اُ ٹھ مُسلِم پاکستان بچَا۔ایک اچھی کتاب
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
اُٹھ مُسلم پاکستان بچَا ، مولوی فرقان احمد انصاری (علیگ) کی آپ بیتی ہے، تحریک پاکستان کی تاریخ ہے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اس دور کی کہانی بھی ہے جس دور میں مصنف اس جامعہ سے وابستہ رہے، اس تصنیف کو بلا شبہ پاکستان کے قیام کے بنیادی فلسفہ یعنی دو قومی نظریہ کی تفسیر بھی کہا جاسکتا ہے۔ مولوی فرقان احمد انصاری (علیگ) کے صاحبزادے مولوی محمد سلطان عالم انصاری (ایڈووکیٹ) نے مہارت اور خوبصورتی سے مرتب کیا ہے جس میں حقِ فرزندگی کا اسلوب بھی نمایاں ہے۔
|
|
|
اُ ٹھ مُسلِم پاکستان بچَا |
|
اُٹھ مُسلم پاکستان بچَا ،تحریک پاکستان کے
مجاہد، قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھی ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور علی
گڑھ میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھنے والے مولوی فرقان احمد انصاری (علیگ) کی
آپ بیتی ہے، تحریک پاکستان کی تاریخ ہے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اس
دور کی کہانی بھی ہے جس دور میں مصنف اس جامعہ سے وابستہ رہے، اس تصنیف کو
بلا شبہ پاکستان کے قیام کے بنیادی فلسفہ یعنی دو قومی نظریہ کی تفسیر بھی
کہا جاسکتا ہے۔ مولوی فرقان احمد انصاری (علیگ) کی یادداشتوں، خیالات ،
افکار ، نظریات ، احساسات اور فکر کو ان کے صاحبزادے مولوی محمد سلطان عالم
انصاری (ایڈووکیٹ) نے مہارت اور خوبصورتی سے مرتب کیا ہے جس میں حقِ
فرزندگی کا اسلوب بھی نمایاں ہے۔
زیر نظر تصنیف کو شائع ہوئے دس برس ہوچکے ہیں۔ برادر سرور صمدانی جن کا
تعلق ملتان سے ہے نے مارچ2007میں یہ کتاب مجھے ارسال کی تھی ۔ غالباً ان کی
خواہش یہ بھی رہی ہوگی کہ میں اس کتاب کے بارے میں کچھ لکھوں ، میں نے کتاب
کا تفصیلی مطالعہ بھی کیا کتاب پر درج میرے کچھ نوٹس اس بات کی نشاندھی
کرتے ہیں لیکن نہیں معلوم کیا وجہ ہوئی کہ میں اس پر تبصرہ نہ لکھ سکا۔ وقت
گزرتا چلا گیا۔ یہ کتاب میری ذاتی لائبریری کا حصہ بن گئی ، کالج سے
ریٹائرمنٹ اور پھر جامعہ سرگودھا اور جامعہ منہاج میں درس و تدریس سے فارغ
ہوکر واپس کراچی آیا تو میری ذاتی لائبریری کی رونق ماند پڑی ہوئی تھی،
اداسی طاری تھی وہ مجھ سے میری عدم موجودگی کا گلہ کر تی نظر آئی ۔ کتاب تو
ویسے بھی ایک ایسا ساتھی اور دوست ہے کہ جب ہم چاہیں تو وہ ہم سے مخاطب
ہوتی ہے اگر ہم نہ چاہیں تو وہ چپ چاپ خاموشی سے ایک ہی جگہ پڑی رہتی ہے
اور ہم سے ہماری بے رخی کا گلا بھی نہیں کرتی۔ جب ہم چاہیں وہ کچھ وقت
ہمارے ساتھ گزارنے پر تیار ہو جائے اور جب ہم پسند کریں تو سائے کی طرح
ہمارے ساتھ لگی رہے، بلکہ ہماری خواہش ہو تو ہمارے جسم و جان کا جزو بن
جائے۔ جب تک ہم چاہیں خاموش رہے اور جب ہمارا جی اس سے بولنے کو چاہے
