شائستہ کشمیری اور یاسمین فلسطینی کا مظلومانہ قتل

 خونِ مسلم بہانے والوں سے پوچھنے والے آپسی جنگ میں مصروف
14فروری2016ء کے روز دنیا کے دو متنازع مسلم خطوں فلسطین اور کشمیر میں دو معصوم بیٹیوں کا مظلومانہ قتل ہوا اگر چہ ان دونوں خطوں میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔کشمیر میں 14فروری 2016ء کے دن دو نوجوان لڑکوں اور ایک نوجوان لڑکی کو شہید کردیاگیا ۔ایک نوجوان عادل احمد جو لشکر طیبہ کے ساتھ وابستہ تھا اپنے دو دوسرے ساتھیوں کے ساتھ فوج اور پولیس کا محاصرہ توڑتے ہوا شہید ہوا ۔اسی بیچ علاقے میں عوامی احتجاج شروع ہوا ۔پولیس اور فوج نے مشتعل ہو کر راست فائرنگ کے ذریعے 19سالہ انجینئر نگ طالب علم دانش فاروق اور 22سالہ طالبہ شائستہ حمید کوشہید کر ڈالا ۔اتنا ہی نہیں بلکہ علاقے میں خو ف و دہشت قائم کرنے کے لئے بے تحاشا فائرنگ اور ٹائر گیس شیلنگ کر کے ڈیڑھ درجن عام شہریوں کو شدید زخمی کردیا ۔یہ تو ہوئی کشمیر کی خبر ،ٹھیک اسی دن ایک اور دہشت گرد ملک اور قوم نے فلسطین میں پانچ فلسطینیوں کو شہید کر ڈالا جن میں یاسمین نامی ایک نوجوان طالبہ کو گولی مار کر تب تک سڑک پر بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا جب تک اس کے جسم سے سارا خون نکل کر سڑک پر بہہ نہ گیا اور اسرائیلی دہشت گرد اس بے بس بیٹی کی حالت پر رحم کھانے کے بجائے اس کی بے بسی اور مظلومیت کوکیمروں سے فلماتے رہے ۔

مسلم اُمہ کس سے شکوہ کرے گی اور کون اس کی بے بسی اور بے کسی پر رحم کھائے گا ۔اس کے حکمران جہاں بے غیرت ہیں وہی وہ بے رحم بھی ہیں ۔ان کے تمام تر بہادری اور غیرت تبھی اپنے جوبن پر نظر آتی ہے جب ان کا مقابلہ کسی مسلمان سے ہو ۔مسلمان کو شکست دینے، ذلیل و رسوا کرنے، اغوا کر کے معلوم سے نامعلوم بنا دینے ،اس کی عزت تارتار کرنے ،جائیدادضبط کرنے، جاسوس مسلط کرنے ،بہو بیٹیوں کو ذلیل کرنے ،بیٹوں کو باپ کے سامنے قتل کرنے ،پروپگنڈا کے بل پر بد نام کرنے اور ہر وہ طریقہ تعذیب و تشدد جو انسانی تصور میں آسکتا ہے آزما کر یہ مسلم حکمران ’’ہٹلرو چنگیز‘‘کو بھی پیچھے چھوڑ دیتے ہیں ۔مگر جب معاملہ کسی نمرود و فرعون کا ہو تو یہی ’’بہادرانِ ملک و ملت‘‘بھیگی بلی بن کر دم ہلاتے ہو ئے نظر آتے ہیں ۔دورِ حاضر کا نمرود جہاں امریکہ اور اس کے مغربی حلیف ہیں وہاں بھارت کا آج کا حکمران طبقہ اپنے نظریات و تصورات کو لیکر کسی فرعونِ وقت سے کچھ کم نہیں ہیں ۔اسرائیل کی فلسطین اور بھارت کی کشمیر میں جاری نسل کشی پر کسی بھی مسلمان ملک کی طرف سے مؤثر آواز نہ اٹھنے کی وجہ سے دونوں ممالک کی اپنے خطوں میں غنڈہ گردی عروج پر پہنچی ہوئی ہے ۔

