معاملہ نیب کا؟
(Prof Akbar Hashmi, Rawalpindi)
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
نیب کے قیام کا مقصد ملک و قوم کو ظالموں کے خونخوار پنجوں سے آزاد کرانے
کی جانب اہم اقدام تھا ۔ اس ادارے کے قیام کے حق میں تمام پارلیمنٹ کے
ارکان شام تھے اور کچھ کو چھوڑ کر بھاری اکثریت میں سیاستدان بھی شامل تھے
کہ جن کی سیاست کا مرکزی محور ملک اور قوم کو لوٹنا اور انتخابات پر پیسہ
خرچ کرنا اور پھر سے اصل اور اس پر کئی گنا سود اکٹھا کرنا۔ لوٹی ہوئی دولت
کو بیرونِ ملک بینکوں میں محفوظ کرنا یا دوسرے ممالک میں کارخانے ، ملیں
لگانا یا کاروباری پلازے بنانا ۔ یار لوگوں نے سمجھا کہ یہ محکمہ تشکیل
دینا بھی ایک معمول کی کاروائی ہے۔ کیونکہ اس ملک میں کہنے کو قانون ہیں،
عدالتیں ہیں، انتظامیہ اور ایف آئی اے ، محتسب کا ادارہ بھی ہے۔ لیکن ہمارے
یہ سب ادارے کمزوروں پر رعب جمانے اور انہیں کو رگڑا دے کر عوام کو قانون
کی بالا دستی جتلانا۔ موٹر سائیکل سواردو نوجوان راہ جاتے عورتوں کے پرس
چھیننے کی پادش میں تھانے لائے جاتے ہیں۔ تھانیدار انہیں کچھ سبق سکھانے کی
تیاری کرتا ہے کہ فون کی گھٹی بجی، تھانیدار صاحب کسی کے آئے بغیر ایک دم
سے اپنی نرم و نازک سیٹ سے اچھل کر کھڑے ہوگئے گویا کہ کوئی سوئی چبھ گئی
یا کسی موذی کیڑے نے انہیں کاٹا ہو۔ حواس باختہ ہوکر سر سر کہتے چلے جارہے
ہیں۔ فون بند ہوا لڑکوں کو فرماتے ہیں پہلے کیوں نہ بتایا کہ تم فلاں صاحب
کے صاحبزادے ہو۔ جاؤ اور یہ پرس مع پونجی تمہیں نصیب ہو۔ بڑی کڑاکے دار
خبریں آئیں کہ نیب نے فلاں مگرمچھ پکڑ لیا، فلاں مگرمچھ پر ہاتھ ڈالدیا۔
سندھ سے ابتداء ہوئی ۔ شور و واویلا ایسا کہ الامان ۔ مارے گئے ظلم ہوگیا۔
پنجاب کے بھاری بھرکم مگرمچھ سکون میں تھے کہ نیب کے ہاتھوں ہمارے سیاسی
مخالفین کی ایسی تیسی ہوجائے گی کہ نیب خود مختار، خود سر،اور حکمرانوں کی
ایک نہ سننے والا ادارہ بڑی مستعدی کے ساتھ عوام کی لوٹی دولت واپس لانے کے
جتن جگانے میں مصروف عمل ہوکر پنجاب کی طرف بڑھا اور بھاری بھرکم مگرمچھوں
کی ہلکی پھلکی فہرست بھی بنا لی۔ کہ وزیر اعظم پاکستان کے حضور دہائی دہائی
بچاؤ بچاؤ کی التجائیں کی گئیں تو وزیر اعظم سے نہ رہا گیا اور فرمایا کہ
ہمارے بلی ہمیں ہی میاؤں ۔ ٹھہر ذرا تیر ا علاج کرتا ہوں۔ دو سال بعد انہیں
یاد آیا اور کچھ کرایا کہ حضور یہ نیب کو اژدہا عصاء موسوی کی طرح منہ
کھولے ہماری طرف آرہا ہے۔ اب کیا وزیر اعظم کی سر میں تمام وزرا نے سر
