اگرعورت کا کردار مثبت ہو گا تو ریاست بھی
کامیاب کی راہ پر گامزن ہو گی۔ اگر عورت کا کردارغیر مناسب ہو گا توریاست
بھی کامیاب نہیں ہوگی۔جس طرح ستون کو دیکھ کر کسی عمارت کی مضبوطی کا
اندازہ کیا جاسکتا ہے اسی طرح معاشرہ میں عورت کی حیثیت کو دیکھ کر قوم کی
عظمت اور سربلندی کا اندازہ باآسانی کیا جا سکتا ہے۔ معاشرہ کا یہ ستون اگر
مضبوط ہے تو اس پر قوم کے امن وعافیت کی چھت ڈالی جاسکتی ہے۔اس وقت یہ
جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ اگرعورت کا معاشرے کو بنانے اور بگاڑنے میں اتنا
اہم رول ہے تواس کو وہ اہمیت کیوں نہیں دی جاتی جس اہمیت کی وہ مستحق ہے۔
اگر عورت ہی معاشرے کی بنیاد ہے تواس بنیاد کو مضبوط کرنے پر تو جہ کیوں
نہیں دی جاتی۔ ظہور اسلام سے پہلے عورت کی زبوں حالی سے ہر ایک واقف ہے کہ
اس کی حیثیت پیر کی جوتی کے برابر بھی نہ تھی۔ پھرایک روشن زمانہ آیا اور
اسلام نے درس دیا کہ اس مطہر اور مقدس مخلوق عورت کو خرید و فروخت کا سامان
مت بناؤاور موت کے بعد اسے اس طرح مت تقسیم کرو جس طرح تم وراثت کی دیگر
چیز یں تقسیم کرتے ہو۔اسلام نے اس بات کا پور اخیال رکھا ہے کہ کسی عورت کے
ساتھ صرف عورت ہونے کی بنیاد پرناانصافی نہ ہونے پائے۔نہ اس کی صلا حیتیں
کچلی جائیں اور نہ اس کی شخصیت کو دبا یا جائے۔
ہمارے ملک میں بعض مکروہ رسم و رواج ایسی بھی ہیں جو نہ صرف انسانیت کے نام
پر دھبے کا باعث بنی ہوئی ہیں بلکہ مذہب اسلام کی اصل روح ، روایات اور
تعلیمات کے بھی سراسر خلاف ہیں۔ ہمارے معاشرے میں عورت کو وہ حیثیت ابھی تک
نہیں ملی جوکہ اسے ملنی چاہیے تھی الٹا اس کے خلاف سینکڑوں مکروہ روایات کی
نشوونما ہو رہی ہے جنہوں نے عورتوں کی سماجی زندگی جہنم بنا رکھی ہے۔ ہمارے
سماج میں عورتوں سے متعلق قابل مذمت رسومات میں ان کی خرید و فروخت ،
کاروکاری، چھوٹی بچیوں کی باپ کی عمر کے بوڑھوں سے شادی، اکثر جاگیردار
خاندانوں میں جائیداد خاندان سے باہر جانے کے خوف سے یا دوسرے انسانوں کو
اپنے جیسا مسلمان نہ سمجھنے پر عورتوں کا قرآن شریف کے ساتھ حق بخشواکر ان
کی شادی نہ کرنا، انہیں جائیداد کا حصہ نہ دینا، جہیز کی لعنت کا
تقاضاوغیرہ اہم ترین ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ پسِ پردہ جرائم بھی عام ہیں
جیساکہ عورتوں کے چہرے پر تیزاب پھینکنا، انہیں گیس کے چولہے میں جلادینا
وغیرہ وغیرہ۔ ہمارے ہاں آج بھی ایک ایسا طبقہ پایا جاتا ہے جو عورت کو مال
و دولت یا ڈھور ڈھنگر کی طرح سمجھتاہے۔ دورِ جہالت کے عربوں کی طرح لڑکی کی
پیدائش پر آج بھی ستر فیصد لوگوں کو وہ خوشی نہیں ہوتی جو لڑکے کی پیدائش
پر ہوتی ہے۔ آج بھی ہمارے ملک میں ہر روزکہیں نہ کہیں ایک عورت آگ میں
جلائی جاتی ہے۔ ہر تین گھنٹے میں ایک عورت زنا بالجبر کا شکار ہوتی ہے جن
میں سے اسی فیصد کو قتل کردیا جاتا ہے اور ہرایک گھنٹے میں ایک طلاق کا کیس
داخل کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں مختلف شکوک و شبہات و الزامات کی پاداش میں
عورتیں ٹکڑے ٹکڑے کرکے زمیں میں دفن کردی یا زندہ جلادی جاتی ہیں، جہیز نہ
