جدا ہو دیں سیاست سے، تو رہ جاتی ہے چنگیزی
(Dr B,A Khurram, Karachi)
تحریر۔۔۔چوہدری ناصر گجر
اقبال کا شعرکا یہ مصرع گہری معنویت کا حامل ہے ۔ یہاں ’’دین‘‘ سے مراد
نظام زندگی کو چلانے کے وہ اخلاقی اصول ہیں ، جو خالق کائنات نے اپنے بر
گزیدہ پیغمبروں کے ذریعے انسانوں کی ہدایت کے لیے بھیجے ہیں ۔ سیاست کا
مطلب ہے :ریاست اور حکومت کا نظم و نسق ۔ ـــــــچنگیزی کے وسیع مفہوم میں
ظلم وستم ، انتشار ، بدامنی ، خونر یز ی اور فسادفی الارض شامل ہیں۔ پورے
مصرعے کا مفہوم یہ ہوا کہ جب دین کو محض مسجدوں اور معبدوں تک محدود کر دیا
جائے اور کسی ملک کے حکمران ، سلطنت کا انتظام چلا نے کے خدائی اصولوں اور
اخلاقی و مذ ہبی ضابطوں سے انحراف کریں تو دنیا فتنہ و فساد ، ہلاکت و خونر
یز ی اور چنگیزیت سے بھر جاتی ہے ۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ کسی ملک میں
اس وقت تک امن اور انصاف قائم نہیں ہو سکتا ، جب تک اس کے حکمران ، افسران
اور صاحب حیثیت لوگ اجتماعی معاملات میں عدل و اخوت ، خدا ترسی و دین داری
، ایثار و قربانی اور ہمدردی کے اصولوں کی پابندی نہ کریں ۔ اگر بے انصافی
کا دور دورہ ہوگا اور لوگوں کے حقوق غضب کیے جائیں گے تو آپس کی دشمنی اور
نفرت بڑھے گی ۔ انسانوں کی ساری صلاحیتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں صرف
ہوں گی ۔ وہ ایک دوسرے کے بر خلاف بر سر پیکار ہوں گے،جس کے نتیجے میں خلق
خدا کا خون بہے گا ۔ تا ریخ انسانی کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ مختلف
زمانوں میں وحشت و بر بر یت کے جو طوفان اٹھے، ان کی وجہ صرف یہی تھی کہ
حکمرانوں نے نظام زندگی کو چلانے کے لیے خالص اصولوں یعنی دین کو پس پشت
ڈال دیا تھا اور اپنی مرضی کے قانون بنانے شروع کر دیے تھے ۔ مختلف اقوام
کو یہ حماقت لے ڈوبی کہ انھوں نے دین کو ضابطہ حیات سمجھنے کی بجائے صرف
عبادات کا مجموعہ سمجھ لیا تھا۔ زندگی ایک مکمل اکائی ہے ۔ اسے مختلف خانوں
میں تقسیم کر نا فطری اور منطقی اعتبار سے غلط ہے ۔ دین اس کی روح ہے تو
سیاست اس کاجسم ، جس طرح روح کو جسم سے علیحدہ کر نے کا نتیجہ انسان کی
ہلاکت اور بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوتا، اسی طرح دین و سیاست کی علیحدگی
انسانیت کی تباہی پر منتج ہوتی ہے۔ ایک جامع اور مکمل نظام حیات ہونے کی
حیثیت سے اسلام ، دین و دنیا کی تفریق کی قائل نہیں ، وہ دوسرے مذاہب کی
طرح محض چند عقائدو عبادات اور اخلاقی ضابطوں کا مجموعہ نہیں ، بلکہ زندگی
کے تمام شعبوں کو چلا نے کے لیے واضح اور بہترین اصولوں کا مجموعہ بھی ہے ۔
آنحضورﷺ بیک وقت دینی اور مذہبی سربراہ تھے اور سربراہ مملکت بھی۔ آپ کی
