قانون ،فیصلہ، رائے

 قانون، فیصلہ، رائے اسی وقت اچھی لگتی ہے جب وہ آپ کی خواہشات کے عین مطابق ہواگر یہ آپ کے مزاج کے مطابق نہ ہوں تو پھر کہاں کا قانون ،کہاں کا فیصلہ ،کہاں کی رائے۔ وہی ادارے شخصیات آپ کو معاشرے کا ناسور دکھائی دیتے ہیں جو آپ نے اپنے ہاتھوں سے قائم کئے ہوتے ہیں اور ان کے بارے میں آپ نے بلند و بانگ دعوے کئے ہوتے ہیں وہ ریت کی دیوار ثابت ہوتے ہیں کیونکہ انسان جب بھی اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے لگے توسمجھو وہ پٹری سے اتر گیازوال نے اس کے گھر کا رخ کر لیاایسا انسان قانون کو اپنے گھر کی لونڈی اور زر کو اپنے مقدر سمجھ بیٹھتا ہے اسے یہ دکھائی دینا بھی بند ہو جاتا ہے کہ اوپر بھی کوئی ہے جو ہم سب کا کارساز ہے، ہم سب کا مالک ہے، جس نے ہمیں ایک امتحان میں ڈالتے ہوئے اس دنیا فانی میں بھیجا،اسی ذات نے ہمارے ذمہ ڈیوٹیا ں لگائی ہیں جو ہم سر انجام دے رہے ہیں ۔ لیکن ہم کیوں یہ سب کچھ فراموش کر رہے ہیں حالانکہ اﷲ تعالی نے کئی بار امتحان میں ڈال کرسیدھا رستہ دکھایااور پھر طاقت سے نوازا لیکن ہم سب کچھ بھول جاتے ہیں -

سابق صدر آصف علی زرداری کے بارے میں سوچا بھی نہ جا سکتا تھا کہ اﷲ تعالی ایسے شخص کو بھی اس ملک کی حکمرانی دے سکتا ہے جو سینما چلاتا رہا ہو آصف علی زرداری کی قسمت محترمہ بینظر بھٹو شہید سے وابستگی کے بعد ایسی جاگی کہ پھر چل سو چل اور آخر وہ وقت بھی آیا کہ وہ صدر پاکستان بن گئے محترمہ بے نظیر کی زندگی میں ہی طویل اسیر ی بھی کاٹی ،حالات اور حکومتی جبر سے مجبور ہو کر اپنی زبان کاٹنے کی کو شش بھی کی،لیکن ان سب مصائب کے باوجود ان کے پائے استقلال میں جھول نہ آئی اﷲ تعالی نے آزمائش کی گھڑی سے نکالا دوبارہ اقتدار ملا تو صدر پاکستان کے امیدوار کے طور پر میدان میں آئے ،سیکنڈلائز سے بھرپور زندگی کو مخالفین نے صدارتی مہم میں خوب اچھالا لیکن اوپر سے آپ کی منظور ی ہو چکی تھی اور سب کے دیکھتے دیکھتے صدارتی ہما آپ کے سر پر تھا۔کیا خوب فیصلہ تھا اﷲ تعالی کا کہ وہ آصف زرداری جو خود دوران اسیری اپنی زبان تک کاٹنے کو چلا تھا آج اس کے ہاتھ میں یہ طاقت تھی کہ عدالتی سزا یافتہ کو بیک جنبش قلم معاف کر سکتا تھا معافی کی آخری اتھارٹی اس کے پاس تھی اور اس اتھارٹی پر کوئی قد غن بھی نہیں کہ وہ دہشت گرد کیلئے استعمال ہوگی یا عالم دین کیلئے۔لیکن افسوس کہ قیدی جب صدر پاکستان بنتا ہے تو وہ اﷲ کی سب عنائتیں فراموش کر دیتا ہے اور اس مسند اقتدار پر پہنچنے کو اپنی سیاسی بصیرت سمجھ بیٹھتا ہے جس مقصد کیلئے اﷲ کی ذات نے اسے اس عہدے پر براجمان کیا تھا اسے یکسر نظر انداز کر تے ہوئے ڈکٹیٹر حکمرانوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیتا ہے بھول جاتا ہے کہ جس ذات نے مجھے زمین سے عرش تک پہنچایا وہ واپس زمین پر پٹخ بھی سکتا ہے چن چن کر اپنے تعلق دار نااہل لوگوں کو ملک کی اہم پوسٹوں پر تعینات کیا،لوٹ مار کا وہ بازار گرم ہوا کہ سیاسی مہربانوں نے آپ کو مسٹر ٹین پرسنٹ کا خطاب دے دیا۔ کوئی بھی فیصلہ خواہ پارلیمنٹ نے کیا ہو یا عدالت نے جو آپ کو پسند نہیں ہوتا تھا اگلے روز سب کچھ الٹ پلٹ ہو جاتا تھا لیکن اﷲ تعالیٰ کی ذات بھی بڑی اور بروقت فیصلے کرنے والی ہوتی ہے۔آج جناب دبئی میں بیٹھے ہیں اور اپنے پیاروں کا غم انہیں بہت ستا رہا ہے لیکن ہمت نہیں پڑتی کہ وطن عزیز کی دھرتی پر پاؤں رکھیں وہیں سے بیٹھے کبھی عدلیہ پر تو کبھی افواج پر ڈھکے چھپے لفظوں میں زہر بھر ے تیر برسا رہے ہیں لیکن نہ تو ماڈل ایان علی کی چان چھوٹ رہی ہے اور نہ ڈاکٹر عاصم اور عزیر بلوچ کی۔ دکھائی دے رہا ہے کہ اگلے چند روزمیں دوسرا راؤنڈ شروع ہونے جا رہا ہے جس کی لپیٹ میں کافی بڑے بڑے نام آتے دکھائی دے رہے ہیں اور اس کے بعد شاید سابق صدر آصف علی زرداری کو دبئی سے بھی پرواز کرنا پڑے اور اپنے لئے وہ خطہ زمین منتخب کرنا پڑے جہاں تک پاکستانی قانون نہ پہنچ پائے۔

