ہریانہ کے اندر جاٹ ریزرویشن کی تحریک نئی
نہیں ہے۔۱۹۹۸ میں پسماندہ ذاتوں کے قومی کمیشن نےجاٹوں کو ریزرویشن دینے
کی سفارش تو کردی مگر اندر کمار گجرال کی حکومت نے اس ہر عملدرآمد نہیں
کیا ۔ ایک سال بعد اٹل جی نے راجستھان کے جاٹوں کو دیگر پسماندہ ذاتوں میں
شامل کرنے کا وعدہ کرکے صوبے کی ۲۲ میں ۱۶ نشستیں جیت لیں اور اپنا وعدہ
وفا کرتے ہوئے بھرت پور ودھول پوری کے علاوہ ساری ریاست کے جاٹوں کو
ریزرویشن دے دیا ۔ اس فیصلے سے شہ پاکر جاٹوں کے ریزرویشن کی تحریک دیگر
ریاستوں میں بھی پھیل گئی۔ احتجاج کی ابتداء ۲۰۰۴ میں ہوئی جب سیاسی
جماعتیں انتخاب سے قبل وعدہ کرکے بعد میں مکر گئیں۔ ۲۰۰۷ کے اندر دہلی میں
جاٹ مہاسبھا کے اجلاس میں ریزرویشن ہی بنیادی مسئلہ تھا نیز ۲۰۰۸ میں اس
مقصد کیلئے اکھل بھارتیہ جاٹ آرکشن سنگھرش سمیتی کا قیام عمل میں آیا جس
کے تحت احتجاجی جلسے جلوس کا لامتناہی سلسلہ چل پڑا۔
کانگریس پارٹی اس احتجاج کو حکمت کے ساتھ نمٹتی رہی ہے ۲۰۱۴ میں تواس نے
جاٹوں کو ریزرویشن سے نواز بھی دیا لیکن عدالت ِ عالیہ نے اس فیصلے کو
مسترد کردیااس طرح سانپ تو نہیں مرامگر لاٹھی یعنی کانگریس ضرور ٹوٹ پھوٹ
گئی ۔ ہریانہ کے اسمبلی انتخاب سے قبل بی جے پی نے کانگریس کے فیصلے کو حق
بجانب ٹھہرایا اور اس کا بھرپور سیاسی فائدہ اٹھایالیکن پھر اس کی نیت بدل
گئی اور مودی جی کی قیادت میں پسماندہ ذاتوں کی قومی مجلس نے اس کے خلاف
سفارش کردی جس کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے ۲۰۱۵ میں اسے پھر سے مسترد کردیا
۔ بی جے پی جاٹوں کو بہلا پھسلا کر رام کرسکتی تھی لیکن جن کے دماغ میں
رعونت کی ہوا بھری ہوئی ہو وہ بھلا کب کسی کو گھاس ڈالتے ہیں ؟
جاٹ احتجاج کی آگ میں تیل ڈالنے کا کام اس بار کوروکشیتر کے بی جے پی رکن
پارلیمان راج کمار سینی نےکیا انہوں نے نہایت اہانت آمیز انداز میں جاٹوں
کے مطالبا ت کو مسترد کرتے ہوئے ان کے آگے نہیں جھکنے کی اور مظاہرین کو
گرفتار کرنے کی دھمکی دے ڈالی ۔ راجکمار اپنی بدزبانی کیلئے مشہور ہیں
اورماضی میں وہ اسٹیج پر جاٹوں کو گالیاں دے چکے ہیں اور کہہ چکے ہیں کہ
جاٹوں کی طرف سےپانی یا دودھ بند کردینے کی دھمکی سپریم کورٹ کی خلاف ورزی
ہے۔حالیہ ضمنی انتخاب میں کامیاب ہونے والےسونی پت کے بی جے پی باہو بلی
سنجیو بالیان نے نومبر کے اندرسینی کے جواب میں کہا تھا جاٹوں کو ریزویشن
مل کر رہے گا جسے نکل جانا ہے چلا جائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہریانہ کی
ہواگرم ہے جس کی تپش ہم مغربی اتر پردیش میں محسوس کررہے ہیں ۔ بی جے پی
اپنے ہی رکن پارلیمان کی وارننگ پر توجہ دے کر اگر سینی کی زبان پر لگام
