محترم مظہرکلیم صاحب سے محترم اشتیاق احمدصاحب تک

یہ عنوان آپ کو تھوڑا ساعجیب لگے گامگر میں نے اسے عمران سیریزکے آئینے میں ترتیب دیاہے۔جس کی وضاحب آپ کو آگے چل کر خود ہی ہوجائے گی ۔میری گزشتہ چھوٹی سی کاوش "عمران سیریزکی بڑھتی ہوئی چربہ سازی اور اس کازوال"خدا کے فضل سے سوشل میڈ یاپر آئی تو اسے خوب سراہاگیامگر چند دوستوں کو میر ایہ انداز بالکل بھی نہیں بھایا۔میں ان کا بھی بہت مشکور ہوں جنہوں نے میری تحریر پر تو کوئی تنقید نہیں کہ البتہ میری کردار کشی کرنے سے پیچھے نہیں ہٹے اور مجھے خوب طعنے بھی دیتے رہے کہ میں اپنامقام دیکھوں اور محترم مظہر کلیم صاحب کا جنہوں نے ادب کی اتنی خدمت کی ۔مجھے یہ بھی کہاگیا کہ میں تنقید کرنے کے بہانے ادب کے سارے تقازے بھول گیاہوں۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے مظہرصاحب کو مظلوم بھی بنادیا۔حالانکہ میں نے تو ان کے ادب اور مرتبے میں کوئی گستاخی نہیں کی تھی بلکہ ان کا جہاں جو کریڈٹ تھاان کو وہ دیاساتھ میں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ انہوں نے عمران سیریزکو کئی دہائیوں تک عروج بخشا پھر ساتھ میں ان کے زوال کی داستان بھی بیان کی اور آخر میں ان کی تحریروں کی جو چرباسازی ہورہی اس کی نشاندہی بھی کی۔میں ایک بار پھر سے مظہرکلیم صاحب کے فینزسے نہایت ادب کے ساتھ عرض کرناچاہتا ہوں کہ میں ان کا ایک معمولی ساقاری ہوں اور ان کی قدر و منزلت کو چھوٹاکرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ لیکن چربہ سازی جب اس حد تک بڑھ جائے کہ قارئین باقاعدہ احتجاج پر اتر آئیں اور اس سب کچھ کو مظہر کلیم صاحب ہوتاہوادیکھ رہے ہوں اور خاموشی اختیار کی ہوئی ہو تو اس وقت میں کیا کروں؟کیااس ظلم و زیادتی کو ہوتے ہوئے دیکھتارہوں؟تاکہ پبلی شر حضرا ت جو کچھ کررہے ہیں وہ اسی دیدہ دلیری سے کرتے جائیں ؟کیاآپ کا ہم سب کا فرض نہیں ہے کہ انہیں اس کام سے روکاجائے ؟اگر کام معیاری ہوگاتو کوئی تنقید نہیں کرے گا جب معیار ہی تھرڈ کلاس ہوجائے گا تو آپ سوچیں کیااس پر تنقید بنتی ہے یا نہیں ؟جس نے عمران سیریزکانام خراب کیا اس پر تنقید ہوتی ہے اور ضرور ہونی چاہیے ۔اور میں نے تو اپنے بارے میں شروع میں ہی کہہ دیاتھاکہ میری اوقات میری حیثیت نہیں کہ میں کسی پر تنقید کروں۔مگر اس ظلم کو بھی برداشت نہیں کرسکتاسوقلم اٹھاکر بغاوت کااعلان کیاجو قاری کا حق ہے کہ جب آپ کی مصنف کو اپنے گلے کاہاربناتے ہیں تو اس میں پروئے ہوئے موتی جب ناقص ہوجائیں تو ان کی کانٹ چھانٹ بھی کی جاتی ہے اور جب پورا ہار ہی ناقص ہوجائے تو اسے تبدیل کرکے نیالایاجاتاہے۔

