لیاری گینگ وار کا مرکزی کردار عذیر بلوچ
رینجرز کے ہا تھوں گرفتار ہو گیا وہ جس نے قا نون نا فذ کر نے والو ں کو
ناکوں چنے چبوا دیئے جس کی وجہ سے لیاری جنگ کا میدان بن گیا تھا قا نون نا
فذ کر نے والے اداروں کے ساتھ بھاری نفری واسلحہ بھی لیاری کے قلعے کو
تسخیر نہ کر سکے تھے جس کی اجازت کے بغیر کو ئی سیاسی لیڈر بھی لیا ری میں
دا خل نہ ہو سکتا تھا حکومت نے اس کے سر کی قیمت بیس لا کھ لگا ئی مگر اسے
کو ئی نہ پکڑ سکا تھا ماما فیضو کا چہیتا بیٹا جو کبوتر بازی کا شوقین تھا
جسے سیا ست کی چمک دھمک متا ثر کر تی تھی شائد وہ بڑا سیاست داں بننے کے
خواب دیکھتا ہو اس نے ایک بار الیکشن میں حصہ بھی لیا اور ہار گیاوہ شائد
مستقبل میں سیاست داں بن بھی جا تا لیکن بد قسمتی کہ اسے باپ کے قتل کے بعد
ارشد پپو سے بدلہ لینے کے لئے جرم کی دنیا میں قدم رکھا پھر گینگ وار کا
ایک منفی کر دار بن گیا وہ پیپلز امن کمیٹی کاروح رواں تھا پیپلز پا رٹی سے
وا بستہ تھا سو شل میڈیا ، ٹی وی اور اخبا رات چینخ چینخ کر عزیر بلوچ کو
پیپلز پارٹی کا جیالا ثابت کرنے کے شواہد سے ثابت ہیں ۔چیل چوک کے قریب
اپنے بڑے سے محل نماگھر میں پیدا ہو نے والے عزیر بلوچ جس کا دعویٰ ہے کہ
وہ سو نے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوا اس کی آسودہ حال محل نما گھر میں
لئے گئے انٹر ویو اور آج ہتھکڑی لگے روپ میں نما یاں فرق محسوس کیا جا سکتا
ہے کہاں وہ سفید پگڑی با ندھے ایک بلوچ سردار کی مانند اونچا شملہ کئے پر
اعتما د شخص اور کہاں ایک ہا رے ہو ئے شکست خوردہ انسان کا روپ لئے عزیر
بلوچ آج سلطا نی گواہ بن کر تما م سچا ئیاں سنانے کو تیارہے ہر ایک چہرہ بے
نقاب کرنے کو را ضی ہے اسوقت وہ ایک زخمی شیر ہے اور زخمی شیر زیادہ خطر
ناک ہو تا ہے شائد وہ چا ہتا ہو کہ کچھ تو اس گناہ کے دلدل میں مو جود بڑے
مگر مچھوں کا صفایا ہو وہ کیفر کردار تک پہنچے شائد اس طرح اس کے کئے گئے
جرائم کا ازا لہ ہو سکے جو اس کی مو جودگی میں لیاری پر بیتے اوراس میں اس
کا کردار بھی شامل تھا جب ہر گھر میں صف ماتم بچھی ہو ئی تھی لیاری گولیوں
،بم دھما کوں کی گو نج سے لرز رہا تھا کو ئی پا کستانی شہری لیاری کے اندر
جا نے کو تیا ر نہیں تھا وہاں جان کا خطرہ تھا گو یا وہ علا قہ غیر کا روپ
اختیار کرچکا تھابے شمار ما ؤوں نے اپنے جوان بیٹے کی لا شوں پر بین کئے
حکومت سے انصاف کی بھیک بھی مانگی لیکن حالات جوں کے توں رہے اربا ب اختیا
ر بے اختیار جو تھے پھر تنگ آکربر سوں سے مقیم اہلیان لیا ری نے وہاں سے
نقل مکانی شروع کر دی مگر اس مسئلے کا تدارک نہ ہو سکا بلا شبہ رینجرز کا
بڑا کار نامہ ہے جو وہ لیاری میں امن قا ئم کر نے کے لئے شروع کیا ہے ۔
لیار ی عر صہ دراز سے بحران کا شکار ہے تو اسمیں قصور کس کا ہے ان کا جو
اپنی غریبی و مفلسی کے با عث مسا ئل میں گھرئے ہو ئے ہیں اور پھر بھی اپنی
وفاداری نبھا ئے جا رہے ہیں جن کے دلوں میں پیپلز پا رٹی بستی ہے اسی کی
محبت کے اسیر ہیں اس وفادار بیوی کی ما نند جو لا پرو ا، خود غرض شو ہر کی
منا فقت، بے وفا ئی ،مار ذلت سب بر داشت کر تی ہے لیکن اس کے خلاف کچھ سننے
پر آما دہ نہیں ہو تی حتٰی کہ اس کی اپنی نسلیں بھی بے روزگاری ، جہا لت
اور ذلت کے گہرے گھڑے میں دفن ہو رہی ہے جن کا مستقبل دھشت گر دی، نشہ ،
جواء، بھتہ خوری، اغواء برا ئے تا وان اور ما فیا کے عمیق گھڑوں میں مدفن