لانے یاکم جہیز لانے پر اسے مارا پیٹا جاتا رہتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی رنجشوں یا
غلطیوں پر جیسے روٹی پکانے میں دیر ہونے پر یا سبزی میں نمک زیادہ ڈل جانے
پر عورتوں کی ٹانگوں یا بازؤں کو توڑ نے کے ساتھ علاوہ ان کے بال ، کان،
ناک وغیرہ کاٹے جاتے ہیں، تیزاب سے ان کا چہرہ بگاڑا جاتا ہے، یہاں تک کہ
سفاکانہ طریقے سے ذبح کئے جانے کے معاملات بھی ہوتے رہتے ہیں۔
مگر اب خادم اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کی خصوصی ہدایات پر صوبہ میں
خواتین کو بااختیار بنانے اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لئے تاریخی اور قابل
تقلید اقدامات کئے گئے ہیں۔ خواتین کے حقوق کے تحفظ اوران کیخلاف تشدد کی
روک تھام کیلئے صوبے بھر میں مراکز کا قیام قابل تحسین ہے ۔ جنوبی ایشیا کے
خطے میں اپنی نوعیت کا قائم ہونے والا یہ پہلا اورمنفرد مرکز ہے جو خواتین
کی شکایات کے فوری ازالے کے لئے مستقل نظام وضع کرنے میں سنگ میل ہے۔جہاں
پر پولیس ،پراسکیویشن ، میڈیکل اور فرانزک سہولتیں ایک ہی جگہ پر دستیاب
ہیں۔ان مراکزقیام سے خواتین پر تشدد کے واقعات میں خطر خواہ کمی واقع ہوئی
ہے۔ صوبہ میں خواتین کے استحصال کی روک تھام اور انہیں بااختیار بنانے
کیلئے فیملی لاز میں ضروری ترامیم کی منظوری بھی دی جا چکی ہے۔ وزیر اعلیٰ
ورکنگ وومن انڈوومنٹ فنڈ کے قیام اور ہر ضلع میں فیملی کورٹس کمپلیکس بنانے
کے پروگرام کی دستاویزات پر بھی دستخط فرما چکے ہیں۔ سرکاری ملازمتوں میں
خواتین کا کوٹہ5فیصد سے بڑھا کر15فیصد کردیا گیا ہے ۔ حکومت کے اس انقلابی
فیصلے سے زیادہ سے زیادہ خواتین کو مختلف شعبوں کی ترقی میں اپنا بھر
کردارادا کرنے کا موقع ملے گا،اسی طرح ضروری قانون سازی کے ذریعے خواتین کا
وراثت میں حصہ یقینی بنایا گیا ہے ۔خادم اعلیٰ کے ایک اورانقلابی فیصلے کے
تحت خواتین کو ملازمت کیلئے عمر کی حد میں 3سال کی خصوصی رعایت بھی دی
جارہی ہے ۔شہباز شریف کا پنجاب حکومت کے تحت کام کرنے والے تمام فیصلہ ساز
بورڈز اور کمیٹیوں میں خواتین کو 33فیصد نمائندگی دینے کا فیصلہ بھی ایک
قابل تقلید اقدام ہے۔ اس اقدام کی بدولت تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والی
خواتین فیصلہ سازی کے عمل میں شامل ہورہی ہیں جبکہ سرکاری اداروں میں بھرتی
کے لئے مقررکی جانے والی ہر کمیٹی میں ایک خاتون ممبر کا ہونا بھی لازم
قرار دیا جا چکا ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف نے پنجاب کی نصابی
کتابوں میں خواتین پر تشدد سے بچاؤ کا باب شامل کرنے کی منظوری بھی دی ہے۔
اخوت تنظیم کے ذریعے صوبے کی لاکھوں خواتین کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے اور
ان کو بااختیار بنانے کے لئے انتہائی اہم اقدام ہے اوران کی وصولی بھی
تقریباً 100فیصد ہے۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے انقلاب آفرین اقدامات
کے باعث پہلی مرتبہ خواتین کی بڑی تعداد لیپ ٹاپ سکیم ، اجالا پروگرام،
انٹرن شپ پروگرام اور خود روزگار سکیم سے مستفید ہو رہی ہے۔ خواتین کو
