امن اور سلامتی عدل کے بغیر ممکن نہیں
موجودہ دور کے روشن خیال حکمران اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے بیان کیا جاتا
ہے کہ خلیفہ منصور عباسی عظیم الشان سلطنت کے خلیفہ تھے ایک بار بصرہ کے
قاضی سوار بن عبداﷲ کو لکھا کہ آپ کی عدالت میں ایک فوجی سردار اور سوداگر
کے مابین مقدمہ چل رہا ہے میری خواہش ہے کہ اس مقدمے کا فیصلہ فوجی سردار
کے حق میں کر دیں قاضی نے اس سفارش کے ضواب میں لکھا کہ میرے سامنے شہادت
پیش ہوئی ہے اس میں ثابت ہوتا ہے کہ اس مقدمے کا فیصلہ فوجی سردار کے حق
میں ہونا چاہیے اور میں شہادت کے خلاف ہرگز فیصلہ نہیں کر سکتا خلیفہ منصور
نے دوبارہ لکھا کہ آپ کو فیصلہ فوجی سردار کے حق میں کرنا ہی پڑیگا قاضی
سوار بن عبداﷲ نے جواب دیا کہ واﷲ میں انصاف کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ
سوداگر کے ہی حق میں کروں گا جب دو ٹوک جواب خلیفہ منصور کے پاس پہنچا تو
انہوں نے کہا کہ الحمدواﷲ میں نے زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیا۔اور میرے
قاضی فیصلے عدل و انصاف کی بنیاد پر کرتے ہیں مسلمان حکمرانوں کے سامنے
ایسی روشن مثالیں موجود ہونے کے باوجود گنگا الٹی بہتی ہے چوہدری نثار احمد
وزیر داخلہ نے جب پریس کانفرنس میں دم پر پاؤں آنے کی بات کی تو پیپلز
پارٹی کے سیاستدانوں نے اسے اپنی دم سمجھ لیا اور ادھر ادھر پھدکتے ،دوڑ
لگا نے لگے ایک شور شرابے کا ماحول پیدا کر دیا گیا ایک بار پھر دونوں
پارٹیوں کے وزیر منہ ماری آمنے سامنے آ گئے اور ایک دوسرے پر الزمات کی
جھڑی لگا دی ۔دونوں طرف سے کرپشن کا کیچڑ اور کچھ سچائیاں داغی جانے لگیں
حالانکہ کرپشن پاکستان کا حل طلب مسلہ رہا ہے اور ہے جسے جتنا دبانے کی
کوشش کی گئی وہ اتنی ہی تیزی سے پھیلتی گئی پیپلز پارٹی نے اپنی دم اس وقت
دیکھی اور سوچا کہ تیر کی تو دم ہی نہیں ہوتی جب وزیر اعظم میاں نواز شریف
خود میدان میں کودے اور فرمایا کہ نیب کو کسی شرفا کی پگڑی اچھالنے نہیں دی
جائے گی اگر نیب باز نہ آئی تو سخت کاروائی کریں گے اس اعلان سے یہ بھی
واضع ہو گیا کہ شیر کی دم اپنی جگہ میاں منشاء ن لیگ کی دم ہیں جس پر نیب
پاؤں رکھ چکی ہے جنہیں بقول وزرا کئی کئی گھنٹے بلا کر خوار کیا جا رہا ہے
اور تیس تیس چالیس چالیس پرانے کیس اٹھائے جا رہے ہیں گڑھے مردے اٹھائے جا
رہے ہیں اور اگر یہ عمل جاری رہا تو پاکستان میں سرمایہ کاری کون کرے گا
یعنی کہ،،ماضی کی ہر کرپشن پہ گھٹا پاؤ،،سیاسی مفاہمت پاکستان میں اپنی
جڑیں مضبوط کر چکی ہے سیاستدان،بیوروکریٹ،صنعت کار ایک ہی لڑی کے تانے بانے
ہیں جب ان پر مشکل آتی ہے سب ایک پلیٹ فارم پر کھڑے ہو جاتے ہیں وزیر اعظم
کے بیان سے پہلے آصف علی زرداری،بلاول بھٹو اور وزیر اعلی سید قائم علی شاہ
