خوش فہمی
(Dr Khalid Hussain, Okara)
خوش فہمی انسان کو منزل سے دور لے جانے میں
اہم کر دار ادا کرتی ہے ،جب خوش فہمی کے شکار کو علم ہوتا ہے کہ وہ اس کی
غلط فہمی تھی اس وقت تک وہ اپنی منزل سے کافی دور جا چکا ہوتا ہے اور واپس
اپنے ٹارگٹ تک پہنچتے پہنچتے اس کے پاس کچھ باقی نہیں بچ پاتا۔ پاکستان کی
سیاسی تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ایک بات بڑی شدت سے ابھر کر سامنے
آتی ہے کہ ہمارے ماضی کے تمام حکمرانوں نے ہمیشہ خوش فہمی میں ہی اقتدار کا
وقت گزارا اور کوئی عملی قدم نہ اٹھایا جو تاریخ کا حصہ بنا ہو،تمام
حکمرانوں کے مہر بانیوں سے ملک کا یہ حال ہے کہ ہمارا بجٹ صرف خسارہ ہی
خسارہ ہے،غلط اعداد وشمار اور بیرونی امداد کی خوش فہمی کی بنیاد پر بننے
والے بجٹ نے ہمیشہ ہمارا بھرکس نکال کر رکھ دیا۔ بین الاقوامی معاملات اور
تعلقات کے حوالے سے بھی ہماری حالت باالکل اسی طرح کی ہے ہم نے بے جا
توقعات ان ممالک سے وابستہ رکھیں جنہوں نے ہمیشہ ہمارے لئے گڑھے کا انتظام
کیالیکن نہ جانے کیوں ہم ماضی کو فراموش کر دینے کے عادی ہیں یہ بات اظہر
من الشمس ہے کہ جو قومیں ماضی سے سبق نہیں سیکھتیں وہ ہمیشہ ناکام رہتی ہیں
اور ان کی اقوام عالم میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ایک وقت آتا ہے کہ اس سے
چھوٹے اور کمتر ممالک بھی ہر لحاظ سے اس کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں اور جن کے
لئے وہ مدد اور آسرا کا موجب ہوتا تھا اب وہ ڈکٹیشن دیتے نظر آتے ہیں۔
اتنی تمہید باندھنے کا مقصد صر ف یہ تھا کہ ہمارے حکمرانوں اور ہم نے ابھی
تک ماضی کی غلطیوں کو درست نہیں کیا بلکہ غلطی پر غلطی کرتے جار ہے ہیں،
حکمرانوں کو تو اپنے اقتدار سے پیار ہے اور اسے طویل تر کرنے کیلئے لمبی
تانے ہوئے ہیں جبکہ ہم نے ترقی کے شارٹ کٹ کیلئے اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی
چلانے سے گریز نہیں کیاامریکن اور انڈین نے ہمیشہ ہماری پیٹھ میں چھرا
گھونپا لیکن ہم نے پھر بھی دفاعی، معاشی لحاظ سے ہونے والے فیصلوں میں ان
کے پلڑے میں ہی وزن ڈالا اور ان ممالک سے نظریں چرائیں جنہوں نے ہمیں آڑے
وقت میں سنبھالا۔ 1965 اور 1971 کی جنگیں ہمارے سامنے ہیں جنہوں نے ہماری
عسکری اور سیاسی قیادت کے سامنے شیشہ کردیا کہ اقوام عالم میں ہمارا کون
ہمدرد اور کون دشمن ؟ اس کے بعد کی سرحدی چھڑپیں اور مخصوص سرحدی مقامات پر
حملوں اور قبضوں نے صورتحال کو مزید واضح کر دیا۔ملک کے اندر خانہ جنگی کی
صورتحال میں کون کون شامل ہے اور کون کون اسے ہوا دے رہا ہے یہ ہماری سیاسی
اور عسکری قیادت سے ڈھکا چھپا نہیں لیکن افسوس کہ ہماری سیاسی قیادت اور
عسکری قیادت کی ترجیحات مختلف ہیں اور دونوں ایک صفحہ پر نہیں بلکہ الگ الگ
منزلوں کی طرف گامزن ہیں سیاسی قیادت آج بھی انڈیا سے محبت کی پینگیں
جھولنے کیلئے بے چین ہیں جبکہ عسکری قیادت ملک سے انڈین کے بچھائے جال کو
ختم کرنے کیلئے کوشاں ہیں ہر روز کوئی نہ کوئی انڈین خفیہ ایجنسی کا ایجنٹ