بااختیار بنانے کے حوالے سے حکومتی اقدامات کے حوصلہ افزا اور مثبت نتائج
برآمد ہو رہے ہیں اور پاکستانی خواتین وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملک کی تعمیر
و ترقی میں پہلے سے بڑھ کر کردار ادا کر رہی ہیں۔حال ہی میں پنجاب اسمبلی
نے گزشتہ سال پیش کیا گیاتشدد کے خلاف خواتین کے تحفظ کا بل منظور کرلیاہے
جس کے تحت خواتین پر تیزاب پھینکنے جیسے سنگین واقعات میں عدالت کے حکم پر
متعلقہ شخص کوجی پی ایس ٹریکر لگے گا اور مختلف صورتحال کا سامنا کرنا پڑے
گا۔جی پی ایس ٹریکر کو مقررہ مدت سے پہلے ہٹانے پر ایک سال تک قید یا پچاس
ہزار سے دو لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا۔ پنجاب اسمبلی کے پاس کردہ قانون کے
مطابق خواتین پر تیزاب پھینکنے ، زنا بالجبر اور دوسرے سنگین جرائم کا
مرتکب شخص متاثرہ خاتون کے کام کی جگہ ، یا اکثر آنے جانے والے جگہوں پر
نہیں جاسکے گا۔ اس قانون کے تحت متاثرہ خاتون کے پیش کردہ مواد کی بناء پر
عدالت متعلقہ شخص کو خاتون سے رابطے سے روک سکتی ہے۔ گھریلو تشدد کا نشانہ
بننے والی متاثرہ خاتون کو اس کی مرضی کے بغیر گھر سے بے دخل نہیں کیا
جاسکے گا۔ اگر ناجائز بے دخل کر دیا گیا ہو تو عدالت متاثرہ خاتون کو پہلی
والی حالت پر بحال کر دے گی۔ گھریلو تشدد کے مرتکب شخص کو آتشیں ہتھیار یا
اسلحہ سے دستبر دار ہونا ہوگا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ تشدد کی غلط
اطلاع دینے پرخاتون کو تین ماہ تک قید یا پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپے تک
جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں۔ عبوری ، پروٹیکشن ، ریذیڈینس ، مانیٹری
آرڈرز کی ایک سے زائد مرتبہ حکم عدولی پر دو سال تک قید یا پانچ لاکھ روپے
تک جرمانہ ہوگا۔ ڈسٹرکٹ پروٹیکشن آفیسر کو متاثرہ خاتون کی شکایت پر گھر
داخل ہونے کی اجازت ہوگی۔ بل کے تحت خواتین کے تحفظ کے لئے حکومت پنجاب ٹال
فری بھی نمبر جاری کرے گی۔
پنجاب حکومت نے خواتین کے حقوق کے تحفظ اور انہیں مساوی ترقی کے مواقع
فراہم کرنے کیلئے جوانقلابی اقدامات کئے ہیں دوسرے صوبوں کے لئے بھی قابل
تقلید ہیں۔ معاشرہ کے ارتقاء او رزندگی کے ہر شعبہ میں خواتین کے کلیدی
کردار کی اہمیت سے کبھی انکار نہیں کیا جا سکتا ۔خواتین کواپنے حقوق کے لئے
جاری جنگ میں فتح کے لئے حصول تعلیم کے بعد گھروں میں بیٹھنے کی بجائے
میدان عمل میں آنا ہوگا۔میرایقین ہے کہ خواتین ملک کی ترقی کے لئے میدان
عمل میں نکلیں گی تو پاکستان بین الاقوامی برادری میں اپنا کھویا ہوا مقام
ضرور حاصل کرے گا۔پاکستانی خواتین میں بے پناہ ٹیلنٹ ہے اور انہیں یہ ٹیلنٹ
ملک و قوم کی بہتری کے لئے استعمال کرناہے۔ پنجاب حکومت نے 2012سے لے کر
2015تک خواتین کو معاشی اورسماجی طو رپر با اختیار بنانے کے لئے تاریخی
نوعیت کے انقلابی اقدامات اٹھائے ہیں تاہم ابھی اس میدان میں بہت کچھ کرنا
ہے۔خواتین کو اب ہر صورت عملی میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا ہوگا
اور پاکستان کو آگے لے جانے کا یہ واحد راستہ ہے۔ |