ارادہ باندھ رہا تھا کہ آج لکھوں گا کہ ہم
اپنے وجود سے بیگانے کیوں ہو رہے ہیں؟ ہم خود سے دور کیوں بھاگ رہے ہیں؟ ہم
اپنے ماضی کو کیوں بھلانے کے مشن پر لگے ہوئے ہیں؟ ہم نے اپنے ملکی کھیل
کبڈی سے کیوں منہ موڑ لیا ہے اسے وہ توجہ کیوں دینا ترک کیا ہے جو ہم غیر ،لکی
کھیل کرکٹ کو دے رہے ہیں…… میں کرکٹ سمیت کسی بھی دوسرے کھیل کو اپنانے کے
خلاف نہیں ہوں مگر مجھے اعتراض اس بات پر ہے کہ ہم اپنی کھیلوں کو کیوں
فراموش کر رہے ہیں یہ وہ کھیلیں ہیں جن کوہمارا تاریخی ورثہ ہونے کا درجہ
حاصل ہے۔ مثال کو طور پر کبڈی، کشتی ،ہاکی،والی بال،فٹ بال،گلی ڈنڈا.واجو
اور دیگر مقامی پاکستانی کھیلوں کو کیوں نظرانداز کرتے جاتے ہیں۔ پھر خیال
آیا کہ نہیں ملک کو قرض کے بوجگ تلے دبانے پر کچھ طبع آزمائی کی جائے تو
اپوزیشن لیڈر اور چودہری نثار علی کا پھڈا کھڑا ہوگیا اس پر لکھنے کے لیے
ذہن کو آمادہ کر ہی رہا تھا کہ جناب وزیر اعظم کا بہاولپور سے تہلکہ خیز
خطاب نے سوچوں میں غرق کردیا ،ایسا ہی خطاب 199اور اس سے پہلے کے ادوار میں
بھی سامنے آئے تھے۔ جن میں میاں صاحب نے فرمایا تھاکہ ’’ اگر ہمیں مدت
اقتدار مکمل کرنے دی گئی تو ہم ملک کی تقدیر بدل دیں گے‘‘ میاں صاحب کا ان
خطابات میں سارا زور ’’اگر‘‘ پر تھا۔
آج بہاولپور میں مسلم لیگی کارکنوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ’’ نیب معصوم لوگوں
کو پکڑ رہا ہے عزتیں ،اچھالنا ٹھیک نہیں،نیب والے یہ نہیں دیکھتے کہ کیس
صحیح ہے یا نہیں اور معصوم لوگوں کے گھروں اور دفاتر میں گھس جاتے ہیں،
چیئرمین نیب اس بات کا نوٹس لیں بصورت دیگر حکومت ضروری اور قانو نی
کاروائی کرسکتی ہے ‘‘ وزیر اعظم نے اپنی بات میں نیب کے ہاتھوں گرفتار
لوگوں کو معصوم قرار دینا اہم سمجھا جا رہا ہے۔ابھی وزیر اعظم کے بعد اگلے
روز سترہ فروری کو پنجاب کے وزیر قانون و داخلہ رانا ثنا ئاﷲ نے بھی نیب کو
ہاتھوں ہاتھ لیا اور ایک پریس کانفرنس کے ذریعے تڑی لگائی کہ اگر نیب نے
کسی جماعت کے افراد کی گرفتاریوں کا توڑ کرنے کے لیے کارروائی کرنے کی کوشش
کی توہماری طرف سے انہیں ایسا نہیں کرنے دیا جائیگا۔
رانا ثناء اﷲ اور وزیر اعظم کی کہی ہوئی باتیں آج مورخہ 17.02.2016کی شب
میڈیا نے بار بار اپنے ناظرین کو سنائیں اور دکھائیں،ایسا لگا کہ جیسے
میڈیا کو ایک اور ہاٹ ایشو ہاتھ لگ گیا ہے اور واقعتا تھا بھی ایسا ہی……بعض
لوگوں کا یہ کہنا بھی سچ ہے کہ میڈیا پر بھی محض چند لوگ ہی بطور مہمان
بیٹھے ہوتے ہیں ان کے چہرے دیکھ دیکھ کر ناظرین کی طبیعتیں خراب ہونے لگی
ہیں ،انکا سیاسی جماعتوں کی قیادت سے سوال بھی بجا ہے کہ کیا انکے پاس صرف
یہی گھسے پٹے چہرے رہ گئے ہیں؟سیاسی قیادت کو چاہیے کہ وہ وہ اپنے ارکان
کیایسی تربیت کا بندوبست کریں کہ ہر روز نیا فرد میڈیا پر اپنی پارٹی کے
موقف کے ہمراہ عوام کی راہنمائی کے لیے موجود ہو۔
تحری انصاف کے دھرنوں کے ایام کے بعد پہلی بار مسلم لیگ کے راہنما اور وزرا
کے چہروں سے پریشانی کی سیاہی سے تحریر دکھائی دیا کہ دال میں کچھ کچھ نہیں
بہت کچھ کالا کالا ہے۔ اور حکومت خادم اعلی سمیت پریشان ہے ،گھبراہٹ کا
شکار ہے۔ میرے خیال میں اورنج ٹرین منصوبے کے کسی ایک ٹھیکیدار کی گرفتاری
