ممتاز ڈرامہ نگار شاعرہ افسانہ نگار دلشاد نسیم کی افسانوں کی نئی کتاب اسیر ذات
(Mian Muhammad Ashraf Asmi, Lahore)
دلشاد نسیم کے افسانوں کی کتاب اسیر ذات کو
پڑھنے کا موقعہ ملا۔دلشاد نسیم کے ہاں جذبات کے اظہار کے لیے لفظوں کا چناؤ
اتنا شاندار ہے کہ دلشاد نسیم جو بات کہنا چاہتی ہے اُس کی ترجمانی اُس کے
الفاظ بہترین انداز میں کرتے ہیں۔دلشاد نسیم کے لکھے ہوئے افسانے درحقیقت
افسانے نہیں بلکہ حقیقت کی عکاسی ہیں۔اِ ن افسانوں میں بیان کردہ کہانیاں
دلشاد کی اپنی زندگی سے نبرد آزماء قوتوں کی کہانیاں ہیں جنہیں دلشاد نسیم
نے اتنے احسن انداز میں بیان کیا ہے ایسا صرف احساس دل کا حامل انسان ہی
لکھ سکتا ہے۔اَسیر ذات میں کل بارہ افسانے ہیں اِس کے کل صفحات ایک سو ساٹھ
ہیں۔افسانوں کی ترتیب کچھ اِس طرح ہے کہ سب سے پہلے افسانے کا نام سیراب
ہے۔اِس افسانے میں محترمہ دلشاد نسیم نے موجودہ دور میں جو عدمِ برداشت کا
سلسلہ چل نکلا ہے۔اُس کی طرف نشاندھی کی ہے۔دلشاد نسیم سراب کے آغاز میں
لکھتی ہیں کہ جب ہم محبتیں بانٹتے ہیں تو مار دئے جاتے ہیں ، لیکن نفرت کا
زہر پھیلانے والے، برچھیاں چلانیوالے ہاتھ آزاد ہیں ۔ کیوں؟۔دوسرا افسانہ
جو ہے اُس کا نام کہنی کی چوٹ ہے۔اِس میں لکھتی ہیں کہ، دن گزر رہے تھے وہ
دیکھ رہا کہ کامنی کی دونوں دیوروں سے محبت بھی گہری ہوتی جارہی تھی رضوان
کے دل پر تو وہ یوں قابض ہوئی جیسے کسی کنواری پہ آسیب وہ جہاں جاتی رضوان
کی نگاہ اُس کے تعاقب میں رہتی کامنی کو خوب اندازہ تھا اسی لیے پلٹ پلٹ کے
مسکراتی ،کبھی آنکھوں سے اور کبھی ہونٹوں سے،۔دلشاد نسیم نے زندگی کی
باریکیوں کو بہت احسن انداز میں بہت ہی انوکھے انداز میں بیان کیا ہے ۔
قاری کو بات کی تہہ تک لے جانے کے لیے چند الفاظ ہی کافی ہیں یہ ہے وہ
انداز جو کہ دلشاد نسیم کے افسانوں میں جابجا ملتا ہے۔تیسرا افسانہ جو کتاب
میں شامل ہے اُس کانام مٹی کی قسمت ہے ۔اِس افسانے میں زندگی کی حقیقتوں کو
موثر انداز میں بیان کرتے ہوئے دلشاد نے محبت بھرئے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔
محبت جس انداز میں خاندانی روایات کو جکڑئے ہوئے ہے ۔ اُس حوالے سے بھی
دلشاد نسیم کی سوچ کے دھارئے اتنے وسیع ہیں کہ دلشاد نسیم کے انتہائی گہرئے
مشاہدات کے حامل قلم سے بچ نہیں پائے۔چوتھا افسانہ اَسیرِ ذات ہے اِسی کے
نام پر کتاب کا نام رکھا گیا ہے۔اِس افسانے کا نقطہ عروج ملاحظہ ہو دلشاد
لکھتی ہیں ، صبوحی جیسے پتھر کی ہوگئی ۔۔۔اس کی آنکھ میں آنسو نہیں تھا۔۔۔
آواز میں لرزش نہیں تھی۔۔۔اس کی کیفیت تو اس نومسلم کی سی تھی جو ساری قضا
نمازیں ایک ہی وقت میں پڑھ لینا چاہتا ہے۔۔۔ چاہتا تھا سجدئے سے سر نہ اٹھے۔۔۔
جب تک کہ اس کے سارئے گناہ۔۔۔ ثواب نہ بن جائیں،۔انسانی رویوں کی جس انداز
میں ترجمانی دلشاد نسیم کے افسانوں میں دیکھائی دیتی ہے اِس سے اندازہ ہوتا
ہے کہ وہ مشکل سے مشکل بات بھی آسانی اور موثر انداز میں کہنے کا ملکہ
رکھتی ہیں۔دیگر افسانے جن میں عرضی، بسوکی ماں ،کُرتا، جدائی کی سڑک، نصیب
محور، خواب لمحے اور مجھے کیا خبر تھی شامل ہیں ہمارئے اردگرد موجود
کرداروں کے رویے ہیں جن کو انتہائی کلاسیکی انداز میں لکھاگیا ہے۔ یقینی
طور پر اسیر ذات دلشاد نسیم کا کلاسیکی شاہکار ہے۔اِس کتاب کو نامور شاعر
جناب خالد شریف جو ماورا نشین بھی ہیں نے بہت دیدہ زیب انداز میں شائع کیا
ہے۔کتاب کے فلیپ پر محمد حامد سراج، سائرہ غلام نبی اور خالد شریف کے مصنفہ
کے حوالے سے اور اِس کتاب اسیر ذات کے حوالے سے اظہاریہ لکھا گیا ہے۔دلشاد
نسیم نے اِس کتاب کا انتساب بہت ہی خوبصورت انداز میں لکھا ہے وہ لکھتی ہیں
انتساب حسن خالد اور حمزہ خالد کے نام کہ جنہوں نے مجھے جب جب ماں کہاں تب
تب مجھے اپنی تکمیل کا احسا س ہوا۔نامور شاعرہ ڈرامہ نگار افسانہ نگار
محترمہ دلشاد نسیم کی کتاب اسیر ذاتـ کی تقریب رونمائی الحمرا ادبی بیٹھک
الحمرا لاہور میں ہوئی۔تقریب کا اہتمام ماورا ادبی فورم کی جانب سے کیا گیا۔
نامور شاعر ماورا نشین محترم خالد شریف صاحب نے ناچیز کو بھی خصوصی دعوت دی
اور عزت افزائی فرمائی۔تقریب میں ڈاکٹر نگہت نسیم ، توقیر شریفی،ثمینہ سید،
طارق محمود ، غزالہ سید،محمد جمیل، اختر ملک،ممتاز راشد ، کرامت بخاری و
دیگر نے خطاب کیا۔ خالد شریف صاحب نے خصوصی طور پر سٹیج پر اِس ناچیز کو
مدعو کیا اور میں نے محترمہ دلشاد نسیم کو پھول پیش کیے۔ایسا پروگرام برسوں
یاد رہے گا۔ خالد شریف صاحب نے اسیر ذات کتاب بطور تحفہ بھی عطا فرمائی۔
اور خصوصی طور پر مصطفائی جسٹس فورم انٹرنیشنل کے حوالے سے سرگرمیوں کو
سراہا۔مقررین نے محترمہ دلشاد نسیم کے افسانوں کے حوالے سے گفتگو کی اور
اُن کی ادبی خدمات کو سراہا۔ |
|