جناب وزیراعظم ! ایک نظر ادھر بھی
(Mansha Fareedi, Dera Ghazi Khan)
|
متعدد بار وزیراعظم میاں نواز شریف، وفاقی
وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید اور میاں
شہباز شریف (وزیراعلیٰ پنجاب) کو عرض کرچکا ہوں کہ نیشنل ایکشن پلان اور
کاؤنٹر ٹیرارزم کے تحت جو کارروائیاں ہورہی ہیں وہ بوگس ہیں۔ ان کارروایوں
میں نوے فیصد جھوٹ کی آلائش شامل ہوتی ہے وہ اداروں کو بدنام کررہی ہے۔ آپ
بھی ڈکٹیٹر ثابت ہورہے ہیں۔ ان غلط اور میرٹ کا ستیاناس کرنے والی
کارروائیوں سے اس حکومت سے عوام کا اعتماد اٹھ چکا ہے۔ تفتیشی اور سلامتی
کے اداروں (جن کا مقصد ملک سے ان عناصر غیر کا خاتمہ ہے جو دہشتگردی و شدت
پسندی کا باعث ہیں) پر سیاہ دھبہ ہیں۔ CIA سٹاف نے بھی مخلصانہ کام نہیں
کیا بلکہ اس محکمے میں موجود کالی بھیڑوں نے اول الذکر دونوں محکموں کی طرح
ذاتی ریپوٹیشن بہتر بنانے کے لیے کام کیا اور ملک و قوم کی بہتری اور فلاح
کے لیے ایک فیصدی کام نہیں کیا۔ قومی لائحہ عمل (نیشنل ایکشن پلان) کاؤنٹر
ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) اور سی آئی سٹاف کے بے لگام گھوڑوں نے محض بے
گناہوں کو قتل کیا۔ شہریوں کو غیر قانونی حراست میں لیا۔ نامعلوم مقام
پرمنتقل کیا اور کئی دنوں کے بعد پولیس مقابلہ ظاہر ہوا۔ حراست میں لیے گئے
وہ معصوم شہری (جو ان کی اصطلاح میں دہشت گرد ہوتے ہیں) مارے گئے۔ بعض
اوقات یہ صورتحال بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ غیر قانونی حراست میں لیے گئے
انتہائی شریف النفس شہریوں کو غیر قانونی حراست میں لے کر انہیں کہیں
دھماکہ کرنے کی واردات کی تیاری کرتے ہوئے ظاہر کیا جاتا ہے۔ ایسے محکمے یا
پلانز جو ملکی سلامتی کے لیے بنائے جاتے ہیں شہریوں کی عزت نفس ، جان اور
مال کی حفاظت کی بجائے ان کے لیے شدید نقصان کا باعث ہیں۔ ریاست کے کردار
کو منفی انداز میں پیش کرتے ہیں ناکہ مثبت ۔۔۔۔۔! اگر پولیس، سی ٹی ڈی، سی
آئی اے کرائمز اور نیشنل ایکشن پلان والے ریاست کے دئیے گئے منشور پر کام
کرتے تو یقینا دہشت گردی جیسے مرض سے افاقہ ہوتا۔ راقم نے متعدد بار سوشل
میڈیا پر بھی حکام کی توجہ اس جانب مبذول کرائی لیکن’ معاف کیجئے گا‘ نیشنل
ایکشن پلان، سی ٹی ڈی اور سی آئی اے کرائمز کے بے لگام گھوڑوں کو لگام نہیں
ڈالی گئی۔ اب تک شہریوں کی عزتیں، جانیں اور مال عدم تحفظ کا شکار ہیں اور
سب سے بڑی بات یہ کہ قائداعظم اور علامہ اقبال کے پاکستان کو جو زک پہنچائی
جارہی ہے شاید ہی اس کا ازالہ ممکن ہو۔ راقم نے 28 جنوری 2016ء کو سوشل
میڈیا پر اپنے ’’فیس بک کالم‘‘ میں کچھ اس طرح اظہار خیال کیا تھا ’’قومی
ایکشن پلان کیا ہے؟ وضاحت میں جانے کی ضرورت ہرگز نہیں۔ پولیس کی بھاری
نفری ضلعی پولیس آفیسر کی سربراہی میں گھروں کی تلاشی لینے کے عمل میں محض