توچہکنے لگے۔ہم کسی کام میں مصروف ہوں وہ خلل انداز نہیں ہوتی اورہم تنہائی
محسوس کریں تو وہ ہماری شفیق ساتھی بن جاتی ہے۔ کتاب ایک ایسا قابل اعتماد
دوست ہے جو کبھی بے وفائی نہیں کرتا اور نہ کبھی ہماراساتھ دینے سے جی
چراتا ہے۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
ہم نشینی اگر کتاب سے ہو
اس سے بہتر کوئی رفیق نہیں
یہ وہ وقت تھا جب مجھے احساس ہوا کہ جب میں نہ رہونگا تو میرے اس علمی
ذخیرے کا کیا بنے گا،اب میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنی لائبریری کو کسی ایک
یا ایک سے زیادہ کتب خانوں کو عطیہ کردوں تاکہ میرا یہ علمی سرمایہ کسی
کباڑی کے توسط سے فٹ پات کی ذینت بننے سے محفوظ رہے۔ میں چاہتا تھا کہ کسی
ایسی لائبریری کو یہ کتابیں عطیہ کروں جو انہیں میرے ہی نام سے علیحدہ
محفوظ کرلے یعنی میرے نام کا گوشہ قائم ہوجائے ۔ وفاقی جامعہ اردو کے وائس
چانسلر ڈاکٹر ظفر اقبال سے میرے مراسم تو پرانے تھے ،ملتان سے تعلق رکھنے
والے میرے دوست ڈاکٹر طاہر تونسوی صاحب کراچی آئے تو ان کے توسط سے ڈاکٹر
ظفر اقبال میرے اور زیادہ قریب آگئے۔ جامعہ اردو کی لائبریری’مولوی ڈاکٹر
عبد الحق میموریل لائبریری‘ میں اہل علم کے ذاتی ذخیرے رکھنے کی روایت ہے
کئی گوشے قائم ہیں۔ میں نے مناسب جانا کہ اپنی ذاتی لائبریری بابائے اردو
کے نام سے موسوم اس لائبریری کو عطیہ کردوں۔ یہ میرے گھر سے قریب بھی ہے
میری پہنچ میں بھی رہے گی۔ اس کے لائبریرین مختار اشرف میرے ایم اے کے
ساتھی اور دوست ہیں انہوں نے اس سلسلے میں میری رہنمائی کی اور میں نے اپنی
ذاتی لائبریری جامعہ اردو کے کتب خانے کو عطیہ کردی ، جہاں پر’گوشہ ڈاکٹر
رئیس صمدانی ‘کے تحت میری کتابیں محفوظ ہوچکی ہیں ۔ اس سے قبل میں چند سو
کتب ’ناصرعارف حسین میموریل لائبریری‘ کراچی اور اپنے مرحوم دوست ڈاکٹر
یوسف میمن کو ان کی لائبریری ’یوسف لائبریری‘ میر پور خاص کو عطیہ کر چکا
تھا۔ ان کتب خانوں میں میرے نام کا گوشہ تو نہیں لیکن کتب کو اپنے ذخیرے
میں سلیقے سے شامل کر لیا۔ ’ناصرعارف حسین میموریل لائبریری‘ میں ایک بورڈ
لگا یا گیا ہے جس پر کتب عطیہ کرنے والوں کے نام درج ہیں راقم کا نام بھی
اس بورڈ پر درج ہے۔ڈاکٹر یوسف میمن اﷲ کو پیارے ہوچکے، نہیں معلوم وہ
لائبریری اب کس حال میں ہے۔ چند دن قبل برادر سرور صمدانی کا فون آیا اور
انہوں نے مجھ سے ’اٹھ مسلم پاکستان بچا‘ پر کچھ لکھنے کوکہا اور مجھے یاد
دلایا کہ انہوں نے کتاب کی ایک کاپی مجھے بھجی تھی۔ ان کی بات درست تھی
،میں نے ان سے وعدہ کر لیا، اب فکر ہوئی کہ یہ کتاب کس لائبریری سے ملے
گی۔لکھنا تو بعد کی بات تھی سرِ دست کتاب کی تلاش کا مرحلہ شروع ہوگیا،
پہلی فرصت میں جامعہ اردو گیا اور وہاں اپنے گوشے میں یہ کتاب تلاش کی ،
موجود نہیں تھی، اب میں نے ’ناصر عارف حسین میموریل لائبریری‘ کا رخ کیا
