وزیراعظم رات دن سوچتے رہتے ہیں!!

اخبار کی شہ سُرخی تھی ہی کچھ ایسی، اس میں کشش تھی، کچھ احساس تھا، امید تھی، خواہش تھی اور کچھ حسرت بھی۔ یہ سرخی وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کے بیان پر مشتمل تھی ، جوا نہوں نے مظفر آباد میں قومی صحت پروگرام کے افتتاح کے موقع پر دیا تھا۔ انہوں نے بڑی درد مندی سے پاکستان کے حالات کی نقشہ کشی کی کہ وہ کس قسم کا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں، ’’․․․ پاکستان میں ہر چیز اچھی ہونی چاہئے، ہم اس کے لئے کوشش کررہے ہیں، پاکستان غریب ملک ہے ، اس کی آبادی بیس کروڑ ہے، کاش ہم بھی تیزی سے ترقی کریں، یہاں سے بیماری اور غربت کا خاتمہ ہو، ہم پِسے ہوئے طبقے کے لئے روزانہ سوچتے ہیں، کس طرح ان کی مصیبتوں کو کم کیا جائے، ہم دن رات سوچتے ہیں، کہ آپ کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کی جائیں، یہاں سڑکیں بنیں، بجلی کے کارخانے لگیں، دہشتگردی کا خاتمہ ہو، سب سے بڑا منصوبہ غریبوں کی فلاح ہونا چاہیے، اﷲ تعالیٰ ہمیں اتنے وسائل دے کہ حکومت تمام لوگوں کو علاج معالجے کی سہولت فراہم کرسکے، علاج کے لئے غریبوں کی جائیدادیں بکتے دیکھی ہیں، اب ایسا نہیں ہوگا، سیاست کو ہم عبادت سمجھتے ہیں ـــ․․․‘‘۔ اسی اخبار کے صفحہ اول اور آخر کی کچھ دیگر سرخیاں یوں تھیں؛ ’’چار خواتین سمیت پانچ افراد کی خود کشی‘‘۔ ’’کاروبار میں نقصان پر تین بچوں سمیت زہر پی لیا، باپ بیٹی جاں بحق، دو کو بچا لیا گیا‘‘۔ ’’سڑکوں کی تعمیر میں کروڑوں کی خرد برد، اورنج لائن ٹرین کا ٹھیکیدار اور پی ڈی ڈبلیو ڈی کے افسران دس روز ہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے‘‘۔ ’’دانش سکولوں میں کروڑوں کے گھپلے، لوٹی ہوئی رقم واپس لی جائے گی، وزیر تعلیم پنجاب‘‘۔ یہ ایک اخبار کی ایک روز کی سرخیاں ہیں، اگر تفصیل میں جائیں تو ایسی ہی نہ جانے اور بھی کتنی خبریں ہیں، یہ ایک روز کا معمول نہیں، بلکہ ہر روز یہی کچھ ہوتا ہے، بس نام اور مقام کا فرق ہوتا ہے۔

پسے ہوئے طبقوں کے لئے کس قدر خوشی اور اطمینان کی بات ہے کہ ان کا وزیراعظم اور ان کی ٹیم دن رات، صبح شام بلکہ ہر وقت اپنے عوام کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں، کیا سوچتے ہیں؟ یہ وزیراعظم نے بتا دیا ، جن کا اوپر ذکر ہے۔ مگر ان کی سوچ، ان کا عمل اور ان باتوں کا نتیجہ سب کچھ مختلف ہے۔ وزیراعظم کی بیان کردہ تمام باتیں کاش کے زمرے میں آتی ہیں، وہ کہتے ہیں کاش ایسا ہوتا، حقیقت یہ ہے کہ کاش وہ ایسا کرتے۔ پسے ہوئے طبقے کو ’پِیسنے کے ذمہ دار کون ہیں؟ اس کا شافی جواب حکومت کے پاس یہی ہوگا کہ ’سابق حکومت‘ ۔ ہر حکومت تمام تر خرابیوں کا ملبہ سابق حکومت پر ہی ڈالا کرتی ہے۔ سابق حکومت کا ایک چکر ہے جو مسلسل چل رہا ہے۔ پسے ہوئے طبقے کے لئے دن رات سوچا جاتا ہے، ان کی مشکلات آسان کرنے کی خواہش بھی ہے ، مگر کیا کیجئے کہ وسائل نہیں ہیں، جن کی بنا پر عوام کے لئے طبی اور تعلیمی سہولتیں بہم پہنچائی جاسکیں، عوام کو بنیادی سہولتیں دی جاسکیں۔ عوام خود ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ ان کے منتخب کردہ حکمران کس قدر سادگی سے اپنے معاملات کو چلا رہے ہیں، انہوں نے اپنے اخراجات کو کتنا محدود کررکھا ہے، فضول خرچی اور مراعات کو وہ ملک اور عوام دشمنی تصور کرتے ہیں، غیر ضروری بیرون اور اندرونِ ملک دوروں کو انہوں نے اقتدار میں آتے ہی خیر باد کہہ دیا تھا۔ اگر کبھی مجبوری میں کسی ملک جانا بھی پڑ جائے تو عام مسافر کی طرح چار پانچ ضروری افراد پر مشتمل وفد ہی باہر جاتا ہے۔

سیاست کو عبادت قرار دیا جاتا ہے، جو افراد رات دن غریب عوام کے لئے ہی سوچتے رہیں گے تو ان کا یہ عمل عین عبادت ہی تو کہلائے گا، چونکہ حکمرانوں کے پاس وسائل نہیں ہیں، اس لئے وہ صرف سوچ سکتے ہیں، خواہش کرسکتے ہیں، اور زیادہ سے زیادہ ارادہ کر سکتے ہیں، کیونکہ عمل تو پیسے سے ہی ہوتا ہے۔ اس لئے انہیں ارادے اور نیت کا ثواب مل جائے گا۔ اس دورے میں وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز بھی موجود تھیں، وزیراعظم نے صحت کے لئے ان کی خدمات کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا، یوں نیکی کرنے والے اور اس نیکی کو سراہنے والے باپ بیٹی، دونوں ہی ثوابِ دارین کے حقدار قرار پاتے ہیں۔ وزیراعظم نے اپنے دل کی بات کہہ دی، اب پسے ہوئے طبقے اور غریب عوام کا کام ہے کہ وہ دعا کریں اﷲ تعالیٰ میاں صاحب کو کچھ وسائل بھی عطا فرمادے، تاکہ میاں صاحب عوام کی طبی، تعلیمی اور بنیادی سہولتوں کے لئے کچھ منصوبے بنا سکیں، عوام کے لئے آسانیاں پیدا کرسکیں۔ اگر اﷲ تعالیٰ نے وسائل نہ دیئے تو پھر غریب عوام صبر کریں ، اور نصیب کا لکھا سمجھ کر برداشت کرلیں۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 434711 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.