مسلم دنیا یوں تو پچاس سے زیادہ ممالک کے مجموعے کا نام ہے مگر المیہ یہ ہے کہ ان کی نہ کوئی حیثیت ہے اور نہ ہی کوئی توقیر ۔ان کے حکمرانوں کی غلط کاریوں نے انھیں بے عزت اور ذلیل کر رکھا ہے ۔یہ اﷲ کے دیئے ہوئے بے شمار وسائل کا بے دریغ استعمال کرتے ہو ئے مسلم اُمہ کی خدمت کے بجائے نمرود وقت کی غلامی میں جٹے ہو ئے ہیں ۔ان کے بڑے کارناموں میں ایک اہم کارنامہ ’’بہارِ عرب ‘‘کے بعد یہی دکھائی دیتا ہے کہ انھوں نے پر امن اور ذرخیز ممالک کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ۔انھوں نے عالم اسلام میں اسلامی تحریکات کو کچل کے رکھدیا ،انھوں نے عالم عربی کو ’’مسلکی آگ‘‘میں جھونک کر فنا کر ڈالا ،انھوں نے اتحاد اُمت کی ’’مقدس چادر‘‘کو تار تار کردیا ۔سب سے بڑھکر المیہ یہ کہ ان ’’بد معاشوں‘‘ نے عالم اسلام کے دو اہم ترین مسائل ’’کشمیر اور فلسطین‘‘کو پس پشت ڈالکر اس طرح نظر انداز کردیا گویا کہ یہاں کچھ ہو نہیں رہا ہے ۔شام ،عراق،یمن ،لیبیا اور دیگر کئی ممالک میں ’’مصنوعی بحرانوں‘‘کو وہ اہمیت دلا دی گئی کہ پورا عالم اسلام اس جنگ کی لپیٹ میں آچکا ہے ۔میرا یقین ہے کہ طویل محنت کے بعد اسرائیلی ،برطانوی ،امریکی اور بھارتی تھنک ٹینکس کی سفارشات کو جب ’’متحدہ عالمی طاغوت‘‘نے مل کر عملانے کا آغاز کیا تو عالم اسلام کی کوکھ سے نہ صرف نئے نئے گروہ اور فرقے وجود میں آگئے بلکہ ’’نمرودانِ عالم‘‘کو پر سکون ماحول فراہم کرنے کے لئے بعض سادہ لوح اسلام پسند مسلمان تحریکوں نے اس ’’بے سود جدال‘‘کو جہادِ اکبر سمجھ کر وہ تماشا برپا کردیا کہ خود اسرائیل اور امریکہ بھی اس کے نتائج دیکھ کر دنگ نظر آتے ہیں۔

حیرت بالا ئے حیرت یہ کہ باہمی جنگ و جدال اور فسادات نے ’’جہادِ فی سبیل اﷲ‘‘کا مقدس نام اور فتویٰ حاصل کرلیا ہے ۔اب نہ کسی کو کشمیریوں کی بھارت کے ہاتھوں قتل ہونے کی فکر کسی کو دامن گیر ہے اور نہ ہی اسرائیلیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کی ۔تعجب خیز یہ کہ اب کشمیر اور فلسطین پر کوئی بات کرنے والا بھی نظر نہیں آتا ہے آخرکیوں؟شام و عراق کی جنگ نے مسلم دنیا کو اس طرح جھکڑ لیا ہے کہ پوری دنیائے کفر میں جہاں کہیں بھی مسلمان مارے جا رہے ہیں ان کی کسی کو کوئی فکرہی نہیں ہے ۔ہر ایک دوسرے کو کافر اور مرتد قرار دینے کی فکر میں مضطرب اور بے چین نظر آتا ہے مگر ماتم کیجیے اس ’’دینداری‘‘پر کہ مسلمانان عالم ایک دوسرے سے لڑ جھگڑنے سے محظوظ تو ہو رہے ہیں مگر ’’کفار اور مشرکین‘‘کا نام سامنے آتے ہی ان پر ریشہ طاری ہو تی ہے ۔صدمے کا مقام ہے کہ سوشل میڈیا پر ’’جہاد فی سبیل اﷲ ‘‘میں سرگرم مسلم نوجوان ہی نہیں بڑے بڑے جبہ و دستار والے نامی دانشور اور علماء یہاں تک فرماجاتے ہیں کہ فی الحال مشرکین و کفار کے خلاف تحریکات کی سرگرمیوں کو ملتوی رکھتے ہو ئے آپسی ناسور کو مٹادینا چاہیے اور مراد اسے صرف یہ ہوتی ہے کہ شیعہ سنیوں کو اور سنی شیعوں کو ،بریلوی دیوبندیوں کواور دیو بندی بریلویوں کو ،سلفی غیر سلفیوں کو اور غیر سلفی سلفیوں کوتہ تیغ کر ڈالیں اور میری ذاتی سوچ یہ ہے کہ آج کے دور میں ’’عالمی متحدہ طاغوت‘‘کی اسے بڑھکر کوئی خدمت نہیں ہو سکتی ہے ۔

