کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی کا انحصار اس
بات پر ہوتا ہے کہ اس کے حکمرانوں کو اسکا کتنا ادراک ہے۔ اس ملک کی آبادی
کتنی ہے اور اسکی ضروریات کیا ہیں؟آبادی کے اعداد و شمار کومردم شماری کہا
جاتا ہے۔جن اقوام کے حکمران اپنی ذمہ داریوں کا احساس رکھتے ہوئے وقتا
فوقتا باقاعدگی سے مردم شماری و خانہ شماری کا انعقاد کراتے رہتے ہیں دنیا
کی قیادت انہیں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔اور جن اقوام کے راہنما خانہ شماری اور
مردم شماری کے ضمن میں عائد ذمہ داریوں کے حوالے سے اپنیہ ذمہ داریوں سے
غفلت کے مرتکب ہوتے ہیں وہ اقوام عالم میں بہت پیچھے رہ جاتی ہیں۔اس لیے
ترقی کے خواہاں ممالک باقاعدگی اور ذمہ داری کے ساتھ ایک مقررہ مدت کے بعد
مردم شماری کرواتے رہتے ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان میں مردم شماری کی روایت تسلسل قائم نہ رکھ سکی ہر بار
کوئی نہ کوئی انہونی اس کے آڑے آتی رہی اور اس کے انعقاد میں رکاوٹ بنتی
رہی ہے۔ اعلان کے مطابق مارچ دوہزار سولہ میں ہونے والی مردم شماری اٹھارہ
سال کے طویل عرصے کے بعد ہو رہی ہے،لیکن اس کے متعلق بھی شکوک و شبہات پیدا
ہو رہے ہیں کہ آیا اٹھارہ سال بعد ہونے والی مردم شماری بھی کیا ہو پائے
گی؟وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کے مابین اس حوالے سے اختلافات موجود
ہیں۔سندھ حکومت نے تو آل پارٹیز کانفرنس بھی منعقد کر ڈالی ہے جس میں مسلم
لیگ نواز سمیت تمام سیاسی جماعتیں شریک ہوئیں۔اس آل پارٹیز کانفرنس نے
متعدد اہم نوعیت کے مطالبات حکومت کے سامنے پیش کیے ہیں
آئین پاکستان کی رو سے ہر دس سال بعد مردم شماری ہونا لازمی ہے۔پاکستان میں
پہلی مردم شماری انگریزوں اور ہندوؤں سے آزادی کے بعد انتہائی نامساعد
حالات میں 1951 میں ہوئی جس کے مطابق ہماری آبادی ساڑھے سات کروڑکروڑ تھی (بشمول
مشرقی پاکستان) دوسری مردم شماری 1961کو ہوئی جس نے آبادی کا حجم نوکروڑ سے
زائد بتائی گئی اس میں مغربی پاکستان یعنی موجودہ پاکستان کی4.28، اور
مشرقی پاکستان موجودہ بنگلہ دیش کی آبادی5 کروڑ تھی ۔تیسری مردم شماری 1972
میں کروائی گئی جو کہ 1971 میں ہونا تھی اس تاخیر کا باعث مشرقی پاکستان کے
اندر خانہ جنگی بنی، 1972 کی مردم شماری کے نتائج کے مطابق پاکستان کی
آبادی ساڑھے چھ کروڑ سامنے آئی ، پھر 1981 میں مردم شماری کامیابی سے اور
وقت پر ہوئی اور پاکستان کی آبادی میں کئی کروڑ کا اضافہ ہوا،اس مردم شماری
کے اعداد و شمار دستیاب نہیں ہو سکے۔
آئین پاکستان کی رو سے تو اگلی مردم شماری 1991 میں ہونا تھی لیکن ملکی
سیاسی صورتحال کی پچیدگیوں اور دیگر مسائل کے باعث ملتوی کردی گئی ، جو بعد
میں 1998 میں ہوئی اس آخری مردم شماری کے نتائج کے مطابق ہماری آبادی کے
اعدادو شمار 130580000کروڑ تک جا پہنچے ،جس سے ظاہر ہوا کہ ہماری روزافزوں
بڑھتی ہوئی آبادی کسی ایٹم بم سے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ کیونکہ