لگادیتی تو حالات قابو سے باہر نہیں ہوتے۔
۱۴ فروری سے ۱۸ فروری کے درمیان پرامن انداز میں چلنے والی جاٹ تحریک کو اس
بارسینی جیسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کا نتیجے میں ’’۳۵ برادی سنگھرش
سمیتی‘‘ کی مزاحمت سے سابقہ پیش آیا۔اس کےنام سے ہی ظاہر ہے کہ یہ خالص
ذات برادری کی نام پر جاٹوں کے خلاف دیگر ذاتوں کو مشتعل کرنے والا اقدام
تھا ۔ اس کے ردعمل میں جاٹ مظاہروں کے اندر مزید شدت آئی مگرگھمنڈی سینی
اپنے حواریوں کو میدان میں اتار کر کولکاتہ کی جانب کھسک گئے۔ یہ ایسا ہی
تھا جیسے سابق وزیراعلیٰبھوپندرا سنگھ ہوڈا امن کی منافقانہ اپیل کرکے جنتر
منتر پر دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔ اس معاملے میں کانگریس اور بی جے پی کا رویہ
بالکل یکساں تھا دونوں پر ابن الوقتی کاعفریت سوار تھا۔۳۵ برادری سنگھرش
سمیتی کے نعروں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کامظاہرہ کس قدر اشتعال
انگیز تھا۔ ’’سی ایم صاحب مت گھبراو ۳۵ برادری آپ کے ساتھ ہے‘‘۔ دوسرا
نعراہ اور بھی زیادہ خطرناک نعرہ تھا ’’ہمیں مجبور نہ کرو کہ ہمیں
کٹھور(سخت) قدم اٹھانا پڑے‘‘۔ اس نعرے نے تو گویا جاٹوں کی عزت نفس کو ٹھیس
پہنچا دی ۔
سینیوں ، نائسوں اور پنجابیوں کےاس جلوس کے جوش وجنون کا اندازہ اس بات سے
لگایا جاسکتا ہے کہ بھوانی بس اڈے سے دوپہر ڈھائی بجے جب اس کو راستے میںجے
این یو کے خلاف مظاہرہ کرنے والے کچھ وکیل ملے تو یہ غلط فہمی میں ان سے
بھڑ گئے۔ جے این یو کے مظاہرین( جو دراصل بی جے پی کے ہی حامی تھے) نے لاکھ
سمجھانے کی کوشش کی لیکن یہ نہیں مانے اور جن تین لوگوں کو زخمی کیا وہ سب
کے سب پنجابی تھے۔اس حملے کی خبر جب سوشیل میڈیا سے پھیلی تو جاٹ نوجوان
بھی میدان میں نکل آئے اور مختلف مقامات پر جلوس کے اورپر پتھراؤ کیا گیا
نیز مارپیٹ بھی ہوئی ۔ اسی کے ساتھ تشدد کی وارادتیں شہر میں پھیلنے لگیں۔
اس دوران ایک واقعہ جاٹ کالج چوراہے پر بھی رونما ہوا جس میں طلباء پر پولس
والوں پر حملے کا الزام ہے۔ اس کے جواب میں پولس کا عملہ رات کی تاریکی میں
نیکی رام ہاسٹل کے اندر داخل ہوگیا اور طلباء کی خوب جم کر پٹائی کی ۔
اقامت گاہ کے جاٹ طلباء نے ظلم وجبرکی اس واردات کو موبائل کی مدد سے
فلمبند کرلیا۔ جیسے ہی یہ ویڈیو سوشیل میڈیا میں پھیلنی شروع ہوئی تو اسی
کے ساتھ تشدد کی آگ بھی پھیلتی چلی گئی یہاں تک کے حالات پوری طرح قابو سے
باہر ہوگئے۔ کمبھ کرن کی نیند سونے والی ہریانہ سرکار نے اب ہاسٹل کے چھاپے
کی تحقیقات کیلئے ایک پینل نامزدکیا ہے۔ پولس اور انتظامی افسران کے رویہ
