محبت کیا ہے اس کو جینا اور جاننا آسان ہے
لیکن کہنا مشکل ہے ، جیسے کوئی اگر مچھلی سے یہ پوچھے کہ سمندر کیسا ہے تو
وہ سمندر کی جانب سے اشارہ کرکے کہہ دے گی کہ ایسا ہے ، لیکن پوچھا جائے کہ
کہو کیا ہے ؟ تو مچھلی کے لئے اس سوال کا جواب دینا آسان نہیں ہوگا۔انسان
پانچ چھ ہزار سال سے صرف باتیں کر رہا ہے محبت کیلئے گیت گا رہا ہے لیکن
محبت کیلئے اس کے دل میں جگہ نہیں ہے ۔ اگر ہم انسانی ذات کا بغور مطالعہ
کریں تو انسانی زبان میں محبت سے زیادہ غیر حقیقی لفظ کہیں اور نہیں ملے گا۔
ایسے کسی کی ذاتی رائے بھی سمجھا جا سکتا ہے لیکن حقیقت سے منہ بھی نہیں
موڑا جا سکتا۔محبت کے لئے جان دے دینا دودھ کی نہریں نکال دینا ، ایسے
افسانوی قصوں کا حقیقی زندگی سے کوئی واسطہ نہیں ہے ۔ مذہب بھی محبت کی
باتیں کرتا ہے لیکن آج جس قسم کا مذہب انسانی ذات کے اوپر چھا سا گیا ہے اس
مذہب نے انسان سے اس کی محبت کے سارے دروازے بند کردیئے ہیں اور نہ اس
سلسلے میں کوئی زمینی تقسیم حائل ہے بلکہ مشرق تا مغرب سب اس کا شکار نظر
آتے ہیں ۔اگر ایسے یوں کہا جائے کہ محبت نے ابھی تک ارتقا کا سفر ہی شروع
نہیں کیا تو بجا نہ ہوگا ۔ یہ اکیلا انسان ہی جس نے امرت کو زہر میں تبدیل
کردیا ۔اس دنیا میں کچھ بھی زہر نہیں تھا سب آب حیات تھا لیکن رب کائنات کی
اس تخلیق میں زہر کا رنگ بھرنے والا بھی انسان ہی ہے۔ غرو و تکبر اس کا
پہناوا بن چکا ہے تو اپنے جیسے انسان کے خلاف ہوجانا بھی حضرت انسان کا ہی
کارنامہ ہے ، یہ انسان ہی ہے کہ جو انسان کا دشمن ہے ان تمام اسباب کی وجہ
اس کے سوچ کا وہ سرطان ہے جو اس نے خود اپنی رگ و پے میں اتر چکا ہے ۔ اس
بات کو تھوڑا سا سمجھنا ہوگا کہ اگر یہ بات ظاہر نہ ہو کہ انسان کی زندگی
میں محبت کا امکان تک باقی نہیں رہے گا کیونکہ جن وجوہات کی بنا پر ہم محبت
پیدا نہیں کرسکتے وہاں نفرتیں ضرور پیدا ہوجاتی ہیں۔
ہماری زندگی میں خود پسندی کا پہلو سب سے بڑا ہتھیار ہی نہیں بلکہ تکبر و
غرور کی بنیاد ہی یہی ہے کہ وہ اپنی انا کے اس جھوٹے خول پر ہی محبت کی
تمام دیواریں گرا دیتا ہے ۔ ایک دانش وار نے مثال سمجھائی کہ ایک پنکھے
بیچنے والا ایک بادشاہ کے محل کے کونے میں کھڑا ہوکر صدا لگاتا کہ پنکھے لے
لو ، سو سال کی گارنٹی ہے ۔اس وقت عام پنکھے کی قیمت دو پیسے ہوتی تھی لیکن
وہ اپنے پنکھے کی قیمت سو روپیہ مانگتا تھا ۔ بادشاہ نے ایسے اپنے دربار
طلب کیا اور کہا کہ کیوں جھوٹ کر دھوکا دیتے ہو کہ تمھارے جیسا پنکھا اس
کرہ ارض پر نہیں ، تم سو سال کی گارنٹی کیسے دے سکتے ہو جبکہ خود تمھاری
اتنی عمر بھی ہوگی کہ نہیں ۔ اس شخص نے بادشاہ سے کہا کہ اس میں کوئی دھوکہ
نہیں۔ اگر آپ کو یقین نہیں ہے تو پنکھا خرید کر دیکھ لیں ۔ میں روز کونے
میں پنکھا بیچتا ہوں ، کوئی بات ہو تو مجھے کسی بھی وقت بلا لیجئے گا جو
