کیا تیسری جنگ عظیم شروع ہوچکی ہے۔۔؟
(Syed Abdul Wahab Sherazi, Islamabad)
سعودی فوج کے میجنر جنرل فہد بن عبداللہ
المطیر نے ”شمال کی گرج“ کے عنوان سے جاری فوجی مشقوں کا معائنہ کرتے ہوئے
کہا ہے کہ ان مشقوں کا مقصد دہشت گردی کے خلاف جنگ کی تیاری کرنا ہے۔سعودی
پریس ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق جنرل عبداللہ المطیرنے جمعہ کے روز’شمال کی
گرج‘ مشقوں کا دورہ کیا اور مشرق وسطیٰ کی تاریخ کی سب سےبڑی مشقوں کے
مختلف مراحل کا جائزہ لیا۔ انہوں نے مشقوں میں حصہ لینے والے فوجی افسروں
اور جوانوں سے بھی ملاقات کی۔اس موقع پر گفتگوکرتے ہوئے جنرل المطیر کا
کہنا تھا کہ شمال کی گرج مشقوں میں حصہ لینے والے جوانوں کو شیڈول کے مطابق
اہم ذمہ داریاں سونپی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ مشقیں ہدف کے تعین،
عسکری تعاون بڑھانے اور ایک دوسرے کے عسکری اور جنگی تجربات سے استفادہ
کرنے کے لیے جارہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’شمال کی گرج‘ مشقوں کے ذریعے ہم ان مشقوں میں شامل ممالک
کی فوج کی جنگی مہارتوں کو بہتربنانے میں معاونت کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کی
حربی صلاحیتوں سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان مشقوں کے بہترین اور مثبت
نتائج جلد ہی سامنے آجائیں گے۔ انہوں نے جنگی مشقوں میں حصہ لینے والے
ممالک کا خصوصی شکریہ ادا کیا اور کہا کہ یہ مشقیں اسلامی دنیا کی جانب سے
سعودی عرب کے قائدانہ کردار کا اعتراف ہے۔ ان مشقوں کا مقصد دہشت گردی کے
خلاف جاری جنگ جیتنا اور خطے سمیت پوری دنیا میں امن واستحکام کا پیغام
پہنچانا ہے۔ سعودی عرب کی قیادت میں جاری فوجی مشقوں ’شمال کی گرج‘ میں
متحدہ عرب امارات، اردن، بحرین، سینیگال، سوڈان، کویت، مالدیپ، مراکش،
پاکستان، چاڈ، تیونس، جزائرالقمر، جیبوتی، سلطنت آف اومان، قطر، ملائیشیا،
مصر، موریتانیہ، مارشیس اور دیگر ممالک کے فوجیں حصہ لے رہیں۔ یہ فوجی
مشقیں مشرق وسطیٰ کی تاریخ کی سب سے بڑی مشقیں ہیں۔
"شمال کی گرج" کے نام سے ہونے والی یہ مشقیں شریک ممالک کی تعداد اور مختلف
اقسام کے فوجی ساز وسامان کے علاوہ جدید ترین ہتھیاروں اور اسلحے کے لحاظ
سے اپنی نوعیت کی سب سے بڑی مشق ہے۔ مشقوں میں 20 ممالک کے جدید ترین جنگی
طیاروں، توپوں، ٹینکوں، فوجی دستوں، طیارہ شکن نظام، بحری افواج کی وسیع
پیمانے پر شرکت صلاحیتوں کے اس حجم اور اعلی درجے کی عکاس ہے جو یہ ممالک
رکھتے ہیں۔یہ مشقیں اس بات کا بھی واضح پیغام ہیں کہ سعودی عرب اور اس کے
شریک دوست اور برادر ممالک تمام تر چیلنجوں کا مقابلہ کرنے اور خطے کا امن
واستحکام برقرار رکھنے کے لیے ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔ ساتھ ہی یہ ان متعدد
مقاصد کو بھی باور کرا رہی ہیں جو خطے اور پوری دنیا کے امن کے لیے مکمل
تیاری کے دائرہ کار میں شامل ہیں۔
گذشتہ چھ سات ماہ پہلے سے ہی حالات کے تیور دیکھ کر ہی کئی ماہرین اور
تجزیہ کاروں نے یہ کہنا شروع کردیا تھا کہ 2016کے شروع تک تیسری عالمی جنگ
چھڑ سکتی ہے، بلکہ کئی ماہرین نے تو یہاں تک بھی حساب کتاب لگالیا ہے کہ اس
جنگ میں سب سے زیادہ کون کون سے ملک متاثر ہوں گے اور کون کون سے ملک کم
متاثر ہوں گے۔ اب چونکہ واقعتا حالات تیسری جنگ عظیم کی طرف تیزی سے بڑھ
رہے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ تیسری عالمی جنگ شروع ہوچکی ہے تو مبالغہ
نہ ہوگا۔ جہاں تک اس جنگ کی تباہ کاریوں کا تعلق ہے تو اس کا اندازہ ابھی
سے ہی شام کے حالات، وہاں کے مختلف شہروں ”حمص‘ وغیرہ کے کھنڈرات، کروڑوں
لوگوں کی ہجرت، لاکھوں کی شہادت اور بے یارومددگار بھوکے پیاسے پڑے ہوئے
لوگوں سے کیاجاسکتا ہے۔شام ہی وہ ملک ہے جو حقیقی قیامت کا میدان بنے گا،
لیکن اس حقیقی قیامت کے آنے سے پہلے بھی وہاں قیامت کا منظر ہے، عجیب اور
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک طرف ایران ،روس اور بشارالاسد کی فوجیں ہیں تو
دوسری طرف امریکا کی سربراہی میں نیٹو اتحاد۔ بظاہر دونوں کے مفادات الگ
الگ ہیں لیکن دونوں فریق شام کے مظلوم مسلمانوں کو ہی بمباری کا نشانہ بنا
رہے ہیں۔جبکہ تیسری طرف 34اسلامی ممالک کا اتحاد سعودی سربراہی میں قائم
ہوا ہے۔ اسی طرح ترکی نے بھی شام میں گھس کر کاروائیاں شروع کردی ہیں، اسی
وجہ سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ترکی کا اس طرح کاروائیاں کرنا دنیا کو
تیسری جنگ عظیم میں دھکیلنا ہے۔
ایک طویل عرصے کے بعد مسلمان ممالک نے ہمت کرکے کھلے عام نہ صرف اتنا بڑا
اتحاد قائم کیا ہے بلکہ سب سے بڑی جنگی مشقیں شروع کرکے دنیا کو واضح پیغام
بھی دے دیا ہے کہ اب دہشت گردی برداشت نہیں کی جائے گی۔ جنگی مشقیں شروع
ہوتے ہی ان کا سب سے پہلا اثر روس پر پڑا ہے چنانچہ روس نے بشارالاسد کو
وارننگ دی ہے کہ شام کے مسئلے کو جلد از جلد حل کیا جائے ورنہ روس کسی بھی
وقت اس اتحاد سے الگ ہوسکتا ہے۔ان تمام حالات سے یہی اندازہ ہورہا ہے کہ یہ
جنگ مزید تیز ہوگی، اور حالات بالکل اسی طرف جارہے ہیں جن کی طرف احادیث
میں واضح طور پر اشارے موجود ہیں۔ایسے حالات میں ہمیں بھی ذہنی طور پر تیار
رہنا چاہیے، اور ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے خیروعافیت کی دعا کا اہتمام بھی
کرنا چاہیے۔ |
|