ہو تی جا رہی ہے محبت کی ایسی مثا لیں آج کے دور میں کم ہی دیکھنے کو ملتی
ہیں ایسا محسو س ہو تا ہے کہ لیا ری پاکستان کے اتنے بڑے اور پر رو نق شہر
کر اچی کا حصہ نہ ہو بلکہ کسی دور افتادہ علا قہ غیر کا حصہ ہو جہاں ز ندگی
کی بنیا دی سہولتیں پہنچا نا نا ممکن ہوبے شک یہ سب کو ئی ایک دن کا شا
خسانہ نہیں اسی کی دھائی تک تو سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا پھر جو ئے کے اڈے قا
ئم ہو نے شروع ہو ئے جگہ جگہ افیم اور ہیرو ئن اور شراب جیسی منشیات کی
تیاری کی بھٹیاں لگا ئی گئی بے روزگاری غربت کے ستا ئے لو گوں نے اس کام
میں شامل لو گوں کی معیار زندگی تبدیل ہو تے دیکھی وہ علا قہ جہاں ہر تیسرا
گھر مسقط، دمام قطر سے روز گار کے حصول کا خواب دیکھا کر تا تھا اب اپنے ہی
علا قے میں اس قدر آسان کا روبا ر کی کشش سے کیوں نہ فا ئدہ اٹھا تا بے روز
گارنو جوان اس کی جانب کھنچے چلے آئے ارباب اختیار بھی ان کی سر پرستی کر
نے لگے کہ بہتی گنگا سے کون ہا تھ نہ دھو نا چا ہتا تھا یہ سلسلہ سالوں سے
جاری رہایہ بلکل ایک فلمی کہانی جیسی لگتی ہے کہ ایک جا نب اقتدا ر کے مزے
تو دوسری طرف منشیات کی کمائی سے حصہ بھی وصول کر تے رہے لا لچ کچھ زیا دہ
بڑھا تو مزید کا روبا پھیلا نے کی سعی کی گئی اغوا برئے تاوان اور بھتہ
خوری جیسے منا فع بخش کا روبا ر کی جانب بھی تو جہ دی گئی اس کے ساتھ مختلف
گروہ قبضے کی جنگ میں مصروف ہو ئے ایک ہی علاقے کے رہنے والے ایک دوسرے کے
دشمن بن گئے وجہ صرف اس سارے نا جا ئز کا روبار کا حصول اور قبضہ تھا -
وہ پالیسی میکرز جن کا کام لیاری کے نو جوانوں کے ہا تھوں میں قلم پکڑانا
تھا انھیں با عزت روز گاردینا تھا انھوں نے ہی ان کے ہا تھوں میں بندوق
تھما دی جب سجن ہی تھا نیدار بن جا ئیں تو پھر ڈر کس با ت کا تھا اپنی
سیاست چمکا نے کے لئے یہ دوسروں کے لئے استعما ل ہو نے لگے عوام یہ سوچ کر
انھیں ووٹ دیتی رہی کہ یہ ہماری پسما ندگی دور کر نے میں پر خلوص ہے
ایوانوں میں پہنچ کر ہماری بے روزگاری ،جہالت کی زنجیروں سے نجات دلا ئے گی
اب یہاں آکر کہانی حقیقت کا روپ دھا رتی ہے اگر ہم فرض کر لیں کہ عزیر بلوچ
میڈیا پر آکر تما م سچا ئی بیان کر بھی دے تو کیا گناہ کا ر اپنے انجام کو
پہنچ جا ئیں گے عزیز بلوچ کا کھرا سچ ایک خاردار اور طویل را ستہ ہے جس کے
دو سری جانب مجر موں کو کیفر کر دار تک پہنچا نے کے لئے منزل کٹھن ہی نہیں
نا ممکن بھی نظرآتی ہے۔ میں مایوس تو نہیں مگر خوش فہم بھی نہیں بننا چا
ہتی ہے ان اینکروں کی طر ح جو ٹی وی پرصبح شام عوام کو اپنی چکنی چپڑی با
توں سے ریٹنگ بڑ ھانے کے لئے خوش فہمی کا انجکشن دیتے ہیں عوام اس نشے میں
محظو ظ ہوتے ہیں کہ ہماری عدا لتیں جلد اور انصاف پر مبنی فیصلے سنا تی ہیں
گواہ آزاد و بے فکر ہو کر گو اہی دیتے ہیں قا نون نا فذکر نے وا لے ادارے
مجرم کو کیفر کر دار تک پہنچا تے ہیں کاش یہ حقیقت ہو سکتا لیکن کیا کریں
ہمارے قا نونی راستوں میں بچھی با رودی سرنگیں ایک دن کا شا خصانہ نہیں
ببول کے اس کا نٹے کو ایک تنا ور در خت بنا نے میں ہما رے پا لیسی میکرز نے
بڑی محنت سے سینچا ہے لیاری کے حالات خراب ہو نے اور سردار عزیر بلوچ سے
گینگ وار لیڈر بننے میں بر سوں کی نا انصا فیاں ہیں بقو ل شا عر وقت کر تا
ہے بر سوں پر ورش ۔۔ حا د ثہ اک دم نہیں ہو تا ۔ |