چاہے سزا دے دیجئے گا۔ بادشاہ نے کچھ سوچا اور پھر سو روپیہ میں پنکھا خرید
لیا ،ایک ہفتے بعد اس پنکھے کی کچھ جھڑیاں نکل آئیں بادشاہ نے حکم دیا کہ
اس پنکھے والے کو لے کر آؤ بادشاہ یہ بھی سوچتا رہا کہ وہ اب کہاں ملے گا
وہ تو دھوکہ دیکر بھاگ گیا ہوگا ، لیکن وہ پنکھے والا موجود تھا بادشاہ کے
سامنے حاضر ہوا ۔ بادشاہ نے پنکھا ایسے دکھایا کہ یہ تو ایک ہفتے بھی نہیں
چل سکا تم نے تو سو سال کی ضمانت دی تھی ۔ اس پنکھے والے نے پنکھے کو دیکھا
اور پھر سر ہلانے لگا ۔بادشاہ حیران ہوا کہ یہ کیا ۔ اس پنکھے والے نے کہا
کہ ساری غلطی جناب آپ کی ہے ۔ بادشاہ حیرانی سے کہنے لگا کہ کیا میری غلطی
ہے ؟۔ پنکھے والے نے کہا کہ آپ نے پنکھا کیسے ہلایا تھا ۔ بادشاہ نے پنکھا
ادھر ادھر کرکے ہلایا اور کہا کہ اسیطرح جیسے سب ہلاتے ہیں۔پنکھے والے نے
کہا کہ نہیں آپ کو پنکھا رکھ کر اپنا سر اس کے سامنے ہلانا چاہیے تھا ، اگر
آپ ایسا کرتے توپنکھا کبھی خراب نہیں ہوتا ، آپ نے استعمال غلط کیا ہے۔
ہم نے بھی محبت کا استعمال غلط کیا ہے ، مذاہب میں تفریق پیدا کی ، مسالک
میں شراکت داری بنائی ، پیشوائیت کو آسمانی حکم سمجھا اور درندگی کو بقا
انسانی سمجھ کر امن کے لئے جنگ کو ناگزیر قرار دے دیا۔دنیا کا کوئی مذہب
نفرت نہیں سیکھاتا لیکن مذہب کی بنیاد پر ہم نے نفرتیں تقسیم کرنا شروع
کردیں ، کتابیں کھول کر پڑھنے کے بجائے بغل میں دبانے کو علم کا خزانہ ہاتھ
لگنے کی گواہی دیتے ہیں۔ تشدد کا رجحان بڑھتا چلا جاتا ہے کہ اس کو ردعمل
قرار دیتے ہیں ، کسی کو کسی کے مقام سے نیچے لانا ، ترقی کا معیار قرار
دیتے ہیں ۔چھوٹی باتوں کو رائی کا پہاڑ بنا دینا ، دانشوری جھاڑنا سمجھتے
ہیں۔ایک محبت بھرا ماحول صرف حسد کی آگ میں جل کر خاک ہوجاتا ہے کہ اس میں
اس کی ’ میں ‘ متاثر ہوئی ۔ اپنی تین دن کی زندگی بیشتر ایسے انسان دیکھے
جن میں انا کا خول اس کی ذات کے قد سے بڑھا تھا ، اس کی تخریبی سوچ اس کی
مثبت تعمیر سے زیادہ تھی ۔ سمجھنا یہ ضروری تھا کہ انسان خود اپنے ہی انسان
کا دشمن کیون بن جاتا ہے تو صرف ایک بات ہی سمجھ میں آتی ہے کہ یہ سب اس کی
سوچ کا سرطان ہے جو ایسے اس عمل کے لئے مجبور کردیتا ہے ۔کسی کی قابلیت،
کسی کا خلوص ،کسی کی محبت ،کسی کی دوستی سب کچھ اس وقت بے معنی ہوجاتا ہے
جب وہ اپنی سوچ کے سرطان میں مبتلا ہوکر اپنی ذات کو خود آگ لگا رہا ہوتا
ہے۔ ہم ایک دائرے سے باہر نکل کر دیکھیں تو واضح نظر آجاتا ہے کہ ایک مسلک
والا دوسرے مسلک کو اس لئے غلط سمجھتا ہے کیونکہ وہ اس کے مسلک کا نہیں ،
ایک مذہب والا دوسرے مذہب کا اس لئے مخالف ہوتا ہے کیونکہ وہ اس کے مذہب کا
حامی نہیں ایک سیاسی جماعت کا کارکن دوسرے سیاسی جماعت کا اس لئے پسند نہیں
