محنت کامیابی کی چابی

دوسری جنگ عظیم سے پہلے جاپانی خود کو دنیا کی بہترین قوم سمجھتے تھے۔ وہ خود کو سورج دیوتا کی اولاد سمجھتے تھے اور ان کا نعرہ تھا جنوبی ایشیاصرف جاپانیوں کے لیے ہے وہ 1873ء سے 1945ء تک اسی جذبے کے تحت لڑتے رہے اور اس میں انہیں کچھ کامیابیاں بھی ملیں۔ مثلاََ انہوں نے منیلا، سنگاپور اور رنگون کے بعض علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ لیکن تقدیر کچھ اور ہی کرنا چاہتی تھی۔امریکہ نے اگست 1945ء میں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر بم برسائے۔ اور جاپانیوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ اہل ِجاپان کے لیے یہ بہت بڑ اصدمہ تھا اور احساس تفاخر کی گود میں پلی قوم کے لیے شکست تسلیم کرنا ناممکن تھا۔ دوسری طرف تقدیر اپنا فیصلہ سنا چکی تھی۔ 14اگست 1945ء کی شام شاہِ جاپان آن ائیر ہوئے اور انہوں نے اپنی قوم کے نام ریڈیو پہ ایک پیغام نشر کیا کہ ”ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک عظیم امن کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں۔ہم انہیں ایک ایسا ملک دینا چاہتے ہیں جو امن کا علمبردار ہو، جس کی بنیادیں اقتصادی خودمختیاری پر رکھی گئی ہوں اور جو ساری دنیا کے لیے ایک مثال ہو۔اس کے لیے ہمیں سخت محنت کرنا پڑے گی ہمیں اپنے احساس ِبرتری سے نکلنا ہوگا۔ ہمیں آنے والی دنیا کوحقیقت کی نظر سے دیکھنا ہو گا اور ہمیں اپنی موجودہ شکست کو تسلیم کرنا ہوگا، آج ہمیں وہ برداشت کرنا ہے جو ہمارے لیے ناقابل ِبرداشت ہے، اور آج ہمیں وہ تسلیم کرنا ہے جو ہمارے دل و دماغ تسلیم نہیں کرنا چاہتے۔“ جیسے ہی یہ پیغام نشر ہوا جاپانی قوم دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔ ان کے یہ پیغام موت سے زیادہ تکلیف دہ تھا۔ کئی جاپانیوں نے اپنے آپ کو اسی غم میں ہلاک کر دیا۔ یہ صدمہ ان کے لیے زندگی کا سب سے بڑا اور بُرا صدمہ تھا۔ پورے جاپان میں سوگ کا منظر تھا۔

ہیروشیما اور ناگاساکی کی تباہی کے بعد جاپان بالکل بدل چکا تھا، ساری صنعتیں تباہ ہوچکی تھیں، ملیں اور فیکٹریاں ملبے کا ڈھیر بن چکی تھیں، لاکھوں لوگ موت کی وادی میں جاچکے تھے، ہزاروں جاپانی زندگی اور موت کی کشمکش میں تھے، کنویں زہر آلود تھے، ہوا زہریلی گیسوں کا مرکب بن چکی تھی، اور پورے جاپان میں موت کا راج تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب جاپانیوں نے اپنے احساس برتری سے نکل کر حقیقت کی آنکھ سے دیکھنا شروع کیا۔ انہوں نے اپنی شکست تسلیم کرلی، اور وہ ایک نئے جاپان کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے۔

