انگریزوں کا زخم ناسور بنتا جا رہا ہے
(Falah Uddin Falahi, India)
لکھنو سے دہلی تک وکالت جیسی با وقار پیشہ
کو چند وکیلوں کے ذریعے مجروح کیا جا رہا ہے ۔ہندوستانی جمہوریت کے چار
ستون میں سے دو ستون متذلزل کا شکار ہے ۔صحافیوں کو وکیلوں کے ذریعے ذدوکوب
کیا جا رہے۔یعنی جمہوریت کے دونوں ستون خطرے سو دوچار ہے ۔ملک اور جمہوریت
دونوں کے لئے خطرناک بات ہے چونکہ اگر یہی دونوں ستون جن پر کسی جمہوریت کی
بنیاد ہوتی ہے وہی متذلزل ہو جائے تو جمہوری حکومت پر اس کا اثر پڑنا لازمی
ہے ۔اس طرح آج دیش کو بچانے کیلئے ان دونوں ستونوں کی حفاظت لازم و ملزوم
ہو گئی ہے ۔ایسے حالات میں امن و آمان کو برقرار رکھنے والے شعبہ نے جس سرد
مہری کا ثبوت دیا ہے اس سے تو صاف ظاہر ہے کہ جب دیش کی راجدھانی میں قانون
و انتظامیہ کا اس طرح مزاق اڑایا جائے گا تو ملک کے دیگر ریاستوں کا کیا
حال رہے گا جو دنیا کی نگاہوں سے اکثر اوجھل رہتا ہے ۔دہلی پولیس کی خاموش
تماشائی بنے رہنااور سپریم کورٹ کی ٹیم کے ساتھ نا زیبا حرکت کو ہم کس زمرے
میں رکھیں گے ۔کیا ہم مہذب سماج میں رہنے کے لائق ہیں ۔ہمارا ملک عالمی سطح
پر بدنامی کا شکار ہو رہا ہے ۔آج حالات ویسے ہی ہیں جیسے انگریزوں کے زمانے
میں ملک سے بغاوت کرنے والوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر گرفتار کیا جاتا تھا ۔اس
وقت محب وطن اور وطن دشمن کی پہچان ضروری اور ناگزیر بن چکی تھی ۔چونکہ
حالات انتہائی نازک ہو چکے تھے ۔ہندستانیوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا
جا رہا ہے ان کے ساتھ ظلم و زیادتی حد سے زیادہ بڑھ چکی تھی ۔ سب سے بڑی
چیز تھی ملک کو غلامی سے نجات دلانا ایسے حالات میں محب وطن نے ہر چیز کی
قربانی دینا فرض سمجھ لیا تھا اپنی جان ومال دولت کون سی ایسی چیز تھی جو
آزادی سے زیادہ عزیز نہ تھی اور دنیا نے وہ وقت بھی دیکھا کہ انگریزی حکومت
کو ملک چھوڑ کر جانا پڑا چونکہ ہندوستانیوں سے قربانیوں کا وہ نظارہ پیش
کیا تھا کہ انگیریز گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گیا اور ہمار ملک آزاد ہو گیا
جس کے جشن میں ہندستانیوں نے دنیا کی سب سے عظیم جمہوری ملک بنا کر ایک
نظیر پیش کی ۔لیکن آج جب ہم آزادی سے ملک میں سائنس لے رہے ہیں اور ہر
مکتبہ فکر کو پروان چڑھنے اور بولنے کے حقوق ہیں ایسے حالات میں بد نصیبی
یہ عالم ہے کہ کچھ شر پسند عناصر اور کچھ ایسی ریاست جو برسوں سے ملک میں
آنارکی کی فضا کو ہموار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔یہ حقیقت ہے کہ انگریزوں
نے ہماری آزادی میں کچھ خامیاں چھوڑ دی تھی جس کا نتیجہ ہے کہ آج ملک کے
کئی ریاستوں میں علیحدگی پسند کی آواز اٹھائی جا رہی ہے ۔جس کی وجہ سے
ہمارے ملک میں ایک بار پھر محب وطن اور دیش دروہ کی پہچان کرنی پڑرہی ہے ۔اس
میں کوئی شک نہیں کہ محب وطن کو واقعی ان ساری باتوں سے کافی تکلیف پہنچتی
ہے کہ کوئی ہمارے ملک میں ہی کسی دوسرے ملک کی آواز بلند کرے یہ کسی بھی
حال میں کوئی برداشت نہیں کر سکتا ہے ۔لیکن اس کے لئے ہمیں لائحہ عمل بنانے
کی ضرورت ہے آخر یہ چنکاری کیوں اٹھ رہی ہے کیوں آج ملک آزاد ہونے کے
باوجود ہمیں محب وطن اور دیش دروہ کی پہچان کرنی پڑرہی ہے اس کے لئے سب کو
بیٹھ کر معاملے کا حل نکالنے کی کوشش کرنی ہوگی ۔ملک میں امن و آمان برقرار
رکھنے کیلئے پولیس ،انتظامیہ ،عدلیہ اور حکومت کو چاہئے کہ وہ ملک میں ایسے
حالات پیدا ہی نہیں ہونے دیں اور جہاں کہیں بھی ملک سے غداری کا ثبوت ملے
اس کے خلاف ایسی کارروائی ہو کہ ملک میں پھر کوئی دوسرا ملک کے خلاف آواز
اٹھانے کی کوشش نہ کریں ۔حکومت سے مطالبات منوانے اور اپنی آواز پہنچانے کا
مطلب یہ ہر گز نہیں ہونا چاہئے کہ ملک میں دوسرے ملک کا نعرہ لگائیں جائیں
۔ہم اپنے گھر میں اپنے مطالبات کو منوانے کے دستوری راستے کا سہارا ضرور
لیں لیکن اپنے عزیز وطن کی شان میں گستاخی سے پرہیز کریں اسی میں تمام
ہندوستانیوں کی بھلائی ہے ہمارا ملک آج بھی دنیا میں سب سے ممتاز حیثیت
رکھتا ہے اس جیسا ملک پوری دنیا میں نہیں ملے گا جہاں مختلف قسم کی ہزاروں
زبان بولنے والے ہوں جہاں مختلف مذاہب کے رہنے والے ہوں اور سب کو یکساں
حقوق دئے گئے ہیں ۔کشرت میں وحدت کے تصور کی پہچان ہے ہندستان ۔ |
|