میرے مرنے کے بعد کیا ہو گا

ہر انسان کو یہ فکرتو ہے کہ میرے مرنے کے بعد میری اولاد کا کیا ہو گا لیکن کسی کو یہ فکر کیوں نہیں کہ میرے مرنے کے بعد میرا کیا ہوگا
کس کس کا رونا روئیں گے

جس قدر تباہی آج ہو چکی ہے لگتا ہے آنے والا کل انتہائی خوفناک ہو گا بے غیرتی شرم وحیا الف ننگی گھر گھر ناچ رہی ہے مردوں کی مردانگی عورت کی حوس کو پورا کرنے میں مصروف عمل ہے عورت کی شرم وحیا کو فرنگی تعلیم نے تار تار کر دیا ہے اور آج شرم وحیا فقط اک افسانے کے سوا کچھ بھی نہیں ہر طرف نفا نفسی اس قدر ہے کہ گھر میں بیمار ماں باپ کو چھوڑ کر سکول وکالج میں جانا اس لیے ضروری ہے کہ مسعود , عابد , سلمہ , بےبی , اور شبانہ ( یہ سب فرضی نام ہیں ) سے وعدہ تھا کہ دوپہر کا کھانا اکھٹے کھائیں گے بہن بیٹی کا بنونا سنورانا کیوں نہ باپ اور بھائی کو اچھا لگتا جبکہ بننے سنورے کا سازو سامان یہ خود لا کر دیتے ہیں غیرت کے پرغچے اُڑا کر رکھ دیے گئے ہیں ۔عورت کا شانہ بشانہ سفر جب سے شروع ہوا ہے مرد غیور نایاب ہوتے چلے جا رہے ہیں شاید ہی اب کوئی شعبہ ایسا زندہ بچ گیا ہو جہاں سے عصمت دری ، جسم فروشی ، اغوا ، قتل و غارت گری ، بے حیائی اور بے شرمی چیخ چیخ کر یہ نہ بتا رہی ہو کہ مجھ پر رحم کرو میں اس کام کے لیے تو نہ تھی میرے ساتھ زیادتی تو نہ کرو باپردہ ، باحیا ان پڑھ ماں کی بے حیا بے پردہ پڑھی لکھی بیٹی آج جس کرب اور تکلیف سے دوچار ہے اُس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج یہی بے حیا اور بے پردہ بیٹی جب ماں کا درجہ پاتی ہے تو چیخ اُٹھتی ہے اور کہتی ہے کہ درندو ہم ہی تو ہیں جو ۹ ماہ پیٹ میں تمہیں رکھ کر پالتی ہیں اور پھر تم ہی ہمیں ننگا کر کے بازروں ، پارکوں ،دفتروں اور سکول و کالج میں لا کر ہماری عفت و عصمت کو داغدار کرتے ہو ستم ظریفی اس بڑھ کر اور کیا ہو گی کہ بے چاری نو (9) ماہ بچے کو پیٹ میں بھی رکھے اور پیٹ کا پالنے کے لیے گھر سے بھی نکلے قصوروار کون ہے یہ ایک لمبی اور درد بھری داستان غم ہے بات حالت حاضرہ کی جس قدر تشویش ناک ہوتی چلی جا رہی ہے لگتا ہی نہیں کہ اب اس بھپرے سمندر کی لہروں کے آگے کیوں بند باندھنے کی کوشش کریں -

