خادمِ اعلیٰ صاحب ! جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے؟

قرآنِ پاک کی سورۂ اعراف کی آیت 29 میں ہے کہ ’’ اے نبی ؐ : فرما دیجئے کہ میرے پروردگار نے مجھے انصاف کا حکم دیا ہے‘‘۔ اِسی طرح سورۃ النساء کی آیت 58 میں اِرشادِ ربانی ہے کہ ’’ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو۔ بے شک اﷲ تمھیں اچھی نصیحت کرتا ہیــ‘‘۔ رسولِؐ خدا نے بھی زندگی بھر عدل و اِنصاف بلکہ عدل و اِحسان پر زور دیا ہے اور احسان کی تعریف یوں فرمائی ہے کہ کسی کو اُس کے حق سے بھی زیادہ دے دیا جائے۔

ایسے لگتا ہے کہ اﷲ اور اُس کے محبوبؐ کے اِرشادات سے ہمارے حکمرانوں کو کوئی غرض نہیں ہے اور اگر کوئی سر پھرا ان کی توجہ ان احکامات کی جانب مبذول بھی کرادے تو اُسی الزام علیہ پٹواری کو رپورٹ کرنے کا کہہ دیتے ہیں جس نے جعلی فرد نہایت ہی بے غیرتی سے جاری کی ہوتی ہے اور پھر صدیوں بعد اِس توجہ کا انجام یہ ہوتا ہے کہ دو ٹکوں پر بِکنے والا وہ پٹواری اپنے ہی خلاف شکایت پر رپورٹ لکھتا ہے اور پھر بقول قدرت اﷲ شہاب افسرانِ بالا اُس مقدمے پر یہ لکھتے ہوئے داخل دفتر کر دیتے ہیں کہ ــ’’ رپورٹ پٹواری مفصل ہے‘‘ (تفصیل کے لیے قارئین شہاب نامہ کا مطالعہ فرمالیں)۔

وطنِ عزیز کے اربابِ اختیار بزعمِ خود مطمئن ہیں کہ وہ عقلِ کُل ہیں اور ان کی رعیت کے لیے لازم ہے کہ وہ انھیں تاجِ برطانیہ والا احترام دیں اور ا ٓئینِ برطانیہ کے مطابق اُن کے اِس استحقاق (Prerogative) کو بھی تسلیم کریں کہ King Can Do No Wrong. یعنی بادشاہ کا کوئی فعل غلط نہیں ہوتا۔ گُڈ گورنس کا ایک شاہکار دیکھیے کہ حکومتِ پنجاب کے محکمہ تعلقاتِ عامہ نے مؤرخہ 30 ستمبر 2009 کو محکمے میں بھرتی کے لیے آفرز جاری کیں ۔ اِن میں سے کچھ لوگوں نے 14 اکتوبر 2009 سے پہلے جائن کر لیا ، کچھ نے اِس سے قبل میڈیکل سرٹیفیکیٹ پیش کر دیے اور کچھ نے اِس تاریخ کے بعد محکمے میں جائننگ رپورٹس پیش کیں۔ جن لوگوں نے 14 اکتوبر 2009 کے بعد جائننگ دی اُنھیں چیف منسٹر کے 14 اکتوبر 2009 کے احکامات کے تحت ریگولر نہ کیا گیا اور جواز یہ پیش کیا گیا کہ وہ اس روز سرکار کے پے رول پر نہ تھے۔حالانکہ اُنھیں بھرتی کے لیٹر جاری کردیے گئے تھے اور وہ اطلاع قبولیت (acceptance) اور میڈیکل سرٹیفیکیٹ بھی پیش کر چکے تھے۔ پنجاب حکومت کی اِس ضد کی بنیاد پر لاتعداد ملازمین اپنی سال ہا سال کی ملازمت کو آج تک ریگولر کروانے سے محروم ہیں۔اضداد و امتیاز کی حدو ں کو چھوتی پالیسی دیکھیے کہ اِسی پنجاب حکومت نے اپنے 10 ستمبر 2011 کے ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے اُن سینکڑوں اساتذہ کو ریگولر کر دیا جنھوں نے نہ صرف 14 اکتوبر 2009 کے بعد جائن کیا تھا، بلکہ اُن کی بھرتی بھی 14 اکتوبر 2009 کے بعد ہوئی تھی۔ مذکورہ نوٹیفیکیشن میں یہ جواز پیدا کیا گیا ہے کہ اُن کی بھرتی کا اشتہار 19 اکتوبر 2009 سے قبل شائع ہو چکا تھا۔

خادمِ اعلیٰ صاحب! جو چاہے آپ کا حُسنِ کرشمہ ساز کرے ۔بھرتی کا لیٹر، ملازم کی acceptance اور میڈیکل سرٹیفیکیٹ دے دینے والے لوگ تو رہ گئے اور جن کی بھرتی کے لیے اشتہار شائع ہو چکا تھا اُنھیں رُول 23 کے تحت استثنیٰ بخش دیا گیا۔اِس امتیازی رویے کو زمین ہضم نہیں کر رہی ، ذرا سوچیے تو آسمان کیسے گوارا کرے گا۔سورہ المائدہ کی آیت 42 میں ہے : ـ ’’ اور جب فیصلہ کریں تو اِن (لوگوں) کے درمیان اِنصاف سے فیصلہ کریں۔ بے شک اﷲ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے‘‘۔ مُقسطین سے اﷲ کی محبت کا ذکر صرف ایک بار نہیں آیا بلکہ سورۃ الحجرات کی آیت 9 اور الممتحنہ کی آیت 8 میں بھی ایسا ہی اِرشاد ِ مبارک پڑھنے کو ملتا ہے۔ سرکاری بھرتیوں کے معاملے میں وطنِ عزیز میں روزِ اول سے جو کچھ ہو رہا ہے اور اِس پر افسر شاہی نے ہمیشہ جو اندھیر مچایا ہے وہ نہ تو کل کوئی راز تھا اور نہ آج کوئی بھید ہے۔اسسٹنٹ لائن مین، جو کسی بھی طرح قلی سے زیادہ نہیں ہوتا ، کی بھرتی کا بھاؤ دو لاکھ روپے مقرر ہے اور اگر یہ کسی طرح آپ کی چھتری تلے پہنچ ہی پاتے ہیں تو ان سے شودروں اور بھکاریوں والا سلوک مت کریں۔معروف امریکی قانون دان اور انسانی حقوق کے علمبردار برائن سٹیفن سن کی ایک معروف کتاب Just Mercy کے 13 ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ وہ لکھتا ہے :
"The opposite of poverty is not wealth. In too many places opposite of poverty is justice".
(غربت کا متضاد دولت نہیں ہے ۔ بہت سی جگہوں پر غربت کا اُلٹ انصاف ہوتا ہے)۔

ذرا غور فرمایئے ، ہمارے ہاں غربت کے خاتمے کی لیے انصاف ہوتا نظر آرہا ہے؟ یہ نہ ہو کہ اِس ظلم کی وجہ سے ویرانیاں چھا جانے کے بعد آپ بھی کسی اُلو کو اِن کا ذمہ دار ٹھہرائیں۔
Asghar Ali Javed
About the Author: Asghar Ali Javed Read More Articles by Asghar Ali Javed: 19 Articles with 24885 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.