وہ دن لُد گئے جب ہم اس سبھی ڈرامے کے پیچھے کفار کا ہاتھ تلاش کرتے تھے اور کسی جستجو کے بغیر ہی ہمارے علماء اور دانشوروں کو اس میں کفار و ملحدین کا ہاتھ دکھائی دیتا تھا مگر اب معاملہ کافی مختلف ہے آج کی تاریخ میں کوئی یہ قبول کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہے کہ یہ جنگ امریکی ،اسرائیلی ، بھارتی اور مغربی کوششوں اور متفقہ نقط نگاہ کا نتیجہ ہے۔دیندار وں کی ایک بڑی تعداد باضابط کشمیر اور فلسطین میں برپا جنگوں کو غیر ضروری اور فضول قرار دیتے ہو ئے ہزار ہا دلائل ،انکشافات اور اکتشافات پیش کرتے ہو ئے یہاں تک فرماتے ہیں کہ یہ غیر اسلامی ،غیر شرعی اور زمینوں کے حصول کی جنگیں ہیں ۔عراق ،شام اور یمن میں اہل تشیع کے اثر ونفوذ کے خاتمے کے لئے ساری سنی دنیا ’’کشمیر و فلسطین‘‘سے بے رغبت ہو چکی ہے ایسے میں اگر کشمیر میں شائستہ اور فلسطین میں کوئی یاسمین روز قتل ہو جائیں تو نیتن یاہو اور نریندر مودی سے کون پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہے ۔اس لئے کہ عراق و شام کی خوفناک جنگ ہمیں روزانہ لاشوں کے اتنے تحفے دیتی ہے کہ کشمیر و فلسطین کا پس منظر میں چلا جانا حیرت اور صدمے کی بات نہیں ہو سکتی ہے ۔آخر میں بس یہی عرض کرنے کی جسارت کر سکتا ہوں کہ کاش یہ کارستانی ’’سیکولروں اور لبرلوں‘‘کی ہوتی تو دینداروں نے اسلامی لٹیریچر کھنگال کھنگال کر فتوؤں اور دلائل کے ایٹم بم برسائے ہوتے مگر یہ تو خالص ان کا برپا کردہ تماشا ہے لہذا کون ان سے پوچھ سکتا ہے ؟آخر ہر ایک کو اپنے ایمان سے پیار ہوتا ہے جو دورِ حاضر میں ’’ملاؤں‘‘کی سند کے سوا قبول نہیں ہوتا ،اگر کسی منچلے نے ان کے مزاج کو بگاڑ کر کوئی حماقت کر ڈالی تو اس کی خیر نہیں اس لئے کہ دنیائے اسلام میں اس وقت اگر کوئی فتویٰ سب سے سستا ہے تو وہ ہے ایک دوسرے کو کافر اور مرتد قرار دینا؟!
altaf
About the Author: altaf Read More Articles by altaf: 116 Articles with 93770 views writer
journalist
political analyst
.. View More