مثبت فکر

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

ایک بزرگ دریا کے کنارے کھڑے ایک بچھو کو ڈوبنے سے بچا رہے تھے،وہ بچھو ڈنگ مارتااور پانی میں جاگرتا،بزرگ اسے اپنے ہاتھوں میں اٹھالیتے وہ پھر ڈنگ مارتااورپانی میں جاگرتاجب متعدد بار ایسا ہو چکاتوایک میرے جیسے بے عقل اورکم فہم نے اس بزرگ سے پوچھا کہ وہ بچھوآپ کو ڈس رہاہے اور آپ اسے ڈوبنے سے بچانے کی فکر و کاوش میں مصروف کار ہیں یہ کیابات ہوئی؟؟اس پیر دانش مند نے جواب دیا کہ وہ اپناکام کر رہا ہے اور میں اپنا کام کیے جارہاہوں۔انگریزکے دور سے غلامی کی جو قباحتیں ہمارے ساتھ ابھی تک طفیلی بوٹی کی مانند چمٹی ہیں ان میں سے ایک بہت ہی بری عادت تصویرکے تاریک پہلو کو سامنے رکھنا،ہروقت تنقیدکرنا،تنقیص کے نشترچلانا،خامیوں،کمزوریوں،کوتاہیوں اور کام میں رہ جانے والی کمی کواجاگرکرتے رہنا اورکسی ایک نحیف وجہ کے باعث پور نظام کو پاؤں کی ٹھوکر پر رکھ لینا ہے اور پھر مایوسیاں پھیلاکر اپنے بزرگوں کو،قیادت کو اور اپنے ماضی کوداغدار کردینابھی اس غلامانہ عادت کاحصہ ہے ۔جب کہ انسان کی مثبت سوچ کاتقاضاہے کہ تصویرکارخ روشن مدنظر رکھاجائے اور دوسرے رخ سے بھی نظریں چرانانہیں چاہیں لیکن انسانی رویے کا یہ پہلو انسان کی اپنی ذہنیت کی غمازی کرتاہے کہ آدھے گلاس میں پانی دیکھ کر اس کے منہ سے کیا نکلتا ہے کہ آیا آدھا گلاس خالی ہے یا آدھا گلاس بھراہے؟اگر کسی انسان نے گلاس کے بھرے ہونے کی نشاندہی کی ہے تویہ اسکے خیالات اور اسکی ذہنی و فکری صلاحیتوں کے مثبت ہونے کا اظہار ہے اور اگر اس نے آدھے گلاس کے خالی ہونے کا اظہار کیا ہے توگویااس کے ذہن میں ابھی اصلاح کی کافی گنجائش موجود ہے۔

مادروطن میں جس کسی کو جب بھی کوئی دقت یاتکلیف ہو تو وہ بغیر ٹکٹ اس مقدس رشتے پر چڑھ دوڑتاہے اور سب سے پہلے ’’پاکستان‘‘کوکوسنے لگتاہے کہ اس ملک نے ہمیں کیادیا؟؟حالانکہ اسے سوچناچاہیے کہ فکر کی یہ آزادی جس کے باعث وہ اپنے ملک پر تنقیدکرنے کاحق استعمال کررہاہے یہ بھی تو اسی پاکستان نے ہی اسے دی ہے۔پاکستان نہ ہوتاتوہم آج کسی راجے مہاراجے کی رعایاہوتے ،ہماری عورتیں انکے گھروں کی صفائیاں کرتیں اور انکے مردوں کادل بہلاتیں اورہم سب کچھ دیکھ کر بھی ’’اف‘‘تک نہ کر سکتے۔ اسکی ریاست میں اسی کے بنے قوانین کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے اور ہم میں سے اکثر کسی ایسے مہاجن کے سامنے بیٹھے ہوتے جس کی چارپائی کے پائے چاندی کے ہوتے اور وہ چارپائی سونے کی اینٹوں پر دھری ہوتی اور سامنے بیٹھاہوا ہمارابرادری دار اس کی منتیں کررہاہوتاکہ سود کے عوض یہ میری جوان بیٹی لے لواوراصل زر میں اگلی فصل پر لوٹادوں گا۔وہ مہاجن جن نظروں سے اس بیٹی کو دیکھتاان نظروں سے شاید قسائی بھی بکری کو نہیں دیکھتااس کی نظروں میں کیاچھپاہوتا؟؟یہ کوئی بتانے کی بات نہیں البتہ یہ بات ضرور بتانے کی ہے اگلی فصل کا وعدہ اگلی نسل تک بھی پورانہ ہوپاتااور چند ہی سالوں بعد تاریخ اپنے آپ کو دہرارہی ہوتی۔پاکستان نے ہمیں ان ظالموں سے نجات دی ہے اور عزت و آبرو سے جینے کا حوصلہ دیاہے۔