چاقو اور چھریاں برآمد کرکے مقامی سطح پر سیاسی انتقام کے لیے گرفتاریاں
کرنے کے بعد پولیس افسران سیاسی آقاؤں کی خوشامد حاصل کرکے سٹارز اور بیج
لگوالیتے ہیں۔ اس تمام عمل میں اصل دہشتگرد اور انتہا و شدت پسند گرفتار
نہیں کیے جاتے۔ اگر گرفتار ہوں بھی تو کیا پاکستان میں مثبت سمت میں ان کی
ذہن سازی کرنے کے موثر انتظامات ہیں؟ قومی ایکشن پلان سے متعلق ہمارے ارباب
اقتدار و اختیار کا یہ موقف کہ یہ ’’پلان‘‘ کامیابی کی طرف رواں دواں ہے
سفید جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔
بھلا تزوپراتی اثاثہ جات (جان سے بھی پیارے بلونگڑوں) کو کیونکر اس پلان کے
تحت نشانہ بنایا جائے گا؟ جن کا ایک ایک بلونگڑا محنت و ریاضت کے بعد تیار
ہوتا ہے۔ قومی ایکشن پلان کے تحت اگر کوئی سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے تو وہ
قلم کار / صحافی ہے۔ اس سٹیٹس نے نا صرف ارباب قومی لائحہ عمل اور سی ٹی ڈی
کو ناراض کیا بلکہ سلامتی کے دیگر اداروں میں موجود لالچی افسران کو بھی
شدید رنج پہنچایا۔ رد عمل کے طور پر اس وقت کے SHO چوٹی مولوی اشرف قریشی
وغیرہ نے اپنے محکمہ کو سیاسی و مذہبی آقاؤں کے اشاروں پر راقم الحروف پر
اٹیک بھی کیا۔۔۔ لیکن نامراد ٹھہرا۔ سچ کہتے ہیں کہ مارنے والے سے بچانے
والا طاقتور ہے۔ ان عقل کے اندھوں کو نہ جانے یہ کیوں نہیں سمجھ آتی کہ
ریاست کے تحفظ اور ملکی استحکام کیلئے اداروں میں موجود کالی بھیڑوں کے
کرتوتوں کا ذکر مثبت صحافتی اصولوں کا مظہر ہے۔ ریاست پاکستان کے استحکام
کے لیے کرپٹ عناصر پر واضح تنقید ہی راقم کا مشن ہے۔ با اثر افراد خواہ
اختلاف بھی رکھیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ مقاصد ملکی و ملی مفادات ہیں۔
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت، نہ کشور کشائی
19 فروری 2016ء کو ایک معاصر روزنامہ میں دلخراش خبر چھپی جس نے سی ٹی ڈی
کے کردار کو مزید مشکوک بنادیا۔ خبر کی سرخی کچھ اس طرح ہے کہ ’’بہاولپور:
حساس ادارے کی کارروائی 2 دہشتگرد گرفتار راکٹ برآمد‘‘ یہاں کارروائی کے
مجاز محکموں سے عرض ہے کہ یہ سفید جھوٹ ہے۔ خدارا! جھوٹ پر اعتماد مت
کیجئے۔ جھوٹی کارروائی پر اگر معصوم شہری جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلے جائیں
تو کیا بروز محشر اﷲ حساب نہیں لے گا؟ آئیے اس خبر کی تفصیل میں چلتے ہیں۔
’’بہاولپور موضع لسوڑی والا سے حساس ادارے نے دو دہشتگرد گرفتار کرکے 2
راکٹ لانچر برآمد کرلیے۔ گزشتہ شام حساس ادارے نے مخبری پر کارروائی کی۔
ملزموں کو مزید تفتیش کے لیے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا۔ ذرائع سے
معلوم ہوا ہے کہ گرفتار ہونے الے دہشتگرد جن کا نام بلال اور نواز معلوم
ہوئے ہیں کا تعلق ڈیرہ غازیخان سے ہوسکتا ہے۔ جن پر حسین ابن علی کے زیر