تباہی کے بادل گہرے ہوتے چلے جا رہے ہیں جانے کب اور کس لمحے یہ برس پڑے اور سب کچھ تہس نہس کر کے رکھ دیں کچھ کہا نہیں جا سکتا وحشت اور خوف کے آثار ہر دوسرے شخص کے چہرے سے آویزاں ہیں مگر مجال ہے کہ وہ اس کا اظہار اپنے لفظوں میں بیان کر سکے عذاب الہی کو دعوت عام دی جا رہی ہے ۔ شریعت کی دھجیاں اُڑآئی جا رہی ہیں ۔ گستاخانہ طرز عمل رگوں میں لہو بن کر دوڑ رہا ہے ۔ ایک عجب سی کیفیت سے دوچار ہر شخص مگر طاغوتی طاقتوں نے اس قدر دہشت ناک بنا رکھا ہے کہ اب سود کو بھی بانگ دھل حلال کہتا ہے اور زنا کو بھی مرضی و منشاء پر ثبت کہہ کر کھلی آزادی دے دی گی ہے اللہ کریم کا عذاب جانے کس قدر شدیت ہو گا ہم گنہگاروں کے لیے کہ ہم نے کوئی کس بجا نہیں رکھی اُس کو دعوت عام دے رکھی ہے نام نہاد مولوی ، مفتی ، عالم ، فاضل حضرات بھی ڈھکی چھپی باتیں ہی نہیں کرتے عمل بھی کرواتے ہیں کہ کہیں سادہ لوح مسلمان اسلام کے عین مطابق عمل نہ شروع کر دیں وگر نہ کفر تو ہمیں کاٹ کر رکھ دے گا ہر روپ میں ایک بھیڑیا چھپا بیٹھا ہے ۔ حاکم ہیں تو اپنے اللے تللوں میں بدمست ملاں ہیں تو حاکموں کے تلووں کے زیر سایہ پیر ہیں تو مریدوں کے ریوڑ کو بڑھانے میں مصروف والدین ہیں تو دُنیا کی آسائیشوں کے لیے بے چین بچے ہیں تو فرنگی تہذیب وتمدن کے غلام بننے کو بیقرار کیا یہ رہ گئی ہے مسلمانی دُنیا ۔۔ دُنیا ۔۔ دُنیا کیا اللہ کریم نے ہمیں دُنیا کی آسائشوں کے حصول کے لیے پیدا فرمایا ؟ کیا اللہ کریم نے ہمیں مال و زر کو یکجا کرنے کے لیے پیدا فرمایا ؟ کیا اللہ کریم نے ہمیں دُنیا میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے کے لیے پیدا فرمایا ؟ اگر نہیں تو پھر آج ہماری ترجیحات کیا ہیں ؟ دُنیاوی چند سکوں کی خاطر دین اسلام کو بیچا جا رہا ہے دُنیاوی عیش وعشرت کی خاصر حلال و حرام کو یکجا کیا جا رہا ہے دُنیاوی مقام و مرتبہ کی خاطر حق کو باطل میں ضم کیا جا رہا ہے عزتوں کے رکھوالے اور محافظ جب خود لُٹیرے بن جائیں تو سوچیئے کیا بنے گا دین اسلام کے جانثار اور وارث جب خُود اسلام دُشمن بن جائیں تو سوچیئے کیا بنے گا دُنیا کی لزتوں اور رنگینیوں میں جب قوم گم ہو جائے تو سوچئے کیا بنے گا عارضی چند روزہ زندگی کو سنوارنے ، اور تو اور جس بے وفا کا ایک پل کا بھروسہ بھی نہ ہو اُس سے وفا کی اُمید رکھنا کیا کھلی حماقت بے وقوفی اور جہالت نہیں؟ خُدارا مسلمانوں غفلت بستر مرگ سے جاگ جاو اور ہوش کرو وقت کو ضائع مت کرو اپنے ایک ایک پل کو تابع شریعت بنانے کی فکر کرو کوشش کرو اور شریعت کے رنگ میں خود کو رنگنے کے لیے ہر وقت ہر لمحہ ایسا عمل کرو کہ شریعت مطہرہ کا رنگ پکے سے پکا ہوتا چلا جائے عبادات الہیہ کے ساتھ ساتھ اپنے معاملات کو بھی عبادت بناو معاملات اگر درست ہونگے تو عمل میں نکھار پیدا ہو گا عمل میں نکھار پیدا ہو گا تو روح کو سکون اور چین نصیب ہوگا روح کو چین اور نصیب ہو گا تو عبادت الہیہ سے اللہ کا قرب حاصل ہوگا آج ہرطرف اگر بے چینی اور بے قراری نظر آتی ہے تو فقط دین اسلام سے دُوری کی وجہ سے کیونکہ ہم نام تو اسلام کا لیتے ہیں مگر اسلام جس چیز کا حکم دیتا ہے وہ نہیں کرتے آج ملت اسلامیہ کا شیرازہ اگر بکھر چکا ہےتو فقط اس وجہ سے کہ حاکم ہوں یا عالم ، جاہل پیر ہوں یا بناوٹی فقیر سبھی مل کر اس کوشش میں ہیں کہ رحمان کی اور شیطان کی آپس میں صلح ہو جائے اللہ بھی خوش ہوجائے اور اللہ کا دُشمن بھی راضی رہے

دورنگی چھوڑ دے یک رنگ ہو جا
سراسر موم ہو یا سنگ ہو جا

یہ دورنگی چھوڑنا ہونگی اللہ ہر بندہ بشر کے دل میں چھپی ہر بات کو جانتا ہے لہذا قبل اس سے کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی اُچک لی جائے اور موت کا فرشتہ آجائے کر لے جو کرنا ھے آخر موت ہے

آخر میں آپ سب سے التماس ہے کہ میرے لیے میری فیملی میرے دوست احباب اور میرے سب چاہنے والوں کے لیے دُعا کریں کہ ہمیں اور آپکو راہ راست پر چلنے اور نیک کام کرنے کی توفیق دے آمین ثم آمین

محمد مسعود نونٹگھم یو کے
Mohammed Masood
About the Author: Mohammed Masood Read More Articles by Mohammed Masood: 62 Articles with 178278 views محمد مسعود اپنی دکھ سوکھ کی کہانی سنا رہا ہے

.. View More