’’لفظ مدینہ‘‘کا مطلب شہر ہے اور ’’طیبہ‘‘کا مطلب پاکیزہ ہے،یہ دونوں لفظ مل کر مدینہ طیبہ بنتے ہیں جس کی عصمت سے فرشتوں کی معصومیت بھی شرماتی ہے اور سورج بھی جس کی نورانیت کامقروض ہے،لفظ’’پاکستان‘‘کا بھی بعینہ یہی مطلب ہے،’’پاک‘‘کامطلب پاکیزہ اور ’’استان‘‘کا مطلب شہر یاوطن ہے۔اور جس طرح صاحب مدینہ ﷺکورمضان المبارک کی آخری طاق راتوں میں سے کسی ایک میں اذن نبوت عطاہوااسی طرح اس مملکت پاک کو بھی رمضان کی آخری طاق راتوں میں سے کسی ایک کواذن آزادی مرحمت ہوا،جس طرح ریاست مدینہ طیبہ ایک بہت بڑی ہجرت کے بعد وجود میں آئی اسی طرح ریاست’’پاک- استان‘‘کی کتاب کاپہلا باب بھی ہجرت سے عبارت ہے،جس طرح مشرکین مکہ نے ہجرت میں رکاوٹیں ڈالیں اور مہاجرین کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی اسی طرح تاریخ نے اپنے آپ کو یہاں دہرایا،جس طرح ریاست مدینہ طیبہ کودشمنوں نے دل سے قبول نہ کیایہی معاملہ اس مملکت خدادادکے ساتھ بھی ہے،جس طرح یہودومشرکین کوشش کرتے رہے کہ ریاست مدینہ کاوجود مٹ جائے یہ قبیح حرکات پاکستان کے خلاف بھی ہوتی رہیں اورآج بھی ہورہی ہیں اور جس طرح مدینہ طیبہ میں منافقین کاایک گروہ پہلے دن سے موجود رہا اس پاکستان میں بھی غداران وطن پہلے دن سے آج تک موجود ہیں جنہوں نے تادم تحریر دوقومی نظریے کوقبول نہیں کیا۔ لیکن ہماراایمان ہے کہ جس طرح مدینہ طیبہ تاقیامت اس دنیامیں موجود رہے گا اور قیامت کے بعد اسی کی نسبت سے ہی جزاوسزاکافیصلہ ہوگا اسی طرح اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی تاقیامت اس دنیاکے نقشے پر قائم و دائم رہے گا اورروزمحشر محض اﷲٰتعالی کے نام پر اپنے سے وفاکرنے والوں کی بخشش و نجات کا سبب بنے گا۔اس سب کے باوجود پاکستان کبھی بھی کسی طرح مدینہ طیبہ کی خاک کے برابر بھی نہیں ہوسکتا،ان سطور کی تحریر سے قطعاََ یہ مراد نہیں کہ پاکستان سمیت دنیاوکائنات کا کوئی جزو بھی مدینہ کے مساوی ہوسکتاہے۔ہمیں محض اس نسبت پر اتنا فخراور شکر ہے کہ جوسمیٹانہیں جاسکتااور ہمارادامن بھربھر کر چھلکتاہے کہ پاکستان کی عزت و احترام و وقار و وجودخاک مدینہ ونجف سے مستعار ہیں اور اس مقدس و محترم سرزمین کی مٹی ہماری آنکھوں کاسرمہ ہے۔

پاکستان کا جغرافہ بھی مدینہ طیبہ سے کتناملتاہے،نقشہ دیکھنے سے معلوم ہوتاہے کہ ریاست مدینہ طیبہ روم اور ایران کی دو سلطنوں کے عین درمیان میں واقع تھا،یہی معاملہ پاکستان کے ساتھ ہے کہ وقت کی دونوں طاغوتی طاقتیں پاکستان کے مشرق اور مغرب میں اپنی پوری قوت کے ساتھ موجود ہیں،ریاست مدینہ نے جیسے کفاراور یہودمیں سے پہلے ایک کے ساتھ معاہدہ کیااور دوسری کے ساتھ جنگ کی پھر دوسرے کے ساتھ معاہدہ کیااورپہلی کے ساتھ جنگ کرکے اس کی قوت کو توڑ دیااور اسکے بعد موقع ملتے ہی دوسری قوت کو بھی پاش پاش کر دیا،عالمی تاریخی تناظر میں دیکھاجائے تو گزشتہ صدی کے نصف آخرمیں پوری دنیاکی سیاست اسی مملکت پاکستان کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔دوسری جنگ عظیم کے بعد سرد جنگ کے آغاز سے اختتام تک اور پاکستان کا کلیدی کرداررہاہے اور قدرت اس مملکت سے وہی کام لے رہی ہے جو ریاست مدینہ سے لیاکہ پہلے ایک سامراج سے دوستی کر کے دوسرے کو ٹھکانے لگایااوراب اﷲ تعالی نے چاہادوسرے استعمارکے خاتمے کامقدمہ بھی اسی سرزمین پر ہی رقم کیاجائے گا ۔