میں نے حقائق بیان کئے اور اپنی منطق او ربصیرت کے مطابق دیانت داری کے ساتھ ان حقائق کا تجزیہ بھرپوردلائل کے ساتھ بھی پیش کیاجو محترم مظہر کلیم صاحب کی تحریروں سے مجھے سمجھ آئی ۔بے شک حقائق تلخ ہوتے ہیں اور اب تک مجھے ان دلائل کا رد نہیں ملاکہ جب ان کی تحریریں جاسوسی ادب سے نکل کر کسی اور ہی ڈگر پر چلی گئیں تو میں کیا کرسکتاہوں؟میں نے ناصرف جاسوسی ادب کے اسلوب کو بیان کیا بلکہ اس کے دیگرپہلوؤں پر نظربھی ڈالی تاکہ آپ سب قارئین کو آسان الفاظ میں سمجھ آسکے۔جب آپ ایک ہی موضوع کو باربار دہرائیں گے تو آپ کے ناول یکسانیت کا شکاروہوجائیں گے چاہے آپ اس میں جتنے مرضی نئے ٹوئسٹ ڈال لیں بات وہی ٹھہرے گی کہ ناول کا مرکزی خیال ایک ہی ہے بس اسے مرچ مصالے لگاکر نئے رنگ میں باربارپیش کیاجارہاہے۔

جب بھی ہم بحث کرتے ہیں تو اس میں عقیدت اور محبت نہیں دیکھی جاتی بلکہ اس میں دیانت داری کے ساتھ اپنے جذبات کوبلائے طاق رکھتے ہوئے حقائق کاتجزیہ کیاجاتاہے سو وہ میں نے کیا ۔ساتھ میں میں نے یہ بھی گذارش کردی کہ میری تحریرکامقصد کسی کی دل آزاری نہیں۔میرے دوستوں کو میں عرض کردوں کہ جو آپ اپنی زندگی میں بوتے ہو پھراسی کے ہی ثمرات آپ کو ملتے ہیں یہ ہرگزنہیں ہوسکتاکہ آپ کسی کی عزت نہ کرواور جواب میں آپ کو عزت ملے۔

میری موجودہ تحریرکامقصد ایک خاص پہلوپر توجہ دلاناہے آپ سب کو مظہر صاحب کا پہلاناول "ماکازونگا"یاد ہوگاجس کے پیش لفظ میں انہوں نے لکھاتھاکہ "اگر قارئین نئے ناموں کی حوصلہ افزائی کریں تو ابن صفی کاسکہ کھوٹاثابت ہوسکتاہے"۔اس کے بعد ہم سب نے دیکھاکہ انہوں نے کس طرح ابن صفی کے قارئین کے دلوں پر نشتر چلاکر کئی دہائیوں تک ان کے سکے کو کھوٹاکرنے کی کوشش کی ۔اس وقت جس ذہنی کرب ،اذیت اور ٹیشن کا شکاران کے قارئین تھے آج بالکل وہی حالت مظہرکلیم صاحب کے قارئین کی ہے ۔بلکہ بات اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ ان کے قارئین نے انہیں مظلوم تک کہہ دیاہے۔وہ کہتے ہیں ناں کہ انسان جو بوتاہے وہی کاٹتاہے آج محترم مظہر کلیم صاحب کے سکے کے ساتھ بھی وہی ہورہاہے جو انہوں نے محترم ابن صفی صاحب کے سکے کے ساتھ کیاتھا۔بس فرق یہ ہے کہ انہوں نے چربہ سازی نہیں کہ تھی اور ان کاجرم یہ تھاکہ قارئین کو عمران سیریزاور جاسوسی دنیاکا تحفہ دیا۔اس کے بالکل برعکس آج مظہر کلیم صاحب کے ناول ان کے اپنے ہی ادارے چوری کرکے چھاپ رہے ہیں ۔جس سے ناصرف ان کا نام خراب ہورہاہے بلکہ جو زندگی میں انہوں نے اپنی عزت کمائی تھی وہ بھی رفتہ رفتہ کم ہورہی ہے۔یہ مقافات عمل ہے ،یہی اس فانی دنیاکا اصول ہے اور ازل سے قائم ہے اور ابد تک قائم رہے گا۔اس میں کسی قسم کی ترمیم کی گنجائش نہیں اور یہ اس کاعجیب ہی قانون ہے جس کا عملی مظاہرہ ہم آج دیکھ رہے ہیں۔