اس کے بعد جاپانیوں نے اپنی تمام تر توجہ سائنس، ٹیکنالوجی اور اقتصادیات کی طرف موڑ دی، اور تقریباََ ہر جاپانی نے اپنے گھر میں چھوٹی فیکٹری لگائی اور مصنوعات تیار کرنا شروع کر دیں۔ وہ لوگ سولہ سولہ گھنٹے کام کرنے لگے۔ انہوں نے اپنا نظام ِتعلیم درست کیا۔ نیا سلیبس ترتیب دیا۔ ذہین طلباء کو امریکہ اور یورپ کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں تعلیم کے لیے بھیجا۔ پرائمری کے اساتذہ کی تربیت کی، لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کو بہتر بنایااور پوری جاپانی قوم نے امانت، دیانت،وقت کی قدر اور وطن کی محبت کو اپنا مقصد بنا لیا۔ اس طرح پھر صرف تیس سال بعد ہیروشیما اور ناگاساکی پھر سے جاپان بن گئے۔ جاپانی مصنوعات امریکی، یورپی اور ایشیائی منڈیوں میں راج کرنے لگیں اور الیکٹرونکس اور آٹوموبائل کے شعبے میں جاپان دنیا کا امام بن گیا۔ خود امریکی اپنے ملک کی چیزیں چھوڑکر جاپانی مصنوعات کو ترجیح دینے لگے۔1945ء کے بعد جاپان امریکہ کا مقروض ہوگیا تھا لیکن اب امریکہ جاپان کا اربوں ڈالر کا مقروض ہے۔اور آج کہا جاتا ہے کہ جاپان سب سے بڑا مہاجن اور امریکہ سب سے زیادہ مقروض ملک ہے۔ ایک دور میں امریکی کمپنی آئی بی ایم کمپیوٹر کی دنیا میں سب سے آگے تھی مگر آج جاپانی کمپنیوں نے آئی بی ایم سے کہیں بہتر کمپیوٹر مارکیٹ میں لاکر رکھ دیے ہیں۔
آج ہمارا ملک پاکستان بے شمار سنگین بحرانوں کا شکار ہے۔ ہماری حکومتیں اورعوام ترقی کی راہ کی بجائے پستی کی جانب گامزن نظر آرہی ہیں۔ قوم کا ہر فرد قریباََ ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے کا مقروض ہے۔ہمارا حل بھی یہی ہے کہ ہم جاپانیوں کی طرح اپنی غلطی کو تسلیم کریں، پوری قوم تصورات سے باہر نکلے، ہمیشہ حقیقت کی آنکھ سے حالات کا مشاہدہ کریں، اور آئندہ بیس تیس سال کی اقتصادی پالیسی وضع کر کے جاپانیوں کی طرح اس میں جت جائیں۔ جب تک قوم کا ہر فرد اس دوڑ میں شامل نہیں ہوگا تب تک تبدیلی نہیں آئے گی اور جب تک پاکستان کا ہر شہری خود کو اقتصادی طور پر مضبوط نہیں کرے گا تب تک یہ ملک مضبوط نہیں ہوگا۔ جب تک ہماری حکومت چھوٹی صنعتوں کو فروغ نہیں دے گی، تب تک ہمارا کسان، مزدور، معمار، لوہاراور دیگر کاریگر خودمختار نہیں ہو سکیں گے۔ جاپانیوں کی طرح ہمارے ہاں بھی گھروں میں فیکٹریاں لگانا ہوں گی۔ ہمارے نوجوان سڑکوں پر گھومنے اور چوکوں چوراہوں پر محفلیں سجانے کے بڑے ماہر ہیں، یہ ہر وقت شارٹ کٹ کے چکر میں رہتے ہیں، ان کی سوسائٹی میں کام اور صرف کام کے کلچر کو پروموٹ کرنا ہوگا۔اگر ہم، ہمارے حکمران اور ہمارے عوام واقعی چاہتے ہیں کہ ہم آئی ایم ایف اور ورلڈبینک سے جان چھڑا کر اقتصادی طور پر خودمختار ہوجائیں تو ہمیں آئندہ بیس تیس سال کے لیے نظریاتی طور پر جاپانی بننا ہوگا۔ اگر ہم نے اب بھی اقتصادی طور پر خودمختار ہونے کا فیصلہ نہ کیا تو پھر یہ نظام ایسے ہی چلتا رہے گا۔ نہ بجلی کا بحران ختم ہوگا، نہ اقتصادی خوشحالی آئے گی اور نہ دہشت گردی کا جن بوتل میں قابو ہوگا۔اور ہم کبھی بھی ترقی یافتہ قوم نہیں بن سکیں گے۔ملکی اور معاشرتی ترقی کے لیے حکومت اور عوام سب کو اپنے اپنے حصے کا کام کرنا ہوگا۔ ترقی کے لیے تبدیلی اور تبدیلی کے لیے محنت ضروری ہے۔
تحریر: عامر خان سوہیہ
Aamir Khan
About the Author: Aamir Khan Read More Articles by Aamir Khan: 3 Articles with 2465 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.