بعثت کا مقصد محض عبادات وعقائد کی تعلیم دینا نہ تھا بلکہ آپ پوری دنیا کو
اسلام کے اصولوں کے مطابق جملہ کاروبار حیات چلانے کی تربیت دینے کی لیے
تشریف لائے تھے تاکہ دنیا سے تمام ظالمانہ اور باغیانہ نظام ختم ہوجائیں
اوران کی جگہ ایک ایسا عمدہ نظام نافذ ہو جائے جو انسانیت کی فلاح و
بہبودکے نقطہ نظر سے حرف آخر کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اسی لیے آپ نے صرف نماز،
روزہ ،حج اور زکوٰ ۃ کی تلقین پراکتفا نہ کیا ، بلکہ خدا کی اطاعت سے منحرف
طاغوتی طاقتوں کو بھی للکارا ۔ باطل کے ساتھ کشمکش کی بنیاد یہی کلمہ تھا:
ان الحکم الا اﷲ ( حاکمیت صرف اﷲ کے لیے ہے ) باطل قوتوں کو خدا کی برتری
اور سیاست وریاست کے معاملات میں اس کے احکام کی پابندی گوارانہ تھی۔ اس
لیے آپ نے ان کے خلاف تلوار اٹھائی اور مسلمانوں پر جہاد ـــ فی سبیل اﷲ کا
مستقل فرض عائد ہوا۔اسلامی جہاد کا مقصود غیر اسلام کی حکمرانی کا خاتمہ
اور حاکمیت الٰہی کا قیام ہے جس کے تحت مذہب، اخلاقیات ، تہذیب ،
ثقافت،تمدن، سیاست، معیشت، معاشرت ، قانون اور تعلیم ، غرض نظام زندگی کے
سارے شعبوں میں اسلام کو غالب ونافذ کرنا مسلم حکمرانوں اور عوام کی ذمہ
داری ہے۔خلافت راشدہ کے تیس سالہ دور میں دین و سیاست میں مکمل ہم آہنگی
تھی اور اسی لیے یہ ایک مثالی دورتھا، لیکن خلافت راشدہ کے بعد جب اموی
حکمرانوں نے نظام سلطنت کے اسلا می اصول سے انحراف کرکے بادشاہت کے دنیاوی
اصول کو اپنایا تو دین و سیاست میں تفریق کا آغاز ہوا۔ اسی تفریق کی بنا پر
مسلمانوں کے درمیان خونریز جنگیں ہوئیں ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دین اور
سیاست کے درمیان خلیج وسیع ہوتی گئی ۔ دین کا علم رکھنے والے اپنے حجروں
میں سمٹتے گئے اور دین سے بے خبر لوگ سلطنتوں اور حکومتوں کے مالک بن کر
دنیاوی فوائد دلذائذ سمیٹنے لگے۔ دورغلامی نے ہمارے ذہنوں میں دین و سیاست
کی علیحدگی کا تصور راسخ کر دیا ہے۔ اگر کہیں کوئی عالم دین ، سیاست کی بات
کرتا ہے تو ہم کہتے ہیں :حضرت آپ کو ان سیاسی بکھیڑوں سے غرض کیا ہے ۔ آپ
مسجد میں بیٹھ کر اﷲ اﷲ کیجیے ۔ دوسری طرف اگر اہل سیاست جھوٹ بولتے ہیں ،
دھوکے اور فریب سے حکومت کرتے ہیں ، وعدے کی پروانہیں کرتے اور پرلے درجے
کی ابن الوقتی ، کاسہ لیسی اور منافقت کا مظاہرہ کرتے ہیں تو ان باتوں کو
قابل اعتراض نہیں سمجھا جاتا کیونکہ ہمارے خیال میں سیاست میں سب کچھ چلتا
ہے دین و سیاست کے بارے میں یہی غیر اسلامی ذہینت تمام خرابیوں کی جڑ
ہے۔دین و سیاست کی تفریق کچھ مسلما نوں کے ہاں ہی نہیں ہے، اہل مغرب اس
معاملے میں ہم سے بھی دو قدم آگے ہیں ۔ اس تفریق کے سبب اہل مغرب نے خونریز