مصنف جتنابڑاہوتاہے اس کا کردار اس سے بھی کہیں زیادہ بلند ہوتاہے ۔میں اب یہاں پر اُس عظیم جاسوسی ناول نگار کانام لیناچاہوں گا جن کانام محترم ابن صفی صاحب کے بعد جاسوسی دنیا میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔وہ جتنے عظیم جاسوسی ناول نگار تھے اس سے کہیں زیاد ہ بڑے انسان تھے ۔میں محترم اشتیاق احمد صاحب کی بات کررہاہوں ،جو اب سے کچھ دن قبل ہی ہم سب سے جدا ہوگئے اللہ کے درجات بلند کرے ،انکی آخری کتاب "عمران کی واپسی" مارکیٹ میں آئی ۔تو انہوں نے جن الفاظ میں صفی صاحب کو خراج عقیدت پیش کیاوہ اپنی مثال آپ ہے اور بلاشبہ ان کا نام تب تک روشن رہے گاجب تک چاند سورج رہے گے گا۔اس کے پیشرس میں بیان ہوا کہ یہ اشتیاق صاحب کے قلم سے ان کے محبوب ترین مصنف کو ایک تحفہ اور ایک عقیدت نامہ ہے ۔ اشتیاق صاحب کے الفاظ میں " وہ مصنف جس کے ناول پڑھ کر میں نے ناول لکھناسیکھے "گویاانہوں نے ابن صفی کواپنااستاد تسلیم کیا۔یہ ہے وہ ادب اور اس ادب کے تقاضے۔اب میرامظہر کلیم صاحب کے قارئین سے سوال ہے کہ کیاانہوں نے کبھی صفی صاحب کے ناولزنہیں پڑھے ہونگے؟لیکن جو الفاظ انہوں نے اپنے انٹرویہ میں استعمال کئے اور جو کچھ انہوں نے اپنے پیش لفظ میں کہا کیا اب بھی وہ تنقید کے زد سے باہر رہ سکتے ہیں ؟بے شک انسان کی تحریر ہی اس کی اصل شخصیت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔غور ضرور کیجئے گا۔

آخر میں میں محترم ابن ریاض صاحب کا بے حد مشکور ہو ں جنہوں نے مظہرکلیم صاحب کاایک عقیدت مند ہونے کے باوجود نہایت خندہ پیشانی سے میری تنقید کو برداشت کیا۔ناصرف یہ بلکہ ان سے میری جو چربہ سازی پر علمی نوعیت کا اختلاف تھااسے بھر پور دلائل کے ساتھ جواب دیااور میری تحریر کو عزت بخشی ۔میں ان کی تحریر " دشمنی کے معیار" کواپنے لئے حجت مانتے ہوئے ان کے سامنے سرتسلیم خم کرتاہوں اور اب ان کی اس تحریر کے بعد مظہرکلیم صاحب کے انٹرویہ پر تنقید نہیں کروں گا۔حالانکہ اس پر ایک الگ مضمون لکھاجاسکتاہے اور اس کا پوسٹ مارٹم بھی ہوسکتاہے۔اس کے بعد میں اپنے محترم ابن نیازصاحب کا بے حد مشکور ہوں جنہوں نے بے پناہ عزت ،محبت اور خلوص سے نوازتے ہوئے میری تحریرکو خط کی شکل دیکر اسے اخبارات کی زینت بنارہے ہیں ۔تاکہ اسے عوام الناس میں عام کیاجاسکے اللہ ان کی کاوش کو قبول کرے اور ایک بار پھر سے دعاہے کہ عمران سیریزکو ایک اور صفی مل جائے جو اس کی ڈوبتی کشتی کو بچالے۔آمین
Muhammad Jabran
About the Author: Muhammad Jabran Read More Articles by Muhammad Jabran: 47 Articles with 61291 views
I am M Phil Scholar In Media Studies. Previously, i have created many videos which are circulating all over Social Media.
I am the Author of thre
.. View More