پاکستان کا کل رقبہ796096 مربع کلو میٹر ہے، شمالی علاقہ جات اور مغربی
قبائلی علاقہ جات کو ملا کر یہ رقبہ868591 مربع کلو میٹر بن جاتا ہے۔ 1981
کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی7820000 نفوس پر مشتمل تھی جبکہ
مارچ1998میں ہونے والی مردم شماری کے تحت ہمارے وطن عزیز کی کل
آبادی13,0580000ظاہر کی گئی یا پہنچ چکی تھی۔ 1981اور1998 کی مردم شماری کے
مطابق پاکستان کے صوبوں اور دیگر علاقوں کی آبادی کچھ اس طرح تقسیم ہوئی۔
آبادی ---------------- 1981 -------------------------1998
کل آبادی -------- 84253000 ------------------130580000
صوبہ کے پی کے------ 11061000 -------------------17555000
پنجاب---------------- 47292000 ------------------72585000
سندھ-------------------- 19029000 ------------------29991000
بلوچستان ----- 04332000 --------------- 06511000
قبائلی علاقہ جات ---------02199000 --------------03138000
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد 00340000 -----------00800000
بدقسمتی یہ رہی کہ پاکستان کی جو حکومتیں 1998 کے بعد برسراقتدار آئیں وہ
مردم شماری کے تسلسل کو قائم نہ رکھ سکیں لامحالہ اس کا نقصان پاکستانی قوم
کو ہوا کیونکہ سمجھدار حکومتیں اور حکمران اپنے معاشیاقتصادی اور ترقیاتی
منصوبے ترتیب دیتے وقت ملک کی اابادی کو پیش نظر رکھنا لازمی خیال کرتے ہیں
اسکی وجہ یہ ہے کہان کے لیے اس بات کا جاننا ضروری ہوتا ہے کہ آئندہ پانچ
سالوں میں یا دس سالوں میں ملک کی آبادی میں کتنا اضافہ ہونے کا امکان ہے
تاکہ اس اعتبار سے یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ خوراک،رہائش،لباس،تعلیم و صحت
وصفائی کی سہولیات اور روزگار کی فراہمی کے لییکس قدر آبادی کا ہونا ضروری
ہے۔
آبادی کی تقسیم کے کئی معیار مقرر ہیں کئی ممالک میں عمر اعتبار سے بھی کی
جاتی ہے،اس سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کام کرنے کے قابل افراد کا تناسب معلوم
ہوجاتا ہے،جن ممالک میں کام کرنے کے قابل افراد کا تناسب زیادہ ہوتا ہے
وہاں پیداوارزیادہ ہوگیاگر,1998کے بعد بوجہ ملتوی کی جانے والی مردم شماری
ااپنے وقت پر ہو جاتی تو آج بہت سے مسائل حل ہو چکے ہوتے۔ صوبوں اور وفاق
کے درمیان شکوک و شبہات جنم نہ لیتے۔
اعلان کے مطابق اور آئین کے تقاضے کے تحت اب مارچ دوہزار سولہ یعنی اگلے
ماہ مردم شماری ہونے جا رہی ہے۔ لیکن حالات و واقعات اس امر کی غمازی کرتے
ہیں کہ اگلے ماہ بھی مردم شماری کے انعقاد کے امکانات بہت کم ہیں، لیکن
حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین کے تقاضے پورے کرتے ہوئے چھٹی مردم
شماری بروقت کروانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے اور وفاق کی تمام
اکائیوں کواعتماد میں لیا جائے خصوصا صوبہ سندھ کی قیادت اور آل پارٹیز
کانفرنس کی سفارشات و مطالبات کے ذریعہ سامنے آنیوالے خدشات کو دور کیا
جائے۔ |