تعمیر مدرسے سے چند فرلانگ کے فاصلے پر قبرستان میں راکٹ لانچر چھوڑنے کا
شبہ ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ کارروائی سی ٹی ڈی کے سب انسپکٹر
جام غفار نے کی۔ دراصل معاملہ کچھ یوں ہے کہ بلال، فہد، اشفاق، مجاہد اور
نواز کو چوٹی زیریں (ڈیرہ غازیخان) سے اس وقت کے ایس ایچ او چوٹی اشرف
قریشی پولیس اہلکاران مجید لاکھا ، غفور رمدانی اور ایک پرائیویٹ شخص نے
غیر قانونی طور پر حراست میں لے کر حوالات میں بند کردیا۔ بعد ازاں انہیں
نجی اور نامعلوم مقامات پر ٹارچر سیلز میں منتقل کیا جاتا رہا۔ اس اغواء
اور غیر قانونی حراست کی واردات کے بعد اغواء شدہ جوانوں کے ورثاء نے عدالت
عالیہ کا رخ کیا تاکہ انصاف مہیا ہوسکے۔معزز عدالت نے یہ رٹ اس بناء پر
خارج کردی کہ سی ٹی ڈی پولیس نے FIR پیش کردی۔ مگر اس FIR اور حراست میں
لیے گئے جوانوں پر کارروائی کی تاریخوں میں واضح تضاد ہے۔ یہی تضاد اس
کارروائی کو مشکوک بنارہا ہے۔ سو عرض ہے کہ مجاز حکام فوری طور پر ضروری
فیصلہ کریں۔ 5۔ فروری کو مذکورہ لڑکے غیر قانونی حراست میں لیے گئے۔ 11
فروری کو ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی گئی۔ جبکہ ایف آئی آر 18 فروری کو درج
ہوئی۔
قبل ازیں تین مغوی رہا کردئیے گئے تھے جنہوں نے لاہور ہائیکورٹ ملتان بنچ
میں پیش کردیا گیا۔ باقی دو بلال اور نواز تاحال حراست میں ہیں اور اب سی
ٹی ڈی کے سب انسپکٹر جام غفار کی کارروائی ظاہر کرکے بہاولپور سے ان کی
گرفتاری ظاہر کی جارہی ہے۔ جس کا تفصیلی ذکر مذکورہ بالا اخباری خبر میں
آچکا ہے۔ جب اس سلسلے میں سب انسپکٹر جام غفار سے موقف کے لیے رابطہ کیا
گیا تو انہوں نے موقف دینے سے انکار کردیا اور دھمکانا شروع کردیا۔
ارضی حقائق میں حراست میں لیے گئے پانچوں لڑکے کبھی بھی مشکوک سرگرمیوں میں
نہیں پائے گئے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی ثبوت ملے کہ انہوں نے کبھی مذہبی
و فرقہ وارانہ انتہا پسندی کا مظاہرہ کیا ہو۔ ان جوانوں نے تو ابھی زندگی
کی بہاریں دیکھنی ہیں۔ ابھی سے ہمارے سلامتی کے اداروں میں موجود بے ایمان
ناخداؤں نے انہیں اذیتیں دینا شروع کردی ہیں۔
قارئین!!! اس بحث سے یہ مطلب ہرگز نہ لیا جائے کہ راقم ان اداروں سے متصادم
ہے جو انسداد دہشت گردی اور انسداد جرائم کے لیے قائم کیے گئے ہیں۔ درحقیقت
ان اداروں میں موجود ایسے عناصر جو اپنے طرز عمل سے ریاست کیخلاف سرگرم عمل
ہیں پر تنقید ان اداروں کو مزید مضبوط و مستحکم بناسکتی ہے۔ یقینا ہر
باشعور پاکستانی نہیں چاہتا ہے یہ ادارے عوام الناس پر ظلم و ستم کے پہاڑ
توڑ کر انہیں ملکی و ریاستی اائین و قانون کیخلاف عملاً اکسائیں۔ مذکورہ
نوجوانوں کیخلاف بوگس اور محض جھوٹ پر مبنی چارجز بھی اسی نیت کا نتیجہ
ہیں۔ |
|