کی تفتیش ایک سبکدوش آئی پی ایس افسرپرکاش سنگھ کے سپردکی گئی ہے۔اس بیچ
کانگریسی رہنماپروفیسر ویریندر سنگھ کے اوپر ایک ٹیپ کی بنیاد پر بغاوت کا
مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ منوہر لال کھٹر جو کچھ اپنے مخالفین کے خلاف کررہے
ہیں اگر اس کا عشر عشیر بھی خود اپنے لوگوں کو قابو میں رکھنے کیلئے کرتے
تو اس خاک و خون کی ہولی کو ٹالا جاسکتا تھا۔
اس فساد کے پیچھے جو عوامل کارفرما ہیں ان میں ناتجربہ کاری سب سے اہم ہے۔
اس مرتبہ پہلی بار غالباً ملک کی عوام نے ایک ایسے شخص کو وزیراعظم کی کرسی
پر فائز کردیا کہ جس نے کبھی رکن پارلیمان کی حیثیت سے ایوان میں قدم بھی
نہیں رکھا تھا ۔ مودی جی کو گجرات میں حکومت کا تجربہ تو تھا لیکن وہاں بھی
انہوں حکومت کم اور سیاست زیادہ کی تھی اوریہ دونوں یکسر مختلف چیزیں ہیں۔
جہاں تک گجرات کی خوشحالی و ترقی کا سوال ہے وہ تو مودی جی سے پہلے جیساتھا
بعد میں بھی ویسا ہی ہے اس میں حکومت کا نہیں بلکہ وہاں کے قدرتی وسائل اور
عوام کا اہم کردار ہے۔ مودی جی کو چاہئے تھا کہ وہ اپنی ناتجربہ کاری کا
ازالہ کرنے کیلئے پارٹی میں موجود جہاندیدہ لوگوں سے استفادہ کرتے لیکن
شاید انہیں خود اعتمادی میں کمی کے سبب ایسے لوگوں سے خوف محسوس ہوتا ہے یا
انانیت ان کو اس کی اجازت نہیں دیتی خیر وجہ جو بھی حقیقت یہی ہے کہ وہ
سمرتی ایرانی، وی کے سنگھ اور منوہر پاریکر جیسے کندۂ ناتراش پر انحصار
کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ یہ سلسلہ مرکز سے لے کر تو ریاستوں تک پھیلا ہے ۔
اقتدار میں آنے کے بعد مودی جی نے جتنے لوگوں کو وزارت اعلیٰ کی کرسی پر
فائز کیا وہ سب کے سب ناتجربہ کار اور نااہل تھے ۔ اس کا بنیادی سبب یہ تھا
کہ ان کے انتخاب کی ایک کسوٹی سنگھ پریوار سے وابستگی اور دوسرے مودی جی سے
وفاداری تھا۔ اس میں کہیں بھی قابلیت اور صلاحیت کو پیش نظر نہیں رکھا گیا۔
اس کے علاوہ مودی اور شاہ کی جوڑی نے ہر جگہ وہاں کے روایتی ذات پات کے
ڈھانچے کو توڑنے کی سعی کی مثلاًجھارکھنڈ میں کسی قبائلی کو وزیراعلیٰ
بنانے کے بجائے اڑیسہ کے رگھوبرداس کو وزیراعلیٰ بنایا گیا۔ مہاراشٹر میں
مراٹھا یا پسماندہ ذاتوں کا وزیراعلیٰ ہوا کرتا تھا بالاصاحب ٹھاکرے نے اس
سے انحراف کرکے براہمن منوہر جوشی کو وزیراعلیٰ تو بنا دیا لیکن انتخاب سے
قبل انہیں نارائن رانے سے بدل کر مراٹھا کو لے آئے۔ مودی جی نے بھی براہمن
فردنویس کو وزیرااعلیٰ بنا دیا اور ہریانہ میں اپنی ہی طرح کے ایک
ایسےسنگھی کو وزیراعلیٰ کا عہدہ سونپا جو پہلی مرتبہ رکن اسمبلی بنا تھا۔
اس ناقص حکمت عملی کے نتائج ہریانہ کے اندر تو ساری دنیا نے دیکھ لئے کہ اس