جس طرح نصف النہارمیں سورج کو دیکھ کردھوکہ نہیں کھایا جاسکتااسی طرح اس چمکتے ہوئے سورج کی طرح یہ بات عیاں ہے اور صحیفوں میں لکھ دی گئی ہے آنے والا وقت امت مسلمہ کے عروج کادور ہوگا اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسلامی انقلاب کی قیادت ماضی کی طرح اب بھی عرب کے صحراؤں اور لق و دق ریگستانوں سے اٹھی گی اور چشم بینارکھنے والا اس امر کا مشاہدہ آج کے حالات سے با آسانی سے کر سکتاہے،جبکہ اس انقلاب کا ہراول دستہ ترکی اور پاکستان کے اہل ایمان فراہم کریں گے۔پاکستان کی یہ خوش قسمتی ہو گی کہ نظام مصطفی کی تجدیدنوکاآغازاس سرزمین سے ہوگا اور اس بات کی پیشین گوئی نبی آخرالزماں نے کر دی تھی جب آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے مشرق سے ٹھنڈی ہوا آتی ہے۔

پاکستان کا ماضی اور حال اس بات پر گواہ ہے،پوری دنیامیں اشاعت اسلام کے عظیم الشان کام کا مرکزیہی سرزمین ہے،یہیں سے بڑی بڑی جماعتیں تشکیل پاتی ہیں اور جہاں اپنے ملک کے چپے چپے تک پہنچتی ہیں اور ایسے ایسے مقامات تک پہنچتی ہیں جہاں سالوں بعد ہی کوئی سرکاری کارندہ جاتاہولیکن یہ جماعتیں وہاں وہاں پوری تندہی سے اورجذبہ ایمان سے پہنچتی ہیں اور مسلمانوں کو بھلایاہوا سبق یاد دلاتی ہیں۔اور اسی مملکت کی سرزمین سے مبلغین کی جماعتیں پوری دنیاکی طرف جاتی ہیں اورجانے والے بتاتے ہیں کہ اتنے دوردراز تک جاتے ہیں جہاں کی دنیا شاید آج سے صدیوں پیچھے کے وقت میں رہ رہی ہے۔یہ جماعتیں پہلے جہاز پر اپنے سفر کاآغاز کرتی ہیں،پھر ٹرین اور بسوں پر پھرریڑھوں اور گدھوں پر اپنا سامان رکھ کر میلوں پیدل چلتے ہیں اور پھر چین،افریقہ اور وسطی ومشرقی یورپ کے دوردراز علاقوں میں پہنچتے ہیں جہاں کے مسلمانوں کووقت کے طاغوتوں نے یہ یقین دلادیاہوتاہے کہ امت مسلمہ کاوجود اس دنیاسے ختم ہوچکاہے۔گزشتہ صدی کے آخر میں جہاد کی تاسیس نو ہوئی اورپوری دنیامیں جہاں جہاں جہاد کی صدابلند ہوئی اسکا بیس کیمپ بنناپاکستان جیسی خوش نصیب سلطنت کے حصے میں آیا۔

ہر وقت تنقید کرنے سے بہتر ہے کہ اس اپنی سرزمین کے روشن پہلو سامنے رکھ اس سے محبت کی جائے اور آنے والی نسلوں کے دلوں میں اسکی محبت پیداکی جائے۔پاکستان سے محبت اصل میں نظریہ پاکستان سے محبت ہونی چاہیے۔ہم کسی دھرتی کے بیٹے نہیں ہیں اور نہ ہی کسی مٹی کے پجاری ہیں یہ سب ہندوانہ خیالات ہیں،ہم ایک خدا کے ماننے والے ہیں اور اسی لیے پاکستان سے محبت کرتے ہیں کہ اس ملک کاجوازاس نعرے میں پوشیدہ ہے کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا۔لاالہ الااﷲ‘‘۔اس عالی فکر کے حامل اور اس روشن کردار کے امین ملک کو اپنی منفی سوچ کانشانہ بناناکسی بھی طورمناسب نہیں ہے۔غداران قوم اگرچہ موجود ہیں اور حکمرانوں سے عوام تک وہ ملک کے ہرطبقے میں موجود ہیں لیکن اگر کوئی عضوبیمار ہوجائے توسارے جسم پر نشتر نہیں چلائے جاتے اسی طرح اپنے ملک میں وائرس اور بکٹیریاکے حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے پورے ملک کو زخمی نہیں کرناچاہیے۔نشترضرورچلناچاہیے لیکن سروں کی اس فصل پر جو پک چکی ہے اور جس کے کٹنے کا وقت قریب آ چکاہے۔
 
Dr Sajid Khawkwani
About the Author: Dr Sajid Khawkwani Read More Articles by Dr Sajid Khawkwani: 470 Articles with 572035 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.