آزاد کشمیر اسمبلی کا الیکشن2016
(Athar Massood Wani, Rawalpindi)
ہ درست ہے کہ ایکٹ 1974ء کے ذریعے آزاد کشمیر حکومت کا کردار مقامی امور تک ہی محدود ہے اور آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتیں بھی اسی حوالے سے مقامی امور کی سرگرمیوں میں ہی دلچسپی رکھتی ہیں ،لیکن اس کے باوجود آزاد کشمیر میں ہونے والے اقدامات کو مسئلہ کشمیر کے تناظر میں بھی دیکھا جاتا ہے کہ یہ خطہ بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق اس متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے جس کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ رائے شماری کے ذریعے کیا جانا ابھی باقی ہے۔یوں آزاد کشمیر اسمبلی کے الیکشن محض مقامی برادریوں اور سیاسی جماعتوں کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ بھارت سمیت عالمی ادارے اور دنیا کے اہم ممالک بھی آزاد کشمیر اسمبلی الیکشن پر گہری نظر رکھتے ہیں۔پاکستان میںمسلم لیگ(ن) کی حکومت اور وزیر اعظم نواز شریف سے یہ توقع چلی آ رہی ہے کہ ان کی حکومت آزاد کشمیر میں با اختیار ار باوقار حکومت کے قیام اور تحریک آزادی کشمیر میں آزا د کشمیر حکومت کے کردار کی صورتحال کو بہتر بنائیں گے لیکن افسوسناک طور پر آزاد کشمیر کی طرف سے ایسے مطالبے ہی نظر نہیں آتے جن سے ان مقاصد میں کسی قسم کی پیش رفت کی توقع کی جا سکے۔ |
|
آزاد کشمیر میں چیف الیکشن کمشنر کی
تعیناتی کے بعد اسمبلی الیکشن کی تیاری کا عمل شروع ہو گیا ہے۔آزاد کشمیر
ہائیکورٹ،شریعت کورٹ کے چیف جسٹس غلام مصطفی مغل نے سیاسی جماعتوں سے
مشاورت کے بعد میڈیا کو بتایا کہ آزاد کشمیر کے 29حلقوں میںجدیدنئی ووٹر
لسٹوں کی تیاری 5مارچ سے شروع کرکے 20مارچ تک یہ عمل مکمل کر لیا جائے گا
جبکہ مہاجرین مقیم پاکستان کے12حلقوں میں ووٹر لسٹوں سے متعلق اعلان بعد
میں کیا جائے گا۔نئی ووٹر لسٹوں میں ووٹ کا اندراج شناختی کارڈ یا 'ب' فارم
کے مطابق ہو گا اور دوہرے ووٹ کے اندراج پر پابندی ہو گی۔آزاد کشمیر کے
آئین'ایکٹ1974' کے مطابق آزاد کشمیر اسمبلی 49ممبران پر مشتمل ہے جس میں
سے41ممبر(آزاد کشمیر29 ،مہاجرین مقیم پاکستان12)کا انتخاب براہ راست ہو تا
ہے۔اسمبلی میں خواتین کی5اور علماء و مشائخ ،بیرون ملک مقیم ریاستی باشندہ
اور ٹیکنو کریٹ کی ایک ایک سیٹ شامل ہے،ان 8سیٹوں کا انتخاب اسمبلی کے براہ
راست منتخب ہونے والے41ممبران کرتے ہیں۔اب ٹیکنوکریٹ کی سیٹ کے لئے صحافی
کا شعبہ بھی شامل کیا گیا ہے۔اسمبلی کی مدت پانچ سال ہے اور مدت کی تکمیل
پر اسمبلی خود بخود ختم ہو جاتی ہے۔اسمبلی کی معیاد کے خاتمے کی تاریخ سے
پہلے کے ساٹھ دن کے اندر الیکشن ہونا ضروری ہے۔اب تک یہ طے نہیں کیا جا سکا
ہے کہ آزاد کشمیر اسمبلی کے الیکشن کس مہینے کی کس تاریخ کو کرائے جائیں گے۔
آزاد کشمیر کے آئندہ عام انتخابات میں حصہ لینے والی اہم سیاسی جماعتوں میں
پاکستان پیپلز پارٹی آزاد جموں وکشمیر،پاکستان مسلم لیگ(ن) آزاد جموں و
کشمیر،آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس،پاکستان تحریک انصاف آزاد کشمیر،جماعت
اسلامی آزاد کشمیر،آزاد جموں و کشمیر پیپلز پارٹی،متحدہ قومی موومنٹ شامل
ہیں جبکہ خود مختار کشمیر کی حامی چند تنظیموں کی طرف سے بھی اس الیکشن میں
حصہ لینے کی اطلاعات ہیں۔الیکشن2016ء میںتحریک انصاف آزاد کشمیر میں اپنے
قیام کے بعد پہلی مرتبہ اسمبلی الیکشن میں شریک ہو رہی ہے اور دوسری طرف
مسلم کانفرنس،جماعت اسلامی اور آزاد کشمیر پیپلز پارٹی بھی اس الیکشن میں
سرگرمی سے حصہ لینے کے لئے متحرک ہیں۔یہ توقع کی جا رہی تھی کہ کراچی میں
رینجرز کے آپریشن کی صورتحال میں ' ایم کیو ایم' آزاد کشمیر اسمبلی میں
اپنی دو نشستوں سے محروم ہو جائے گی لیکن کراچی میں ہونے والے بلدیاتی
