اقتدار کا ایندھن
(Tariq Hussain Butt, UAE)
ساری دنیا جانتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں
نریندر مودی کے دورِ حکومت میں بھارتی جارحیت اپنے عروج پر ہے۔یہی وہ
بھارتی جارحیت ہے جس کے خلاف کشمیری کئی عشروں سے اپنے لہو سے اپنی آزادی
کی داستان لکھ رہے ہیں۔سالہا سال سے جاری بھارتی سفاکیت کے خلاف کشمیری
اپنی جانوں کے نذرانے دے کر اپنی آزادی کو یقینی بنا رہے ہیں اور دنیا پر
واضح کر رہے ہیں کہ ان کے لئے ان کی آزادی کی جنگ ان کی اپنی زندگی سے
زیادہ اہم ہے۔دنیا کے سارے حریت پسند اپنی جانوں کو اپنی آزادی سے کم اہمیت
دیتے ہیں کیونکہ اس میں ان کی آنے والی نسلوں کا مستقبل چھپا ہوتا ہے۔حریت
پسند اپنی جانوں کا نذرانہ اپنی آنے والی نسلوں کی خاطر دیتے ہیں تاکہ ان
کی قربانیوں کے صلے میں وہ آزادی کی فضا میں امن و سکون کا سانس لے
سکیں۔آزادی دنیا کی سب سے قیمتی چیز ہوتی ہے جس کے سامنے کسی چیز کی کوئی
اہمیت نہیں ہوتی کیونکہ آزاد انسان کو کسی دوسرے انسان کے جبر کا کوئی خوف
نہیں ہو بلکہ آزادی میں وہ اپنی مرضی اور منشا کا خود مالک ہوتا ہے جب کہ
غلامی میں اس کا مالک کوئی دوسرا ہو تاہے اور دوسرے کی غلامی اسے کسی بھی
صورت میں قابلِ قبول نہیں ہوتی ۔یہ حال تو تھا اس کشمیر کا جو بھارتی تسلط
میں ہے لیکن آزاد کشمیر میں کونسا ماحول چل رہا ہے اس کا تذکرہ بھی ضروری
ہے ۔ پچھلے دنوں آزاد کشمیر میں بھی ہم نے وہی کہانی شروع کر دی ہے جو
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت پچھلے کئی عشروں سے جاری رکھے ہوئے ہے ۔
۔آزاد کشمیر میں اگلے چند ماہ میں انتخابات منعقد ہونے والے ہیں اور ساری
جماعتیں اپنی اپنی جیت کے لئے جلسے جلوسوں کا اہتمام کر رہی ہیں لیکن لگتا
ہے کہ انتخابات سے قبل ہی ماحول اتنا گرما دیا جائے گا کہ بہت سے کارکنوں
کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے پڑیں گئے۔سیاسی قیادتوں کو اس بات سے بالکل
کوئی غرض نہیں ہوتی کہ ان کے کارکن سیاسی ہنگاموں میں رزقِ خاک ہو جاتے ہیں
بلکہ انھیں اس طرح کے واقعات سے اپنے مخالفین کو نیچا دکھانے اور اپنی
سیاسی دوکان چمکانے کا سنہری موقعہ ہاتھ لگ جاتا ہے۔نکیال میں مسلم لیگ (ن)
اور پی پی پی کے درمیان چنددن قبل جو خون خرابہ ہوا ہے اس نے سیاست دانوں
کو مزید ننگا کر دیا ہے۔نکیال میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے
درمیان حالیہ لڑائی نے کشمیریوں کے بارے میں ایک نیا تاثر پیدا کیا ہے
۔کشمیری قیادت اور پاکستانی قیادت ایک دوسرے کے خلاف جس طرح کے الزامات لگا
ر ہی ہیں وہ کشمیر کی جنگِ آزادی کو نقصان پہنچانے کے لئے کافی ہیں ۔ سوال
یہ نہیں ہے کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا ہے بلکہ اہم بات یہ ہے کہ ہمارے
سیاست دان اپنی سیاسی دوکان چمکانے کے لئے کسی بھی حد تک جانے سے دریغ نہیں
کرتے۔سیاست کا مطلب اپنی بات کو دوسروں تک پہنچانا ہے اور اس کے لئے پر امن
ماحول کا ہونا انتہائی ضروری ہوتا ہے لیکن لگتاہے کہ ہمارے سیاستدانا س