کرتاکیونکہ ایسے اپنی’ میں‘ ، میں اپنی انا کا خول بہتر دکھائی دیتا ہے اسی
طرح ہر شعبہ ہائے زندگی میں ہم دیکھیں تو یہی وہ ’میں‘ ہے جس نے اسے ترقی
نہیں کرنے دی کیونکہ اس کی سوچ صرف یہی ہے کہ میں نے اپنا وقت فروخت کیا ہے
اس لئے جو ذمے داری ہے وہی میری ہے ، اس نے اپنی ذات کے خول میں خود کو اس
قدر ڈھانپ لیا ہے کہ اس میں تجسس اور جستجو کی آرزو ہی ختم ہوگئی ہے۔ صحافت
کو سیاست بنا دیا ہے تو سیاست کو حاکمیت میں تبدیل دیکھنا اس سوچ کا سرطان
ہے جو ہم سب میں وارد ہوچکا ہے۔ ہم کسی کے اخلاص کو اس لئے جگہ نہیں دیتے
کیونکہ وہ خود کولہو کے بیل کی طرح آنکھ پر پٹی باندھے گھومتا جارہا ہے اور
یہ سمجھ رہا ہے اس نے کافی سفر کرلیا لیکن وہ اب بھی اسی جگہ کھڑا ہے جہاں
سے وہ چلا تھا۔اس کی نظر میں شاہین کی دور بینی نہیں ہے کہ اتھاہ گہرائی
میں بھی اس کی نظریں بھانپ جائیں کہ اسے کہاں سے اپنا شکار ملے گا ، وہ ایک
سیدھے تیز تیر کی طرح اپنے نشان پر آتا ہے اور آناََ فاناََ اپنے پنجوں میں
شکار دبوچ کر پھر آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہوتا ہے۔ہمیں اس سوچ کو
اپنانا ہوگی اور اپنی پرواز بلند رکھنے کیلئے محبت کے اصلی معنوں کے ساتھ
انسانیت پیدا کرنا ہوگی۔ ایک دوسرے کا احترام کرنا ہوگا ، انسان کو انسان
سمجھنا ہوگا۔ جب تک ہم انسان کو انسان نہیں سمجھیں گے ہم خود بھی انسان
کہلانے کے قابل نہیں بن سکیں گے ، قدرت نے ہر شخص کیلئے ایک کردار تخلیق
کرکے ایسے آزاد چھوڑ دیا ہے کسی حیوان کی طرح مقید نہیں رکھا تو پھر کیوں
ہم خود کو اپنے خول ، غرور ، تکبر اور مفادات کیلئے فروعی آگ میں جھلس رہے
ہیں۔دنیا کو ایک پر امن معاشرے کی ضرورت ہے ، اس کے لئے شروعات ہمیں اپنے
گھر سے ہی کرنا ہوگا ۔
امن کے لئے جنگ کو رد کرنا بھی ہوگا لیکن امن کے نام پر سر جھکانے کی بزدلی
سے طاقت ور کو عفریت بننے سے بھی روکنا ہوگا ۔ یہی ہماری سوچ اپنے ماحول
میں پیدا کرنا ہوگی کہ ہم سب ایک دائرے میں کام کر رہے ہیں لیکن اس دائرے
کو توڑنے سے ایک کا فائدہ نہیں سب کا نقصان ہوگا کیونکہ جو عمل اس نے کسی
ایک کیلئے دوہرایا اس نے دوسرے انسان کو وہ طریقہ سیکھا دیا۔مشکل ہے لیکن
ناممکن نہیں ہے۔اپنی ذات کی انا اور خود پسندی کے خول کو توڑ دیجئے ، سوچ
کے سرطان کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔اپنے اس جھوٹے خول کی وجہ سے ہی تو عدم
برداشت کا ماھول بنا ہوا ہے ، عدم برداشت کو ختم کرنا ہوگا کوئی جہاں جیسا
بھی ہے ایسے یہ سمجھنا ہوگا کہ رب کائنات نے جو تخلیقی صلاحیت کسی دوسرے کو
دی ہے اسی نعمت سے تم کو بھی نوازا ہے ۔لیکن اس کا استعمال اگر غلط کرو گے
اور اپنی انا کے جھوٹے خول میں اس پنکھے والے کی طرح بضد رہو گے تو کبھی
اپنی سوچ کے سرطان سے نجات نہیں پا سکتے اور اس بات کی ضمانت لائف ٹائم میں
دیتا ہوں۔ |