کاش کوئی اس کھیل کو روکے

شام جہاں حضرت امیر معاویہ نے انتھائی شان وشوکت کے ساتھ ایک مستحکم حکومت کی داغ بیل ڈالی تھی ، عبد الملک بن مروان نے جسے پروان چڑھایاتھا ،عمر بن عبد العزیز کے اصلاحاتی عمل کے بعد ان کی قلت عمری کی وجہ سے تعمیرنوکا مر حلہ نہ دیکھ سکی ، ان کے بعد مر کز بغداد منتقل ہو گیا ،جہاں بظاہر بنو عباس اور حقیقت میں اہل فارس یا ترکی حکمراں ہوا کر تے تھے ۔

سوریا ،اردن ،لبنان،فلسطین، اور اسرائیل ،ان پانچوں ریاستوں پر مشتمل قدیم شام ماقبل الاسلام سے سقوط خلافت عثمانیہ (۱۹۲۴) تک بطور صوبہ ہی رہا،عالم اسلام پر انگریزی ،روسی ،ولندیزی اور فرانسیسی استعماروں کے انخلاء کے بعد دیگر اسلامی ممالک کی طرح اس علاقے کوبھی چھوٹے چھوٹے مذکورہ پانچ ملکوں میں تقسیم کر دیاگیا۔

استعمار نے رخصت ہو نے کے بعد عالم اسلام کے اکثر ممالک میں اقلیتی عناصر کو اپنے مابعد زمام حکومت حوالے کی ، نیز بعض منطقوں میں ایسے خطر ناک سر حدی تنازعات وراثت میں چھوڑے کہ برسہابرس کے بعد بھی ان کا کوئی پائیدار حل نظر نہیں آرہا۔

فر قہ واریت ،نسلیت ،صوبائیت ،اور کہیں کہیں مذہبی تعصب کی ایسی بیج بوئی کہ اس تر قی یافتہ دور میں بھی اس کی بیخ کنی کی کوئی صورت اہل دانش کے یہاں معدوم ومفقود ہے ۔
عرب لیگ کے دعوت پر ہمیں لبنان جانے کا اتفاق ہوا ،جہاں ہمارا قیام بیروت کے روتانا ہوٹل میں تھا ، طرابلس ،صیدا، اور بعلبک کے علاوہ شام کے بارڈر پر بعض علاقوں کے بھی دیکھنے کا شرف حاصل ہوا ،یہاں آکر اندازہ ہوا کہ شام اور لبنان دو جڑواں بچوں کے طرح نشیب وفراز،مزاج ومذاق ،لب ولہجہ اور خون وخومیں بالکل یکساں ہیں ۔

شام میں عرب آبادی 93% فیصد بقیہ کرد ترکمن وغیرہ ہیں ،جبکہ اہل سنت %۸۵ ،%۹ علوی نصیریہ، %۵ کرسچن ،%۳دروز، اسماعیلی اور اثنا عشری ہیں ۔

۱۷ اپریل ۱۹۴۶ میں شام کو فرانس سے استقلال نصیب ہوا، ۱۹۷۰ تک یہاں اکثر وبیشتر فوجی حکمرانی رہی ۷۱ سے تاحال ۹ فیصد علوی آبادی سے تعلق رکھنے والا خانوادۂ اسد حکمراں ہیں، جنہوں نے یہاں کچھ دیگر عرب ملکوں کی طرح بزعم خویش بادشاہت بصورت ڈکٹیڑ شپ قائم کی ہو ئی ہے، نظام حکومت مافیا کے طرز پر چلا رہے ہیں،شام کے لوگوں نے حافظ الاسد سے چھٹکا رے کیلۓ تحریکیں بھی چلائیں ،جن میں ہزاروں لوگ سیکورٹی فور سز کے ہاتھوں لقمۂ اجل بنے ،پریہ لاوا بجھا نہیں ،اندرہی اندر دھکتا رہا ، عرب بہار کے نام سے شرق اوسط کے کچھ ملکوں میں جب انقلابات آئے،توشام کے ایک شہر (دِرعا )میں حکومت خلاف ایک پُرامن مظاہرہ کیاگیا ،جس پرحکومت نے پکڑدھکڑکر کے جیلوں اور انڈر گراونڈ عقوبت خانوں میں تحریکی کارکنوں کو بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا،اس کی خبریں میڈیا پرسنسر کی وجہ سے سینہ بسینہ اورسوشل میڈیا کے ذریعے عام لوگوں میں پھیلتے ہی15مارچ2011 کو دمشق کی جامع مسجد اموی کے سا منے ایک عظیم الشان مظاہرے کا اہتمام کیا گیا ،جس کو حکومت نے زبر دستی منتشر کیا ،سرکردہ افراد کے ساتھ پہلے سے زیادہ آہنی ہاتھ کا معاملہ کیا ،بس پھر کیاتھا ، اس کے اگلے ہی دن سے نہ تھمنے والے مظاھروں کا طوفانِ بلاخیز شروع ہوا، دمشق سے حمص، حلب، حماہ،بوکمال، رستن،تلبیسہ ،ادلب، لاذقیہ اور معرۃ النعمان جیسے تمام شہروں میں روز بروز پھیلتاچلا گیا۔