ملادی ۔ نیب کے اختیارات اورقوانین میں انکی ڈینگی خورد بین نے حرام خورکش،
ایمان و عزت باختہ بے غیرتوں کو ہلاک کرنے والے جراثیم کی نشان دہی کردی ۔
اب وزیر اعظم اور انکے سربردوں نے نیب قوانین کے جبڑوں میں ہاتھ ڈال کر اس
کے دانت نکالنے کی تیاری شروع کردی۔ حکمران بھی کتنے ناسمجھ نکلے کہ
ریٹائرڈ میجر قمرالزماں کو اپنا آدمی سمجھ کر کئی سالوں سے اس کے لیئے نیک
تمناؤں کا اظہار کرتے رہے۔ جبکہ موصوف اپنا کام کرتے رہے۔ مجھے یاد آیا کہ
وہ ڈی سی راولپنڈی تھے ۔ میں مسلم کا مخلص کارکن تھا اور اعلیٰ قیادت میری
عزت کرتی تھی۔ ایک دن میجر صاحب نے کہا کہ ہاشمی صاحب اس صاحبانِ اقتدار سے
آپ جو چاہیں کراسکتے ہیں لیکن یاد رکھیں اقتدار آنی جانی چیز ہے اگر آپ نے
آج کوئی خلاف قانون مراعات لے لیں تو کل مصیبت میں پڑیں گے۔ میں نے کہا کہ
میں تو نظریاتی مسلم لیگی ہوں مالی مسلم لیگی نہیں۔ جب آپ نیب کے سربراہ
لگے تو کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ میاں نواز شریف کا آدمی ہے ۔ میں نے کہا میں
جانتا کہ یہ اﷲ کا بندہ ہے۔ اخلاق اور احترام کرنا جانتا ہے لیکن کرپشن کے
معاملے میں کسی کو بخشنے والا نہیں۔ وہی ہوا اوراس ملک میں ایسا ہی ہوتا
چلا آیا ہے کہ جب کسی بااختیار افسر نے خشیت ِ الٰہی سے مغلوب ہوکر
دیانتداری سے فرائض سرانجام دیئے تو osd بنا دیا گیا۔ اگر اس ملک میں سبھی
ضمیر فروش اور ایمان باختہ ہوتے تو کچھ انہونی ہوچکی ہوتی۔ مگر اﷲ تعالیٰ
اپنے نیک بندوں کا بڑا ہی خیال رکھتا ہے۔ پیپلز پارٹی ہو یا نون لیگ ہو ۔
سبھی کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ سیاستدانوں کو یہ کبھی نہیں بھولنا
چاہیئے کہ آرمی چیف جناب راحیل شریف ببانگ دہل کہ چکے ہیں کہ اب پاکستان
دہشت گردی اور لوٹ مار ، کرپشن کو مکمل طور پر ختم کروں گا۔ انہوں نے بھی
نیب سربراہ کو واضح کر رکھا ہے کہ کسی سے ڈرنا نہیں میں تمہارے ساتھ ہوں
اور میں کہتا ہوں کہ ملک اور قوم کی تعمیر نو کرنے والے جناب راحیل شریف کے
ساتھ اﷲ اور رسول ﷺ ہیں۔ پھر عوام کے بارے تو یہ امر اظہر من اشمس ہے کہ ان
نام نہاد سیاستدانوں کے مقابلے میں انہیں وردی والانجات دہندہ کس قدر پیارا
ہے ۔عوام کی آنکھوں کا تارا ہے۔ میں لٹیروں کو مشورہ دیتا ہوں کہ گرفت میں
آنے سے پہلے سبھی واپس کردو۔ کیونکہ قرآنِ پاک میں ہے کہ چور ڈاکوگرفتار
ہونے سے پہلے آکر اپنی غلطی مان لے اور لوٹا ہوا مال واپس کردے تو وہ سزا
سے بچ جائے گا۔ ہاں جب قانون کی گرفت میں آگیا تو پھر اڈیالہ جیل یا اٹک
جیل کا دریا کنارے پرفضا مقام۔ |
|