قدر ہنگامہ کے دوران وزیراعلیٰ منظر سے غائب تھا۔بی جے پی والوں کے دل آپس
میں اس قدر پھٹے ہوئے ہیں دہلی سے قربت کے باوجودنہ وہ خوددہلی آئے اور نہ
کوئی اوران کی مدد کیلئے چندی گڑھ گیا۔ آج کلبی جے پی کے اندر یا باہرکسی
کو وزیراعظم اور ان کےنامزد کردہ مہروں سے ذرہ برابر ہمدردی نہیں ہے۔ ہر
کوئی اس نحوست زدہ ماحول سے سے جلدازجلد چھٹکارہ پانے کیلئے چھٹپٹا رہا ہے۔
ہوا میں لاٹھی چلانے والے تلک دھاری خاکی چڈی والےوزیراعلیٰ نے گھبرا کر
ایک دن کے اندر فوج طلب کرلی حالانکہ اس طرح کی صورتحال مقامی پولس حالات
سے بہتر واقفیت کی بناء پرمؤثر ثابت ہوتی ہے اور فوج کو ناگزیر صورتحال
میں طلب کیا جاتا ہے۔کھٹر کا خیال رہا ہوگا کہ پولس میں شامل جاٹ اپنے
لوگوں کے ساتھ نرمی کریں گےمگر واضح احکامات سے محروم فوج پولس کی حوصلہ
شکنی کے علاوہ کچھ اور نہ کرسکی ۔اس دوران حالت یہ تھی کہ فسادیوں کے علاوہ
کوئی نہیں جانتا تھا کہ کسے کیا کرنا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ غیر جاٹوں نے بھی
کھٹر کو دھکےّ دئیے اور کالی جھنڈیاں دکھائیں ۔ وزراء نےتک اپنے وزیراعلیٰ
پر نہ صرف غیر مؤثر ہونے کا الزام جڑ دیا بلکہ انہیں کو سارے فتنہ و فساد
کیلئے موردِ الزام بھی ٹھہرا دیا ۔
یہ محض اتفاق نہیں بلکہ سنگھ پریوار کیسوچی سمجھی حکمت عملی تھی جوحقائق سے
ٹکرا کر پاش پاش ہوگئی۔ ہریانہ میں جاٹ تقریباً ۳۰ فیصد ہیں ۔ انتخاب سے
قبل وہ دودھڑوں میں تقسیم تھے اس لئے کہ کانگریس کے وزیراعلیٰ بھوپندرسنگھ
ہوڈا بھی جاٹ تھے اور ان کے خلاف چوٹالہ بھی جاٹ ووٹ کے دعویدار تھے ۔ بی
جے پی نے سوچا یہ اچھا موقع ہے جاٹوں کو نظر انداز کرکے دوسری ۳۵ ذاتوں پر
توجہ مرکوز کی جائے اور ان کی دلجوئی کرکے انتخاب جیت لیا جائے ۔ یہ حکمت
کامیاب رہی بی جے پی کو پہلی بار زبردست کامیابی نصیب ہوگئی ۔ بی جے پی نے
منوہر لال کھٹر کو وزیراعلیٰ بنا کر جاٹوں کی مزید دلآزاری کردی جس سے
سینی اور دیگر ذات کے لوگوں کا حوصلہ بلند ہوگیا ۔دراصل جاٹوں کے ساتھ
دھوکہ ہوا انتخاب سے قبل امیت شاہ نے جاٹ رہنما کپتان ابھیمنیو کے
وزیراعلیٰ بنائے جانے کا عندیہ دیا تھا مگر اکثریت مل جانے کے بعد وہ بدل
گئے اور ایک پنجابی کو وزیراعلیٰ بنوا دیا۔ جاٹ برادری کو انتخاب کے بعد
اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اپنے سیاسی اختلافات مٹا کر متحد ہوگئے اور بی
جے پی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔ افسوس اس بات کا ہے بی جے پی کی ابن الوقتی
کی قیمت عوام کو چکانی پڑی ۔ ہزاروں کروڈ کی مال و متاع اور ۲۸زیادہ تربے
قصور لوگوں کی جانیں تلف ہوئیں۔