اصول کو بھی پامال کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ وہ امن کے نہیں بلکہ انتشار کے
خواہاں ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ ذاتی اقتدار کی خاطر وہ کسی بھی اصول اور ضابطے
کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔وزیرِ اعظم آزاد کشمیر (چوہدری عبدالمجید)
نے پاکستانی وزیرِ اعظم (میاں محمد نوازشریف ) کے استعفے کا مطالبہ بھی داغ
دیا ہے اور وہ اس سلسلے میں آرمی چیف کو خط بھی لکھنے والے ہیں۔وہ دنیا پر
یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ حکومتِ پاکستان کشمیریوں کے ساتھ زیادتی کر رہی
ہے اور ان کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا رویہ اپنائے ہوئے ہے۔اپوزیشن لیڈر ایک
بیان دے رہے ہیں جبکہ مشیرِ وزیر عظم دوسرا بیان دے رہے ہیں۔ اخباری بیانات
میں جس طرح کی گھٹیا زبان استعمال کی جاری ہے اس پر سر شرم سے جھک جاتا ہے۔
ہر جماعت اس کوشش میں ہے کہ پنے مخالفین کو کسی بھی قسم کا موقعہ نہ دیا
جائے تا کہ اس کی جیت یقینی ہو جائے لیکن سیاست میں ایسے تو نہیں ہوتا۔،۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہاس وقت پاکستان مسلم لیگ (ن) کشمیر میں کافی
مقبول ہے اور آنے والے انتخابات میں اس کی جیت کے امکانات بڑے روشن ہیں۔پی
پی پی سندھ کے علاوہ جن علاقوں میں بھی انتخانی میدان میں اتری اسے شکست کا
سامنا کرنا پڑا ہے۔پنجاب،خیبر پختونخواہ،بلوچستان اور گلگت بلتستان اس کی
واضح مثالیں ہیں۔آزاد کشمیر میں بھی وہی کہانی دہرائی جانے والی ہے لیکن پی
پی پی کی علاقائی قیادت اس سچ کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہے۔۔وہ کسی نہ کسی
انداز میں اقتدار کے ساتھ چمٹے رہنا چاہتی ہے اور اس کے لئے اسے مخاصمت کا
ما حول راس آتا ہے تا کہ وہ مخالفین پر قتل و غارت گری کے الزامات لگا کر
سیاسی میدان مار لے۔جس طرح پورے ملک میں پی پی پی پر کرپشن کے الزامات کی
بوچھاڑ کی جا رہی ہے اس طرح کے الزامات پی پی پی آزاد کشمیر پر بھی لگائے
جا رہے ہیں اور ان الزامات کے ہوتے ہوئے پی پی پی آزاد کشمیر کا آئیندہ
انتخابات میں جیتنا انتہائی مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔پی پی پی اپنے دورِ حکومت
میں ڈلیور نہیں کر پائی بلکہ کرپشن اور لوٹ مار کے اس کلچر کا حصہ بن گئی
جو اس وقت پورے ملک پر چھا یا ہوا ہے اور جس کے خلاف عوام سراپا احتجاج بنے
ہوئے ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پی پی پی نے اپنے کارکنوں کو جس طرح سے
نظر انداز کیا ہوا ہے اس کے پیشِ نظر تو یہ کہنا انتہائی مشکل ہے کہ اسے
اپنے کارکنوں کی کوئی فکر دامن گیر ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو وہ کارکن
جھنوں نے نے اپنی ساری زندگی پی پی پی کے نام لکھ رکھی تھی پی پی پی کی
اعلی قیادت انھیں کبھی فراموش نہ کرتی لیکن ایسا نہیں ہے۔پی پی پی کی اعلی
قیادت کی جانب سے کارکنوں کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے تحریکِ ا نصاف جیسی