میاں نوازشریف صاحب نے اپنے دوراقتدار میں آرمی چیف پرویز مشرف کو سری لنکا سے واپسی پر سر زمین پاکستان پر اترنے کی اجازت نہ دی اور حکم دیا کہ پاکستان کے علاوہ جہاں جی چاہے چلے جاؤ، آرمی چیف کی یہ بڑی توہین تھی افواج پاکستان سب دیکھ رہی تھیں متحرک ہوئیں اور آرمی چیف صاحب نہ صرف وطن عزیز کی سرزمین پر لینڈ بھی کر گئے اور مملکت پاکستان کا چارج بھی سنبھال لیا۔ چند گھنٹوں پہلے کا وزیر اعظم نوازشریف غداری کے جرم میں گرفتار ہو کر پابند سلاسل ہوگیا،سعودی عرب مداخلت نہ کرتا تو شاید ایک اور وزیر اعظم تحتہ دار پر جھول جاتا۔ سعودیہ نے میاں نوازشریف کے دستخطوں سے ایک ایگریمنٹ کیا اور سعودی سرزمیں پر اپنا شاہی مہمان بنا لیا لیکن انسان نے پھر بھی نہ سمجھا کہ وزیر اعظم سے سزائے موت کا قیدی اور پھر سعودی عرب کا شاہی مہمان اور اس سرزمین کا اﷲ نے باسی بنا دیا جہاں جانے کیلئے ہر کوئی آرزو رکھتا ہے۔وہاں بیٹھ کر بھی اپنے معاہدے کی پاسداری نہ کی معاہدہ مدت سے پہلے واپس آئے اور میڈیا کے سامنے کسی بھی معاہدے سے انکاری ہو گئے اور آخر کار سعودی وزیرکو میدان میں آکر معاملات کلیئر کرنا پڑے اﷲ تعالی نے پھر اقتدار دے دیا آرمی چیف صاحب اندر اور جناب وزیر اعظم بن گئے-

نیب کے کئے گئے فیصلے آج آپ کوپھر بڑے عجیب اور انصاف کے تقاضوں سے ہٹ کر دکھائی دے رہے ہیں حالانکہ چیئرمین آپ کے پسندیدہ آدمی ہیں اور بڑی خوشی سے اس کو چیئرمین نیب بنایا ۔شاید اس کے ہاتھوں کچھ فیصلے آپ کے یا آپ کے کارخاص کے خلاف ہورہے ہیں یا ہونے جا رہے ہیں جن میں سر فہرست ران مشہود وڈیو کیس،یوتھ فیسٹیول کیس،پیپلز پارٹی کے آصف ہاشمی کے کیسزہیں۔گزشتہ دنوں وزیر اعظم نوازشریف کی نیب پر کڑی تنقید نے کافی سوالات کو جنم دیا ہے شاید ایکبار پھر وہ کوئی بھی فیصلہ ، رائے ، انصاف اپنی مرضی کے خلاف ہوتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے ۔ان کے بیانات اور انکی کابینہ کے بیانات ایسے ہیں کہ جیسے دودھ کے دھلے۔یہی وہ چیز ہے جو انسان کو غلط فہمی کا شکار کر دیتی ہے نہ تو وہ مستقبل کی طرف دیکھتا ہے اور نہ ہی ماضی سے سبق سیکھتا ہے حالانکہ اﷲ تعالی ٰ نے عقل والوں کیلئے کافی نشانیاں رکھی ہیں۔فیصلہ رائے انصاف انسان کی شناخت ہے جب وہ ہی نہ رہے تو پھر انسان اور حیوان میں کیا فرق۔اﷲ زمینی عقلمندوں کی رسی خوب ڈھیلی چھوڑتا ہے اور فرماتا ہے کہ بھاگ لو جہاں تک بھاگ سکتے ہو۔آخر ہم کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور ہماری بقاء صرف قانون قدرت میں ہے جب ہم انصاف کو اپنوں سے بڑھ کر پسند کریں گے تو کامیاب ہو جائیں گے۔
Dr Khalid Hussain
About the Author: Dr Khalid Hussain Read More Articles by Dr Khalid Hussain: 20 Articles with 13394 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.