۵ مارچ کو ہریانہ میں غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے میک ان انڈیا کی نمائش
ہونے والی ہے ۔ ممبئی کے پرامن ماحول میں بڑے طمطراق سے یہ تماشہ منعقد ہوا
تو اس کی خاطر خواہ پذیرائی نہیں ہوئی ایسے میں ہریانہ کے پرتشدد فضا میں
وہاں جانے کی غلطی کون کرے گا؟ جس ریاست میں غیر ملکیوں کوبیف کھانے کیلئے
وزیراعلیٰ پرمٹ دینے پر غور کررہے ہیں اور ان کے دست راست انل وِج اس کے
جواب میں اعلان فرمارہے ہیں کہ جنہیں بیف کھانا ہو وہ ہمارے یہاں نہ آئیں
وہاں پر صنعت لگانے کیلئے کتنے پرمٹ لینے پڑیں گے یہ سوال بھی سرمایہ کاروں
کو پریشان کررہا گا؟ بی جے پی گجرات میں گیر کے ان جنگلات کوجو شیروں کیلئے
محفوظ کرکے رکھے گئے تھے اپنے اقرباء میں کوڑیوں کے بھاو بانٹ رہی ہے ۔ جس
کے نتیجے میں وہاں نکل شیر کبھی میک ان انڈیا کے پوسٹر میں نظر آتے ہیں تو
کبھی پٹیالہ ہاوس میں لیکن ان دونوں قسم کے کاغذی شیروں کا حال یہ ہے کہ
باہر سےوہ جیسے صحتمنداور دلیرنظر آتے ہیں اندر اسی قدر کھوکھلے اور کمزور
ہیں ۔
بی جے پی والے ہریانہ میں کانگریس پر جو الزامات لگا رہے ہیں وہی کھیل ہے
وہ آئے دن مسلمانوں کے خلاف کھیلتے رہے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ اس مرتبہ اس
کا شکار وہ خود ہوئے ہیں۔ اس بار مخالفین کے بجائے حوارین کو زخم لگا ہے۔
ایسےمیں اگر کانگریس کی ریاستی حکومت ہوتی تو ارونا چل پردیش کی طرح اسے
بھی برخواست کرکے صدر راج لگا دیا جاتا اور آیا رام گیا رام کی مدد سے بی
جے پی اپنی حکومت قائم کرنے کی کوشش کرتی لیکن ہریانہ میں زبان خود اپنے ہی
دانتوں میں گھری ہوئی ہے۔ اس فساد نے زعفرانی دہشت گردوں کے دلیری کی قلعی
بھی کھول کر رکھ دی ۔ جب ان کا مقابلہ کمزور اور بے بس لوگوں سے ہوتا ہے تو
یہ بہت شیر بنتے ہیں لیکن جب کسی طاقتور سے پنجہ آزمائی کا موقع آتا ہے
تو یہ بھیگی بلی بن جاتے ہیں ۔ان فسادات کا اثر پنجاب اور اتر پردیش کے
انتخاب پر ضرورپڑے گا اور جن علاقوں میں جاٹوں کا دبدبہ ہےوہاں سے بی جےپی
کو اپنی ضمانت بچانا مشکل ہو جائیگا۔
ہریانہ کی تباہی کے بعد ملک کی ہندو اکثریت حیرت زدہ ہے کہ ہندو ہردیہ
سمراٹ نریندر مودی جی کے زیر اقتداریہ انرتھ (انہونی ) کیسے ہوگیا؟ اس لئے
کہ غالباً پہلی مرتبہ چن چن کر وزیراعلیٰ کے ذات بھائیوں کی دوکانوں ،
کارخانوں اور گھروں کو نذرِ آتش کیا گیا ۔پولس کی گولی سے مرنے والےاکثرو
بیشترزعفرانی اکثریت سے تعلق رکھتے ہیں ۔ اس دوران ہریانہ خواتین کی
اجتماعی عصمت دری بھی ہوئی اورپولس نے اسے افواہ ٹھہرا کر شکایت تک درج
کرنے سے انکار کردیا لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وطن عزیز میں یہ پہلی