جہاں پر یہ کتاب میرا انتظار کررہی تھی۔سوانحی ادب اور آپ بیتیوں کے ساتھ
صاف ستھری رکھی ہوئی مل گئی، دیکھ کرطبیعت باغ باغ ہوگئی اور اپنے اس فیصلے
پر اطمینان بھی ہوا کہ میں نے جو کتب برسوں کی جدوجہد کے بعد جمع کی تھیں
اب صرف میرے ہی کام نہیں آرہیں بلکہ ان سے ہر خاص و عام کو علمی فیض پہنچ
رہا ہے۔
ملتان ،بزرگوں ، اولیا ء کی سرزمین سے میرا تعلق بہت گہرا ہے وہ اس طرح کہ
قیام پاکستان کے چند ماہ بعد دنیا میں میری آمد ملتان کے قریب تحصیل میلسی
میں ہوئی۔ یہ شہر اُس وقت ضلع ملتان کا حصہ تھا۔ اس ناطے سے مجھے ملتان کی
مٹی سے جذباتی لگاؤ اور عشق ہے، اس کی مٹی میں ابدی نیند سوئے ہوئے بزرگوں
سے محبت اور عقیدت ہے، اس کی مٹی میں میرے اپنے خاندان کی بے شمار محترم
ہستیاں ابدی نیند سو رہی ہیں ۔اس لیے جب بھی ملتان کے حوالے سے کوئی بات
ہوتی ہے تو میرا دل اس جانب خود بہ خود کھچا چلا جاتا ہے۔ تابشؔ صمدانی جو
ملتان کے نامی گرامی نعت گو شاعر تھے ان سے میرے خاندانی مراسم و تعلق تو
تھا ہی، ان سے میرا روحانی طور پر عقیدت و احترام کا تعلق بھی تھا۔ سرور
صمدانی اور رہبر صمدانی تابشؔ صمدانی کے صاحبزادگان ہیں اور انہیں کہ نقش
قدم پررواں دواں بھی ہیں ، یہ بھی مجھے عزیز ہیں۔ ان دونوں کے چچا جو عمر
میں مجھ سے چھوٹے لیکن میرے بھی چچا ہیں اپنے نام کی طرح حسین ہیں ملتان ہی
کے باسی ہیں ۔ میرے عزیز دوست ڈاکٹر طاہر تونسوی ، تونسہ شریف سے تعلق
رکھتے ہیں لیکن اب ان کا قیام ملتان ہی میں ہے۔ ڈاکٹر تونسوی سے میرا تعلق
اور دوستی کی پینگیں اس وقت بڑھیں جب وہ اور میں سرگودھا یونیورسٹی کے
ٹیچرس ہاسٹل میں آمنے سامنے کمروں میں رہائش پذیرتھے، ساتھ ناشتہ، ساتھ
کھانہ، گرمیوں کی شامیں باہر کھلی فضاء میں اور سردیوں کی سرد شامیں میرے
کمرے میں گزرا کرتی تھیں۔ڈاکٹر خالد ندیم اور طارق کلیم کو یاد نہ کرنا
زیادتی ہوگی، کیا حسین دن تھے جب یاد آتے ہیں تو یادوں کی بارات چھم چھم
کرتی چلی آتی ہے۔ میلسی کے حوالے سے میرا ایک شعر پھر اصل موضوع کی جانب
دوبارہ آتا ہوں
میلسی ہے ایک شہر پانچ دریاؤں کی سر زمین پر
میں ہوں رئیس ؔاُسی آسماں کا ایک ستارہ
اُٹھ مُسلم پاکستان بچَا کے مصنف مولوی فرقان احمد انصاری کا تعلق ہندوستان
کے شہر سہارنپور سے تھا ۔ جب تک ہندوستان میں رہے علیگڑھ اور مسلم
یونیورسٹی کو اپنے اوپر اوڑھے رکھا، ان کی زندگی کا مہور مسلم یونیورسٹی
علیگڑھ تھی،یونیورسٹی میں اعلیٰ خدمات کے اعتراف میں انہیں یونیورسٹی کے
اعلیٰ ترین اعزاز ’خادم‘ سے بھی نوازا گیا، قائد اعظم کے کہنے پر مسلم
یونیورسٹی علیگڑھ میں مسلم اسٹو ڈینٹس فیڈریشن قائم کی، کالج یونین آفس سے
کانگریس کا جھنڈا اتار کر مسلم لیگ کا جھنڈا لہرایا، علیگڑھ میں مسلم لیگ
کی بنیاد رکھی،مسلم لیگ سہارنپور کے سیکریٹری اور مسلم لیگ اسٹو ڈ ینٹس
فیڈریشن کے صدر بھی رہے۔ پاکستان کی تحریک شروع ہوئی تو اس کے ہرا ول دستہ
