic Studies
.. View More