الیکشن کے نتائج کی صورتحال سے واضح ہوا ہے کہ ' ایم کیو ایم' سے یہ دونوں
سیٹیں لینا آسان نہیں ہے۔پیپلز پارٹی کی طرف سے یہ بیانات سامنے آ رہے ہیں
کہ وہ'' کارکردگی کی بنیاد پر آزاد کشمیر میں دوبارہ حکومت بنائیں
گے''،جبکہ دوسری طرف مسلم لیگ(ن) پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت کی کرپشن،بد
انتظامی،اقرباء پروری کو موضوع بناتے ہوئے آزاد کشمیر میں اصلاح احوال کے
دعوے کے ساتھ الیکشن کی تیاری میں مصروف ہے۔مسلم کانفرنس ''غیر ریاستی''
جماعتوں کے خلاف بیانات دیتے ہوئے کسی ''غیر ریاستی'' جماعت کے ساتھ
انتخابی اتحاد قائم کرنے کی کوشش میں ہیں۔یوں آزاد کشمیر کی چھوٹی سیاسی
جماعتوں کا بڑی سیاسی جماعتوں سے اتحاد کرنے یا نہ کرنے کے فیصلے کرنا بھی
ابھی باقی ہیں۔اس حوالے سے یہ امکانات بھی پائے جاتے ہیں کہ پیپلز
پارٹی،تحریک انصاف اور مسلم کانفرنس '' سیٹ ایڈ جسمنٹ'' کے ذریعے مسلم
لیگ(ن) کے خلاف آپس میں مل کر الیکشن لڑسکتے ہیں۔ابھی تک کسی سیاسی جماعت
نے اپنا الیکشن منشور تیار نہیں کیا ہے،تاہم یہ بات اہم ہے کہ آزاد کشمیر
اسمبلی کی طرف سے ایکٹ1974ء میں ترامیم کی سفارشات میں آزاد کشمیر حکومت کے
بنیاد ی کردار کی بحالی سے متعلق کوئی مطالبہ شامل نہیں ہے۔یوں آزاد کشمیر
کی پالیمانی سیاسی جماعتوں کی دلچسپی کا دائرہ کار آزاد کشمیر کے مقامی
امور میں ہی محدود نظرآتا ہے۔
آزاد کشمیر کے تین ڈویژن،مظفر آباد،میر پور اور پونچھ کے29اسمبلی حلقوں
میںانتخابی سرگرمیاں تیز ہوتی جا رہی ہیں اور الیکشن میں حصہ لینے والوں
امیدواروں کو مخالف سیاسی جماعتوں کے علاوہ اپنی جماعتوں کے امیدواروں کی
مخالفت کا بھی سامنا ہے۔سیاسی جماعتوں،امیدواروں کے درمیان سب سے زیادہ
کشیدگی میر پور ڈویژن میں نظر آ رہی ہے تاہم پونچھ اور مظفر آباد میں بھی
سخت کشمکش کی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔اس وقت الیکشن کمیشن کے لئے آزاد
کشمیر اسمبلی الیکشن کے لئے نئی اور جدید ووٹر لسٹوں کی تیاری ایک بڑا
چیلنج ہے۔ مہاجرین مقیم پاکستان کے حلقوں میں آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں
کے شہریوں کے ووٹوں کا بڑی تعداد میں اندراج اور غیر ریاستی باشندوں کے
ووٹو ں کا اخراج بھی الیکشن کمیشن کے ایک ایسا بڑا چیلنج ہو گا ،جس پر آزاد
کشمیر اسمبلی کے الیکشن کی ساکھ کا بڑا دارومدار ہے۔یہ درست ہے کہ ایکٹ
1974ء کے ذریعے آزاد کشمیر حکومت کا کردار مقامی امور تک ہی محدود ہے اور
آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتیں بھی اسی حوالے سے مقامی امور کی سرگرمیوں میں
ہی دلچسپی رکھتی ہیں ،لیکن اس کے باوجود آزاد کشمیر میں ہونے والے اقدامات
کو مسئلہ کشمیر کے تناظر میں بھی دیکھا جاتا ہے کہ یہ خطہ بھی اقوام متحدہ
کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق اس متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کا
حصہ ہے جس کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ رائے شماری کے ذریعے کیا جانا ابھی
باقی ہے۔یوں آزاد کشمیر اسمبلی کے الیکشن محض مقامی برادریوں اور سیاسی
جماعتوں کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ بھارت سمیت عالمی ادارے اور دنیا کے اہم
ممالک بھی آزاد کشمیر اسمبلی الیکشن پر گہری نظر رکھتے ہیں۔پاکستان میںمسلم
لیگ(ن) کی حکومت اور وزیر اعظم نواز شریف سے یہ توقع چلی آ رہی ہے کہ ان کی
حکومت آزاد کشمیر میں با اختیار ار باوقار حکومت کے قیام اور تحریک آزادی
کشمیر میں آزا د کشمیر حکومت کے کردار کی صورتحال کو بہتر بنائیں گے لیکن
افسوسناک طور پر آزاد کشمیر کی طرف سے ایسے مطالبے ہی نظر نہیں آتے جن سے
ان مقاصد میں کسی قسم کی پیش رفت کی توقع کی جا سکے۔ |
|