بن گئے ۔ پاکستان قائم ہوا تو فرقان انصاری جیسا مسلم لیگی، جس کی رگوں میں
پاکستان سے محبت اور عقیدت کا خون گردش کررہاتھا بھلا کیسے ہندوستان میں رہ
سکتا تھا ، وہ پاکستان تشریف لے آئے حالانکہ ان کے گھر کے احباب ان کے
ہمراہ پاکستان نہیں آئے۔ پاکستان کے قیام کا اعلان ہونے کے بعد انہوں نے
بھارت کی سرزمین کواپنے لیے مناسب نہ جانا اور پاکستان آگئے ملتان کی
سرزمین کو اپنا مسکن بنا یا۔ انہوں نے 1960تک ملازمت کی اور پھر ریٹائر
ہوگئے اور ملتان میں وکالت کا آغاز کیا ، ملتان میں علیگڑھ اولڈ بوائز ایسو
سی ایشن کی سرگرمیوں میں شریک رہے اور مختلف عہدوں پر فائز بھی۔ وہ ملتان
کے نامور وکیل اور محترم
شخصیات میں گردانے جاتے تھے۔ 29 مئی 1997ء کو 81 سال کی عمر میں رحلت
فرمائی اورہمیشہ کے لیے ملتان کی مٹی کے ہورہے۔
ہر پڑھے لکھے شخص کی طرح فرقان انصاری نے بھی اپنی زندگی کے تجربات اور
مشاہدات کو اپنی ذات تک محدود رکھنا پسند نہیں کیا بلکہ وہ اپنے تجربات،
مشاہدات اور اس دور کی تاریخ کو آئندہ نسلوں تک پہنچانا اپنا فرض سمجھتے
تھے اس مقصد کے لیے انہوں نے اپنی آپ بیتی تحریر کی جو در حقیقت فرقاب
انصاری کی آپ بیتی ہی نہیں بلکہ یہ بقول مخدوم شاہ محمود قریشی ـ’یہ کتاب
ایک تاریخ ہے مسلمانان ہند کے اقتدار کے خاتمے کے بعد کی، تقسیم ہند سے
پہلے اور دوران تقسیم اور اس کے بعد کے حالات کی۔ اس میں ظلم و ستم کی
داستان ہے جو ہندو اور انگریز نے ہندوستان میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد
مسلمانوں کے ساتھ روارکھا، تحریک پاکستان اس کا اہم موضوع ہے‘۔ فرقان
انصاری صاحب کی یادگار داستان کو ان کے صاحبزادے مولوی محمد سلطان عالم
انصاری نے مہارت سے مرتب کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ’ ’یہ آپ بیتی ہے ایک ایسے
شخص کی جس نے ان زمانوں کا ذاتی طور پر مشاہدہ کیا اور ان تحاریک میں حصہ
بھی لیا۔ اس میں اگر ایک جانب مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی طرز زندگی ، نظامِ
تعلیم اور کردار سازی کا ذکر ہے اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی تحریک
پاکستان کی نشان دہی ہے تو دوسری جانب یہ نظریہ پاکستان’دو قومی نظریہ ‘ جو
کہ بلا آخر بنیاِ د پاکستان بنا‘ کے عوامل آشکار کرتی ہے۔اس میں اندیشوں کا
بھی بر ملا اظہار ہے جو انہوں نے اہل اقتدار کی روش دیکھ محسو س کیے اور ان
پر قابو پانے کا طریق بھی تجویز کیا‘‘۔ صہبا اختر نے کتاب اور اس کے مصنف
کی اہمیت کو اپنی نظم ’’ کتابیں‘‘میں کس خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے
کتابوں کا افسوں نہیں ٹو ٹتا
کبھی ان کا سورج نہیں ڈوبتا
مبارک ہیں وہ ہاتھ اور قلم
جو کر تے ہیں زندہ کتابیں رقم
کتابوں میں جس نے اضافہ کیا
سرِ طاق فن اکِ دیا رکھ دیا
یہ حقیقت ہے کہ کتابوں کا سورج کبھی غروب نہیں ہوتا مولوی فرقان احمد