اتنا بڑا ایشو نہیں ہو سکتا کہ وزیر اعظم خود اسکا نوٹس لیں اور اگر وزیر
اعظم کی تلملاہٹ اور گھراہٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں جس
قدر میں سمجھا بیٹھا ہوں کیونکہ اورنج ٹرین کے منصوبے پر کوئی ایک ٹھیکیدار
تھوڑا کام کر رہا ہوگا یقیننا اس منصوبے کی جلد تکمیل کے لیے ایک سے زائد
ٹھیکیداروں کی خدمات حاصل کی گئیں ہوں گی۔مجھے اور آپ سب کو وزیر اعظم نواز
شریف کی پریشانی کو سمجھنا چاہیے اور انہیں اس پریشانی سے نجات کے لیے
’’گراور ہنر‘‘ حکمت و دانائی‘‘ کی باتیں بتانی چاہئیں نہ کہ انکا تمسخر اڑا
کر انکی پریشانیوں میں اضافہ کیا جائے۔
یار لوگوں نے ایک نیا پھڈا کھڑا کردیا ہے اور میڈیا مین ایک سوال رکھ دیا
ہے کہ کیا حکومت کے لیے دو ہزار سولہ خطرے کی گھنٹی ہے؟ یہ بھی بحث چھیڑ دی
گئی ہے کہ کیا دوہزار سولہ حکومت گزار لے گی؟ یہ بحث کیوں شروع کی گئی ہے
،کیا اس کے پس پردہ بھی تو ’’بااختیار ‘]لوگ تو نہیں ہیں؟ کچھ بھی ہو
ایکبات ضرور کہی جا سکتی ہے کہ جمہوریت کو ملک کے لییزہر قاتل قرار دینے
والے عناصر مشرف کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹ جانے اور متحد
سیاسی قوتوں کو ایک دوسرے کے مقابل لانے میں کامیاب ہوئے ہیں……خیر میں واپس
اپنی بات کی جانب آتا ہوں کہ منظل لوگ کامیاب ہیں اور غیر منظم اور لوگوں
کے بے ہنگم ہجوم کے آسرے ملک میں انقلاب لے آنے اور ملک میں دودھ کی نہریں
بہانے کے دعوے کرنے والے کبھی اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔
اپنے حکمرانوں (ان میں فوجی اور سیاسی دونوں قسم کے حکمران شامل ہیں)کے
پسندیدہ اور لاڈلے وزیر داخلہ چودہری نثار علی خان نے دعوی کیا ہے بلکہ آج
سے چند ماہ قبل نومبر دو ہزار پندرہ میں پنجاب کے وزیر داخلہ رانا ثنا اﷲ
خاں کے بیان کو دہرایا ہیجس میں انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان میں داعش کا
کوئی وجود نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے اس دعوے کے ثبوت میں یہ دلیل پیش کی ہے
کہ داعش عرب تنظیم ہے البتہ انہوں نے اتنا تسلیم کیا ہے کہ یہاں کو لوگ
انکا نام استعمال کرکے کارروائیاں کرتے ہیں……حکومت کو اپنی صفیں درست کرنے
کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اور ایسے منسٹر رکھنے کا کیا فائدہ جنہیں
دہشتگردوں کے نیٹ ورک کے بارے مین علم نہ ہے۔ ایسے منسٹر حکومت کو سہارا
دینے کی بجائے اسے کمزور کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ آخر میں میں یہی کہوں گا
کہ نیب کے حوالے سے رانا ثناء اﷲ اور وزیر اعظم نواز شریف کے مسائل کو
سمجھا جائے ،وزیر اعطم صاحب سے بھی درخواست ہے کہ وہ پاکستانی قوم کو انکے
ماضی سے دور نہ کریں ان سے چھینی گئیں دیسی کھیلیں انہیں واپس لوٹائیں ہاکی
،والی بال، باسکٹ بال،فٹ بال، کبڈی،دیسی کشتی جو ہمارے گاماں پہلوان ،اکی
پہلوان اور دیگر پہلوانوں کا ورثہ ہے انکی بحالی کے لیے اقدامات کیے جائیں،
جتنا سرمایہ کرکٹ اور دیگر بدیسی کھیلوں پر صرف کیا جا رہا ہے اگر انکا
آدھا بھی مقامی کھیلوں پر خرچ کیا جائے تو یہ کھیلیں بحال ہو سکتی ہیں اور
ہمارے کھیل کے میدان آباد ہو سکتے ہیں۔ |