نئی جماعت ابھر کر سامنے آ گئی ہے جو ہر جگہ پی پی پی کے خلا کو پر کر رہی
ہے۔ لوگ جوق در جوق اس جماعت میں شامل ہو رہے ہیں کیونکہ اس کے نعرے بھی پی
پی پی کی طرح کافی دل کش ہیں۔عمران خان خود بھی ایک سحر انگیز شخصیت کے
مالک ہیں اور ان کی امانت و دیانت پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔عمران خان
کے اندازِ سیاست پر اعتراض کیا جا سکتاہے لیکن ان کے خلوص پر انگلی اٹھانا
ممکن نہیں ہے۔وہ جس جوش اور جذبے سے عوامی مطالبات کو زبان عطا کر ہے ہیں
عوام انھیں انتہائی عقیدت اور احترام کی نظر سے دیکھ رہے ہیں اور شائد یہی
وجہ ہے کہ پورے ملک میں ان کی جماعت حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے
۔پی پی پی مفاہمت کی سیاست کے بینر تلے جس طرح حکومت کی بی ٹیم بنی ہوئی ہے
عوام اسے انتہائی ھقارت کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔وزیرِ داخلہ چوہدری نثار
خان نے جس طرح اپوزیشن لیڈر (خورشید شاہ) کی مفاد پرستی کو بے نقاب کیا ہے
وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔مفاد پرستی کا یہی وہ زہر تھا جسے عمران خان
نے مک مکا کا نام دیا ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن)
آپس میں ملے ہوئے ہیں اور دونوں کا مقصد عوام کو لوٹنے کے سوا کوئی دوسرا
نہیں ہے۔وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار ٹیکس لگانے اور قرض لینے کے ماہر ہیں اور پی
پی پی مسلم لیگ (ن) کے اس ملک دشمن ا قتدار کو دوام بخشنے میں اس کی حلیف
بنی ہوئی ہے جس سے عوام کرب کا شکار بنے ہوئے ہیں ۔عوام بے شمار مسائل کے
گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں لیکن پی پی پی عملی طور پر کوئی بھی قدم اٹھانے
سے گریزاں ہے۔پٹرول و گیس کا بحران ہو یا پی آئی اے کی نجکاری کا مسئلہ ہو
وہ صرف ڈھنگ ٹپاؤ پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔۔عوام پی پی پی جیسی ترقی پسند
جماعت سے اعلی کردار کی امیدیں لگائے ہوئے تھے لیکن ان کی موجودہ قیادت نے
انھیں بری طرح سے مایوس کیاہے۔ذولفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو تو
اپنے کارکنوں کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ دینے سے گریز نہیں کرتے تھے جس کی
وجہ سے پی پی پی ملک کی سب سے بڑی جماعت تھی لیکن لگتا ہے کہ پی پی پی کی
موجودہ قیادت کو اپنے کارکنوں کی بجائے اقتدار زیادہ عزیز ہے اور شائد یہی
وجہ ہے کہ پی پی پی کے سارے پرانے کارکن آہستہ آہستہ پی پی پی دور ہٹتے جا
رہے ہیں جس سے پی پی پی ایک علاقائی جماعت بنتی جا رہی ہے۔ نلیال کا حالیہ
تنازعہ چند دنوں کے بعد بیٹھ جائیگا لیکن وہ کارکن جو سیاسی جنگ میں اپنی
جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے اس کے خاندان پر جو بیتے گی اس کا پرسانِ حال کون
ہو گا؟ ہمارے ہاں کارکنوں کو جس طرح حصولِ اقتدار کے ایندھن کی طرح استعمال
کیا جاتا ے اس کا خاتمہ ہونا ضروری ہے۔ ،۔ |
|