بار ہوا ؟ جی نہیں اس ملک کی اقلیتوں اور دلتوں کے ساتھ تو یہ آئے دن ہوتا
رہتا ہے اس لئے انہیں یہ سب دیکھ کر کوئی حیرت و پریشانی نہیں ہوتی ۔ اس
بار تو بس یہ ہوا ہے کہ چکرویوہ کی دِشا(سمت) تبدیل گئی جس نے اکثریتی طبقے
کی دشا (حالت) کو بدل کررکھ دیا۔ اس سانحہ سے اگر ملک کی اکثریت عبرت پکڑکے
اپنے رویہ پر نظر ثانی کرے تو ممکن ہے وطن عزیز میں امن و امان رہے گا اور
وہ مشیت ایزدی کے اس طرح کے انتقام سے بھی محفوظ و مامون رہیں گے۔
ہریانہ میں جاٹ اکثریت میں نہیں ہیں اس کے باوجود انہوں نے تباہی و بربادی
کا طوفان برپا کرکے ثابت کردیا کہ فتنہ و فساد بپا کرنے کیلئے کسی قوم کا
اکثریت میں ہونا ضروری نہیں ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ اس ملک میں فسطائی عناصر
ایک بہت معمولی اقلیت ہیں ۔ ان سارے حامیوں سمیت جو مختلف مفادات اور دھوکہ
و فریب کے سبب ان کے جھانسے میں آجاتے ہیں ان لوگوں کی تعداد ۳۱ فیصد سے
تجاوز نہیں کرتی اس کے باوجود یہ لوگ گجرات، دہلی اور آسام جیسے
خونریزفساد کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ یہ فساد اس غلط فہمی کا بھی ازالہ
کرتے ہیں کہ جب ان کی ہمنوا حکومت قائم ہوجائیگی تو فرقہ وارانہ فسادات کا
نام و نشان مٹ جائیگا ۔ اس لئے کہ فی الحال نہ صرف قومی سطح پربلکہ ریاست
کے اندر بھی ہندوتوا وادی سرکار برسرِ اقتدار ہے جس کو فسادزدگان نے ابھی
حال میں بڑے جوش و خروش کے ساتھ منتخب کیا تھا ۔ امت کے جو علماء اور
دانشور دین و ملت کے تحفظ کی خاطر صرف اور صرف انتخابی جدوجہد کے قائل ہیں
ان کیلئے ہریانہ کے واقعات میں تازیانۂ عبرت ہے۔
مہابھارت کی رن بھومی (میدان جنگ) کوروکشیترتھا یعنی کورووں کا علاقہ ۔ وہی
کورو اس وقت بی جے پی کی مانند اقتدار پر قابض تھے ۔اتفاق سے ہریانہ کی
حالیہ مہابھارت کا بگل بھی اسی تاریخی شہر کروروکشیتر میں بجا اور نتیجہ یہ
نکلا کہ کل یگ کے پانڈو یعنی کانگریس پارٹی بن باس سے واپس لوٹ آئی ۔
ہریانہ میں دریودھن کا کردار راجکمار سینی نے ادا کیا ۔ نابینا یودھشٹر کی
جگہ منوہر لال کھٹرّ نظر آئے اور بے یارومددگار بھیشم پتامہ کے مقام پر
وزیرا عظم نریندر مودی دیکھے گئے۔ سابق وزیر اعلیٰ بھوپندر سنگھ ہوڈا نےشری
کرشنا کی مانند بغیر اسلحہ اٹھائے بازی لی اور ارجن کی مانند چوٹالہ نے ان
کا ساتھ دیا۔ مہابھارت کے اس ری میک (دوہرائے جانے)میں روہتک کی تباہی کے
مناظر دیکھ کرعوام کوٹی وی سیریل مہابھارت کا اختتامی منظر یاد آگیا ہوگا
جس میں کورو یعنی غیر جاٹ پوری طرح تباہ و تاراج کردئیے گئے تھے اور پانڈو
یعنی جاٹوں کا بال بیکا بھینہیں ہوا تھا۔
|