گرفتار ہورہا ہے،غیر ریاستی فورس کے خلاف جنگ جاری ہے جسے انڈین تربیت دے
رہے ہیں ہماری سیاسی پارٹیوں کے ورکرز گرفتار ہو رہے ہیں اور دوران تفتیش
یہ بات سامنے آرہی ہے کہ را نے ان کو تربیت دی تھی، تو ایسے حالات میں
ہماری سیاسی قیادت کس منہ سے کہتی ہے کہ حکومت اور آرمی ایک صفحہ پر ہیں ؟ہمارے
سکولوں پر انڈین افغانی ٹرینڈ عناصر حملے کر رہے ہیں، ہماری سرحدی پوسٹوں
پر دن دیہاڑے اور اوقات نماز میں انڈین آتے ہیں اور درجنوں آرمی جوانوں کو
شہید کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں ،غیر ملکی سیاحوں اور کھلاڑیوں پر حملے کئے
جاتے ہیں اور انہیں اغوا کر کے اقوام عالم میں ہمیں تنہا کیا جارہا ہے،
کوئی سپورٹس مین ہمارے ملک آنے کو تیار نہیں ، نہ تو پاکستان کو اپنے ملک
میں کھیلنے کی اجازت انڈیا دیتا ہے اور نہ ہی خود انڈین ٹیموں کو پاکستان
میں آنے دیتا ہے، انڈین وزیر دفاع ابھی چند دن پہلے پریس کانفرنس کرتے ہوئے
کہہ رہے تھے کہ ہمیں علم ہے کہ ہم نے پاکستان کو کہاں سے اور کیسے زخم دینا
ہے ؟ہم وقت اور مقام کا خود تعین کرینگے ،لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے
کہ محترم وزیر اعظم نوازشریف صاحب نے پاکستان میں تعینات انڈین ہائی کمشنر
گوتم بمبا والے سے ملاقات میں کہا کہ ہمارے دشمن مشترکہ ہیں اور ان کے ساتھ
ہمیں مل کر جنگ کرنا ہوگی ۔خارجہ سطح پر مذاکرات کو فورا بحال کرنا چاہئے
کیونکہ ہم اچھے تعلقات سے سماجی اور اقتصادی فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔ہمارے
بھولے وزیر اعظم صاحب شاید تاریخ پرنظر نہیں دوڑاتے کہ کیسے اقتصادی میدان
میں انڈین نے ہمیں بین الاقوامی مارکیٹ سے کک آؤٹ کیا، ہماری ہی پراڈکٹ
چاول وغیرہ کو خرید کر اپنے نام سے بیرونی دنیا میں فروخت کیا اور اپنی
ناقص اجناس کو ہمارے کھاتے میں ڈال دیاآج انڈین چاول کی ایک بڑی مارکیٹ بن
چکا ہے میں اگر تفصیل میں جاؤں توصفحات کم پڑ جائیں گے،سماجی اور سیاسی
حوالے سے اوپر میں نے انڈین وزیر دفاع اور وزیر خارجہ کے بیانا ت کو نقل
کیا ہے تو پھر آخر ہماری سیاسی قیادت کس خوش فہمی میں مبتلا ہے،کیوں انڈین
محبت میں اتنا آگے جارہی ہے کہ اسے اپنے جگر گوشے بھی بھول گئے جنہیں انڈین
تیار کردہ دہشت گردوں نے آرمی سکول میں جانوروں کی طرح ذبح کیا۔ہمارے گلی
محلوں میں، بس اسٹینڈز، ہسپتالوں،تفریحی مقامات پر انڈین دھماکے اور
کاروائیاں ذہنوں سے مٹ نہیں پائیں،چیک پوسٹوں اور سرحدی چوکیوں پر انڈین
حملوں میں درجنوں فوجیوں کی شہادت کو آپ کس کھاتے میں ڈالتے ہیں جناب وزیر
اعظم۔قبائلی علاقوں، فاٹا پاٹا میں جاری آپریشن آخر کن لوگوں کے خلاف ہے،
ہماری افواج پاکستان ملک کے اندر جاری آپریشن میں جو جانوں کا نذرانہ پیش
کررہی ہے آخر وہ آپ کس کے کھاتے میں ڈالیں گے کیونکہ بقول آپ کے ہمارے اور
انڈیا کے دشمن مشترک ہیں۔ نہیں وزیر اعظم صاحب خوش فہمی سے نکلیں ،اس سے
پہلے کہ وقت گزر جائے اور آپ بھی منزل سے دور ہو جائیں۔ |
|