کئی بار دہائی دے چکے تھے کہ نیب کو سنگل پاؤ اور اسے سندھ اسمبلی کا پابند
کیا جائے جسے اٹھانا ہو،کیس کھولنا ہو پہلے سندھ اسمبلی سے اجازت لے کیونکہ
ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری اور شرجیل میمن کے متعلق کرپشن کے انکشافات ہونے کے
بعد سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کو لگنے لگا تھا کہ کسی صبح وہ بھی حراست
میں پائے جائیں گے اور بنی ہوئی لسٹ والوں کو جیل یاترا پر جانا پڑے گا
۔خیبر پختونخوا میں تبدیلی اور ایمانداری کا نعرہ لگانے والوں نے کون سا
تیر چلا لیا ایک وزیر کے پکڑے جانے کے بعد جب دوسرے کے گرد گھیرا تنگ ہوا
اور اس کے پیچھے چلتے ہوئے نیب کو وزیر اعلی دکھائی دینے لگا تو انہوں نے
بھی ،،نیب کے پر کاٹ دیے،،اور اختیارات محدود کر دیے جسکی وجہ سے چیرمین
استعفی بھی دے گیا اسی طرح پنجاب کی لسٹ تیار ہوئی تو ن لیگ بھی روائیتی
طور پر پھٹ پڑی نیب کی خرابیاں اور زیادتیاں نظر آنا شروع ہو گئیں حالانکہ
بڑے میاں اور چھوٹے میاں نے الیکشن میں قسمیں اٹھا اٹھا کر کرپشن کا باب
بند کرنے پیپلز پارٹی سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے ،آصف علی زرداری کو الٹا
لٹکا کر پیٹ پھاڑ کر کروڑوں ڈالر واپس لینے کے وعدے کیے تھے جو ریت کی
دیوار ثابت ہوئے کیونکہ جب اپنی ہی دم کی طرف ہاتھ بڑھا تو سب دم دبا کے
بھاگ لیے۔ کرپشن کے حوالے سے پاکستان میں بہت کچھ لکھا گیا لکھاریوں نے ایک
ایک کرپشن کو بے نقاب کیا اور ایک ایک مسلے کی نشاہدہی کی لکھنے والے تھک
گئے کرپشن والے آج بھی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں وزیر اعظم کی مداخلت
کوئی اچھوتی بات نہیں ہے کیونکہ کچن کابینہ پر ہاتھ پڑنے سے پورا کچن بے
نقاب ہو سکتا تھا ماضی گواہ ہے کہ کرپشن کے حوالے سے نیب ہو یا اینٹی کرپشن
کس نے کونسا تیر چلایا اور کس ،کس کو پکڑا یہ تو ہم سب جانتے ہیں ۔رانا
مشہود کے خلاف واویلا ہوا کسی نے کیا کر لیا ،کسی کے گھر سے کچھ پکڑا گیا
تو کیا ہوا پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے احتساب کو مذاق بنا رکھا ہے اگر ان کے
بس میں ہو تو احتساب کا نام لینے والوں کے سر قلم کر دیے جائیں کرپشن کرنے
والے ایسے ،،پھنیر سانپ ہیں جو پھن پھلائے وزیر اعظم کی قیادت میں چیرمین
نیب کی طرف بڑھ رہے ہیں،،اب اسے ڈستے ہیں یا ماضی کی طرح ایک دو لائن کا
بیان آتا ہے کہ چیرمین نیب چھٹی پر چلے گئے یا خیبر پختونخوا کی طرح استعفی
دیکر کرپٹ سیاستدانوں سے جان چھڑا گئے یہ طے ہے کہ پاکستان میں حرام خوری
اور کرپشن کا بازار تب تک گرم رہے گا جب تک عدل و انصاف قائم نہیں ہو جاتا
مگر وہ کون کرے گا؟؟ایسا تو کوئی سیاستدان نظر نہیں آرہا مگر قوم کی امید
ابھی ٹوٹی نہیں ہے۔ |