جواب میں حکومت نے پولیس ،بری ،بحری ،فضائی فوج اور شبیحہ (سادھالباس میں حکومتی جیالوں)کو کھلی چھوٹ دیدی ،جنہوں نے وحشت وبربریت کی وہ تاریخ رقم کی جس کی مثال تاریخ انسانیت اور اقوام عالم حتی کہ صھیونیوں تک میں ملنا مشکل ہے ،نوجوانوں کو بےدریغ شھید کیاجانے لگا،خواتین کی بے حرمتی جنسی زیادتیوں کی شکل میں ہونے لگی ،مکانوں ،محلوں ،مسجدوں ،اور مارکیٹو ں کو بے رحمانہ گولہ باری ،بمباری اور بارود تک سے اڑا کر ملیامیٹ کر دیاگیا۔

انقلابی تحریک کو دبانے کیلئے گھر والوں کے سامنے ماں ،بیٹی ،بہن،اور بہو کو برہنہ کیا گیا ،ان سے جنسی زیادتیاںکی گئی ،گھر وں سے دسیوں نوجوانوں کو گرفتار کر کے انہیں کھلے عام گولیاں ماری گئیں ،ایک ایک محلے اور ایک ایک بستی میں بے شمار بچوں ،بوڑھوں اور عورتوں کو چھریوں سے ذبح کیا گیا ، جنگوں میں بین الاقوامی طور پر ممنوعہ بموں اور ممنوعہ گیسوں کا بے تحاشا استعمال کیا گیا،شورش زدہ علاقوں کے باغات کو ویران ،پلوں کو مسمار ،بجلی کو منقطع اور پانی کی لائنیں کاٹ دی گئیں،بہت سے علاقوں میں بھوک پیاس بطور ہتھیار کام لایاگیا۔

اقوام متحدہ ،سیکورٹی کونسل اور امریکا نے روس اور چین کے ویٹو کو بہانہ بناکر کنارہ کشی اختیار کی ، ایران اور حزب اﷲ نے وحشی حکومت کی مادی ،معنوی اور فوجی مدد کھلے عام جاری رکھی،جب عالم اسلام اور عر بی ممالک حسب سابق قرار دادوں اور مذمتوں سے آگے نہ بڑھ سکے اورآئے روزشھادتوں کا سلسلہ رواں دواں تھا ، تو انقلابیوں نے شروع میں پر امن مظاھرین کی حفاظت کیلئے ہلکے پھلکے ہتھیار اٹھائے ،مگر حکومت کی ھٹ دھر می کے باعث یہ معمولی مسلح جتھے ایک آزادآرمی کی شکل اختیار کر گئے ،جن میں سر کا ری فوج کی صفوں سے نکل نکل کر عام سپاہی سے لیکر جنرلو ں تک آملے،مختلف محکموں کے آفیسروں اور سفیروں سے لیکر وزیر اعظم ریاض حجاب تک انقلابی سیاستدانوں سے مل گئے ،بد غضب حکومت نے گن شپ ہیلی کا پٹروں، میگ طیاروں اور بھاری تھوپ خانوں سے پورے ملک کو ویران کر نا شروع کیا،تو کچھ ملکوں نے آزادآرمی کو اسلحہ فراہم کیا،یوں شام کا یہ مقدس اور خوبصورت علاقہ اپنے ہی خون میں نھاگیا اور نہاتاہی جارہاہے ،ابتک یہاں 4لاکھ سے زائد شھید ،ایک لاکھ کے قریب لاپتہ ہوچکے ہیں اور 8ملین پڑوس کے ملکوں ترکی ،عراق ، لبنان ،اور اردن میں پناہ گزیں ،جبکہ ہزاروں دنیا کے مختلف ملکوں بالخصوص یورپ کی طرف ہجرت کرچکے ہیں، جن میں بےشمار سمندری راستوں میں ہلاک بھی ہوچکے ہیں،معصوم ایلان کردی کا نام اس حوالے سے خاصی شہرت پاگیا ہے۔

اب پچھلے کچھ مہینوں سے آتش وآہن کے اس نامبارک کھیل میں روس نے بھی باقاعدہ حصہ ڈالنا شروع کیا ہواہے،گذشتہ ہفتے جنیوا میں موجودہ کے حل کے لئے فریقین میں مذاکرت بھی ہوئے،جو بے نتیجہ رہے، حلب پرگذشتہ تین دنوں سے روسی فضائیہ کی اندھا دہندبمباری جاری ہے،جس کی وجہ سےترکی سرحد کی طرف بھاگ کرجان بچانے والوں کی تعداد70 ہزار افراد سے متجاوز ہو چکی ہے،یہاں حالات بد سے بدتر ہورہے ہیں،داعش اور ان جیسی تنظیموں کی خونخواری وسفاکی اس سب پر مستزاد ہے،عالم اسلام اور پوری دنیا نےاگر شام میں اس خون آشام کھیل کو روکنے کی سنجیدہ کوششیں نہ کیں،تو یہاں جو کچھ ہوا ہے،وہ تو ہوگیا،مزید خطرناک انسانی المیوں شدید اندیشہ ہے،کاش کوئی سبیل ایسی ہو کہ انبیاء کی یہ سرزمین اور اس کے باسی امن وسکون کی کوئی صبح دیکھ سکے۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 877806 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More