انصاری نے اپنی آپ بیتی خوبصورت انداز سے لکھنے پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔
سجادہ نشین درگاہ حضرت بہا ء الدین زکریہ ملتانی اور سابق گورنر پنجاب
مخدوم محمد سجاد حسین قریشی نے اپنے مضمون ’میرے دوست․․ ․ ․ ․․میرے ساتھی‘
کے عنوان سے فرقان انصاری کو خوبصورت الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ ان
کا کہنا ہے کہ’’ مولوی صاحب موصوف سے میری شناسائی برسوں پرانی تھی۔ وہ صاف
ستھرے اور تعمیری ذہن کے با اصول آدمی تھے۔ بڑے ملنسار ، بذلہ سنج، خوش پوش
اور کھری کھری باتیں کرنے والے آدمی ، انھیں سیاسی اور سماجی میدانوں میں
یکساں ملکہ حاصل تھا۔ سہارنپور کے اس خاندان نے بہت جلد اپنی صلاحیتوں
،اخلاق اور ملنساری کے بل پر ملتان میں اپنامقام پیدا کر لیا تھا۔اس کی وجہ
یہ بھی تھی کہ مولوی فرقان احمد انصاری مسلم لیگ کے ہرا ول دستے کے با
صلاحیت اور کہنہ مشق سپاہی تھے۔ انہوں نے تحریک پاکستان اور قیام پاکستان
کے سلسلے میں جان توڑ کر کام کیا تھا۔ وہ سراپاا یک ایسی تحریک تھے جس کی
لوبادِ مخالف سے کبھی ماندنہ پڑسکی اور اس کی روشنی ہر سو پھیلتی
رہی‘‘۔کتاب کی ایک خاص بات سہارنپور کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کرنے
کے علاوہ دیوبند کے شہرۂ آفاق علماء کرام جن میں حضرت مولانا محمد قاسم
نانوتویؒ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ،
حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ، حضرت مولانا حافظ محمد احمد قاسمیؒ،
حضرت مولانا حافظ محمد یٰسین دیوبندیؒ، علامہ شبیر احمد عثمانیؒ، حضرت
مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندیؒ، حضرت مولانا شبیر علی تھانویؒ، حضرت
مولانا ظفر احمد عثمانیؒ اور دیگر مقتدر علماء شامل ہیں کے بارے میں اظہار
خیال کیاگیا ہے جو کتاب کو زیادہ پر لطف ، معلوماتی اور متبرک بناتا ہے۔ ان
کے علاوہ سرسید احمد خان ، علی گڑھ اور علیگڑھ یونیورسٹی کا تفصیلی ذکر ہے۔
اخباری تراشوں کے حوالے سے معلومات اچھے انداز سے سامنے آتی ہیں۔ تصاویر نے
کتاب کے حسن میں اضافہ کیا ہے، ایک حصہ تاثرات پر مشتمل ہے ۔ ڈاکٹر اسد
اریب، بیگم شامی سلطان ، صاحبزادہ فاروق علی خان ، ملک محمد رفیق رجوانہ کے
علاوہ مولوی فرقان احمد انصاری کے لیے سرور صمدانی کے نظمیہ احساسات بھی
شامل ہیں۔ہر اعتبار سے کتاب اپنے قاری کو دوران مطالعہ بور ہونے نہیں
دیتی۔اچھی اور معلومات سے بھر پر تصنیف ہے۔ سرور صمدانی کے چند اشعار پر
اپنی بات کو ختم کرتا ہوں۔
اک مجاہد تو بھی تحریک پاکستان کا
عمر بھر فرمانِ قائد پر عمل پیرا رہا
ملتِ اسلامیہ کا تو رہا ہے غمگسار
بالیقین تو قائد اعظم کا پیرو کار تھا
مدتوں محسو ہوگی تیری فرقت کی کمی
شکر ہے لازم! کوئی جس حال میں جیسا رہے
مالکِ ارض و سما سے اپنی سرورؔ ہے دعا
رحمتوں کا تیری مرقد پر سدا سایہ رہے |
|