ی ، قتل و غارت اور چنگیزیت کی جو مثالیں پیش کی ہیں ، ہم ان کی گرد کو بھی
نہیں پہنچ سکتے ۔ اہل یورپ کے نزدیک مذہب ایک نجی معاملہ ہے اور اس کا
دائرہ عمل محض گر جا تک محدود ہے۔ انھوں نے سیاست وریاست اور نظام حکومت کے
معاملات سے مذہب و اخلاق کو بالکل بے دخل کردیا ہے۔ ان کے نزدیک سیاست میں
بد اخلاقی، منافقت، فریب اور نا انصافی نہ صرف جائز ہے بلکہ سیاسی کامیابی
کے لیے ضروری ہے۔ مغرب کے امام سیاست میکاولی نے سیاسی بداخلاقیوں کو سند
جواز عطا کی ہے ۔ یورپ کا سرمایہ دار انہ نظام ، استحصال اور دھوکا دہی کے
اصول پر قائم ہے چنانچہ امریکا، برطانیہ، فرانس، ہالینڈاور پرتگال نے صدیوں
تک افریقہ اور ایشیا کی کمزور قوتوں کو غلامی میں جکڑے رکھا ، ان پر بے
پناہ مظالم ڈھائے، انھیں جی بھر کر لوٹا اور تمدنی و تہذیبی اور تعلیمی
اعتبار سے انھیں اپنا ذہنی غلام بنانے کی پوری کوشش کی۔ دوسری طرف اشتراکیت
نے جو جابرانہ نظام حکومت قائم کیا، انسانی تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے
قاصر ہے۔ لاکھوں انسانوں کو جبری مشقت کے کیمپوں میں گلنے سڑنے اور پھر
مرجانے کے لیے بھیج دینا اس نظام میں بالکل معمولی بات ہے۔ دنیا کے جن
ممالک مثلاً ہنگری، پولینڈ، چیکو سلواکیا، البانیہ، مشرقی جرمنی، بلغاریہ
اور روس وغیرہ میں یہ فسطائی نظام قائم ہوا، وہاں اس کے آہنی پنجے کئی برس
تک اس مضبوطی سے گڑے رہے کہ کسی ملک کو رہائی نصیب نہیں ہوئی۔ ان مظالم سے
تنگ آکر وہاں کے لاکھوں باشندے نے دیگر ممالک کی طرف فرار ہونے کی کوششیں
کیں۔ کچھ تو آزاد فضا میں پہنچ گئے اور بقیہ بد قسمت ، گولی کا نشانہ بن
گئے یا انھیں جبری کیمپوں میں بھیج دیا گیا ۔ غرض نظام حکومت کی شکل خواہ
کچھ ہو، بادشاہت ، جمہوریت یا آمر یت ،اگر سیاسی معاملات میں دینی اصولوں
اور اخلا قی قدروں کی پابندی نہ کی جائے تو معاشرہ پستی کی طرف جانے لگتا
ہے ۔اس وقت جن بین الاقوامی مسائل نے دنیا کو ایک عذاب میں مبتلا رکھا ہے ،
ان میں کشمیر، بوسنیا ،کو سووا، افغانستان ، فلسطین ، فلپائن اور برما کے
مظلوم مسلمانوں کے مسائل سر فہر ست ہیں ۔ اقوام متحدہ امن کی قیام میں نا
کام ہو چکی ہے۔ اس کا سبب کیا ہے ؟ محض دین و سیاست کی تفریق ۔ اہل سیاست
دینی اور اخلاقی اصولوں کو ماننے پر تیا ر نہیں ۔ وہ بد ستور دھوکے ، فریب
اور جبر و تشدد کی سیا ست چاہتے ہیں ۔ اس صورت میں آخر مسائل کیسے حل ہوں
اورامن و خوش حالی کا خواب کیوں کر شرمندہ ہو ۔دین سے منحرف سیاست نے دو
عظیم جنگوں کو جنم دیا جس کے نتیجے میں بے پناہ ہلاکت ، خون آشامی اور
چنگیزیت بھگت چکی ہے۔ آیندہ بھی اگر سیاست و حکومت کو دین و مذہب اور
اخلاقیات کا پابند نہ کیا گیا توچنگیزیت کا عفریت بد ستور ننگا ناچ ناچتا
رہے گا۔ |
|